اسماء مصطفٰیﷺ
18 January 2022تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
دہرمیں اسمِ محمّدسے اْجالاکردے
رسول اللہﷺ کے مبارک وصفی ناموں سے اقدارِاْسوہءِحسنہ کا استخراج واستنباط :قَالَ علیہ السلام''اَللہ معطِیٌّ وَّاِنَّمَا اَنَا محَمَّدٌقَاسِمٌ'' ترجمہ۔حضورﷺنے فرمایا اللہ عطا کرنے والاہے اور میں محمّدؐاللہ کی اذن سے تقسیم کرنے والا ہوں(اسانید وجوامع)
ناموں کےاستخراج سب امامِ قرطبیؒ کے رشحاتِ فکر سےلی گئی ہیں۔
دانائے سُبل
18 January 2022تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک صاحب
وہ دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
یہ ہر دو اشعار بالِ جبریل کے غزلیات میں سے ماخوذ ہیں ان غزلیات میں حیکم سنائیؒ کے افکار جلیلہ کی پیروی کی گئی ہے۔حکیم الا مۃؒ نے اس با ت کا اظہار اگلے ہی شعر میں خود فرما دیا ہے۔
سنائیؔ کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لالا
حضرت حکیم سنائیؒ افغانستان کے رہنے والے تھے ۔وہ فارسی زبان کے مشہور فلسفی اور صوفی شاعرہیں ۔حضرت حیکم سنائیؒ اس سلسلۃ الذّہب کے ترجمان ہیں جس میں درخشاں کو کب حضرت جلال الدین رومیؒ ہیں۔
ما از پئے سنائیؒ و عطارؒ آمدیم (عارف رومیؒ) (میں سنائیؒ اور عطّارؒ کے قدموں(صحبت)سے آیا ہوں)
اس سلسلۃ الفکر کی آخری کڑی بلا شبہ حکیم الا مۃ اقبال لاہوریؒ ہے۔یہ فکر سلسلہءِ عزیمت خانہءِ اہلِ بیتِ اطہار سے آغاز پزیر ہوا ہے۔اس دبستانِ فکرو اظہار میں شریعت،طریقت، معرفت، حقیقت ،تفلسف ،وتعقل اور نظریہءِ حقیقتِ محمّدی ؐیہ سب کچھ بصیغہءِجمال(اچھے اندازسے) بیان ہوا ہے۔اس سلسلۃ الرو حانیہ والفکریہ(روحانی اور فکری سلسلہ) کے سرخیل (Leader)و سرتاج امام عالی مقام خود ہیں۔
ہم رہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے
اور قافلہ سالار حسین ابنِ علیؑ ہے
ا
خْلقِ محمدی
18 January 2022مخلوقات میں خلقتِ انسانی کو اللہ تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق چند ایک افعال اور مظاہروں کا نام نہیں ، جزوی ، اظہارات تک بھی محدود نہیں بلکہ ظاہرو با طن کی یگا نگت کے ساتھ ایک جمال آ فرین رویہ کا نام ہے ۔اس رویہ کی برکت اعتقادات و نظریات ، خیالات وا حسانات ، نیت وارا دہ ، معاملات واشغال پر محیط ہے ۔ صدق و امانت کا یہ صنو فشاں رویہ صادق وامین اور صاحبِ خلق ِعظیم کے دم قدم سے استقامت پذیر ہے ، حکیم الا مۃ نےتا ریخی اور اثری حقائق کی روشنی میں اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ کوئی بھی قوم یا خطہ بے شک جتنا بھی تقدس مآب پسِ منظر کیوں نہ رکھے ، خْلق ِمحمدی سے بے نیاز ہونے کی صورت میں اپنی اہمیت وافادیت اور وقار وتشخص کھو دیتا ہے ۔
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدِ عربی سے ہے عالمِ عربی
نسبتِ حبیبﷺ سے بندہ بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگاا ور قوم بھی اللہ کے منظورِ نظرہوگی ۔ اس قرآنی حکمت کو علامہ اقبال ؒنے اپنے فارسی و اردو کلام میں نہایت شکوہ و سطوت اور ولولہ و حرارتِ ایمان کے ساتھ کھولا ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں
حضرت نے نسبت کی اس وقعت و وا قعیت کو انتہائی جا معیت کے ساتھ ذہن نشین کرایا ہے ، صدر اول کے مسلمان ہوں ، تا بعین و تبع تا بعین ہوں ، خیر القرون ہوں ، ملوک و سلا طین ہوں ، عرب و عجم جو بھی ہوں ، اگر
خْلق ِمحمد سے منحرف اور نسبتِ محمدی سے محروم ہو گئے تو کچھ بھی حا صل نہیں بجز حرماں نصیبی اور خسران کے ۔ حکیم الامۃ نے رسول اللہ ﷺ کے سگے چچا کی مثال دی ہے ۔
یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!
منہجِ تذکرہ اور حکیم الامّۃؒ کی ازواجی زندگی
11 January 2022جن قارئینِ محترم کا تناظر علمی ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منہجِ تذکرہ کا متمکّن اسلوب اثبات ہے، اہلِ سیرت اور فلاسفہ کا مؤقّف ہےکہ نفی و تضاد اثبات کے تعیّن و تشخص و تتمیز کے لئے ہوتا ہے اس لئے سَلبی اظہار امکانی و اعتباری علمی رویّہ نہیں ہے اس حوالے سے متکلّمین اور مشربیّین کے رشحاتِ جلیلہ اور افکارِ متبحِّرہ بطورِخاص قابِلِ لحاظ اور لائقِ تجلّب ہیں۔
کائنات میں خَلقی اور خْلقی سطح پر اعظم و ازکیٰ و اطہر و اطیب و اقدس اعتباری ہستی رسول اللہﷺ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خِلافِ اولیٰ پر آنجناب رسالتِ مآبﷺ ازواجِ مطہّرات(امّہات المؤمنین)سے شکر رنج ہوکر مسجدِنبوی شریف میں معتکف و متراہب ہوگئے تھے تو کیا یہ عمل غیر مستحسن کے طور پر مذکور تصوّر بھی کیا جاسکتا ہے (العیاذباللہ والصّلٰوۃ علیٰ رسولہٖ والتّسلیم وعلیٰ امہاتنا الحلیم)۔
یہ عمل متوجہ و متراجع بصائر ہے، رسول اللہ ﷺ کا مقامِ رضا اس واقعہءِعبیرہ میں مستظہر ہے اور امّہات المؤمنین کا منصّہءِامتیاز اور مرتبہءِ اعزازمتجلّیٰ ہے۔ چنانچہ تبصیرِتنزیل ملاحظہ فرمائیے اور خطیرہءِاثبات کی جلوہ گری دیکھیئے:
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء”(الاحزاب۔32) نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ "(الاحزاب۔6) نبی تو مؤمنوں کے لئے اْن کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہےاور نبی کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔
قرآنِ عظیم سے مستفاد و منصوص اس تلمیح و اشارت کے بعد جو منہجِ تذکرہ اور اسلوبِ جلب و اثبات پر محاکمہءِایجاب (Constructive doctrine) فراہم و ارزاں کرتی ہے۔ نفسِ مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں:
ملّی اساطین اور قومی رجال کو مختلَّف و متنازعہ فیہ بنانے کا عمل بتحقیق و تدقیق بھی منشوء و مختار نہیں ۔آپ سب مشاجرات، مسلّمات، مصفیات، مؤتفِقات اور مختمات ایسی مصطلحات سے واقف ہوں گے اور اِن علمی مختارات کا دائرہ تکلّْف و نفوذ بھی جانتے ہوں گے۔
نقد و نظر
11 January 2022اَفَحُکۡمَ الۡجَاہِلِیَّۃِ یَبۡغُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکۡمًا لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ'' المائدہ 50)
ترجمہ ۔ کیا یہ جاہلانہ دستور کے خوگر ہیں جبکہ اللہ کے دستور سے بڑھ کر احسن دستورِحیات اہلِ یقین کے لئے اور کون سا ہوسکتا ہے۔
یہ اور اس کے علاوہ تین آیات میں اس طرح کی تراکیب کا احتمال و استحضار ہے:-
1۔ حکم الجاہلیۃ 2۔ ظن الجاہلیۃ 3۔ تبرج الجاہلیۃ 4۔ حمیّۃ الجاہلیّۃ
قرآنِ مجید اپنے اجزاء کے بارے میں خود بتاتا ہے، بس قرآنِ مجید کی اجمالی اور جمالی تفسیر یہی ہے۔ اس کے بعد تعینِ معانی کا حق صرف مہبطِ وحیﷺکو ہے اور آپﷺ کے تعلیم و اذن سے آپﷺ کے اہلِ بیتؑ، اقاربؑ، ازواجِ مطہّراتؑ(امہات المؤمنین) اور صحابہءِاکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے۔ تابعین ، تبع تابعین، سلفِ صالحین اور بعد کے اہل الرّائے کو تدبّر فی القرآن کی ترغیب دی گئی ہےجو آخر زمان (End of time) تک میسّر رہے گی لیکن اس کے لئے تمسّک بالسنّۃ والعترت شرطِ لازم ہے، مجرّد زبان دانی اور قابلیّت ثانوی استحقاق ہے۔
ہماری تفسیری تاریخ میں چند ایک تسامحات ایسے چلے آرہے ہیں جو مروّجہ اظہارات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلًا:
جہالت اور جاہلیّت کا فرق جاننا ضروری ہے۔ جہالت' نہ جاننے 'کو کہتے ہیں، اس میں نہ جاننے والا کبھی معذور، کبھی مجبور اور کبھی قصور وار ہوتا ہے۔ جاہلیّت حق کے شایع ہونے کے بعد مصر بر ناحق رہنے کا نام ہے۔ جہالت کا متضاد عِلم اور جاہلیّت کا متضاد اسلام و تسلیم ہے۔ نفاق کا متضاد ایمان، رخصت کا متضاد عزیمت اور مداہنت کا متضاد استقامت ہے۔
ایچ آر کا قرآنی تصوّر
11 January 2022ایچ آر کا قرآنی تصوّر
تحریر: زیدگل خٹک صاحب عفی عنہ بتشکر: کرنل نویدظفرصاحب
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مزاجِ اجتماعی سے نوازا ہے اور مدنی الطّبع بنایا ہے۔ وسائلِ ارض اس کے تصرف میں دئیے ہیں اور اختیارِ توفیقی سے متمتّع فرماکر عادلانہ روِش کا پابند بنایا ہے۔ اطاعت کی صورت میں ماجور اور بغاوت کی حالت میں معیوب قرار دیا ہے۔ اس کی سرِّیّت اور مظاہرِ فطرت میں ہدایت ودیعت کرنے کے علی الرّغم ترسیل و تنزیل کا اعلیٰ و ازکیٰ انتظام انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ شفقت کا آئینہ دار ہے۔
قرآنِ عظیم اللہ کا بے بدل کلام اور لاریب صحیفہ جو حضور ختم ا لمرسینﷺ کے قلبِ اطہر پر منزّل (Revolted) ہے۔ ہدایت و حکمت کی تمام ضیاپاشیاں جلو میں رکھتا ہے اور کسی بھی گوشہءِحیات اور صیغہءِکار کو اپنے ابدی انوارات سے محروم نہیں رکھتا ۔ قرآن کا مخاطب (Being addressed) حضرتِ انسان ہے خواہ وہ منعم ہو یا مفلس، اٰجر ہو یا اجیر، مطاع ہو یا مطیع! دورِ جدید میں نسبتًانئےتقاضے نئے اسالیب کے متجسس ہیں۔
ہیومن ریسورسز کی انگریزی ترکیب ایک منصّہءِتعلیم و تربیت بن چکی ہے۔ اردو میں اگر اس ترکیب کا نِکھرا ترجمہ کیا جائے تو انسانی وسائل و وسائط یا افرادی تقویم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے لسانی جمالیات میں اس دامنِ فکر و عمل کے لئے دیدہ زیب اور پرسطوت مصطلحات میسّر ہیں:- شؤْن العباد، حلّْ الافراد، مردانِ کار، عقودالبشر، واسلانِ کار، اہلْ العمل۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید اس خاص حوالے سے ہمیں نہایت اور غایت درجہ عمدہ اشارات و الطاف مرحمت فرماتا ہے: ''إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ''( النّساء58)۔
ترجمہ و مفہوم: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے دائرہءِ مؤدت میں امانت و منصب ان لوگوں کو تفویض کرو جو اْس کی اہلیّت رکھتے ہوں، اور یہ کہ وہ( تفویض کئے جانے والے اور تم تفویض کرنے والے) جب لوگوں کے مابین کوئی فیصلہ یا معاملہ کریں تو وہ فیصلہ و معاملہ عدل و فضل کے ساتھ کریں ۔ بے شک اللہ تمہیں بہترین موعظت دیتا ہے ان تمام حوالوں سے اور بلا شک اللہ جلّ شانہٗ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
یہ آیتِ مبارکہ اور دیگرآیاتِ موضوعِ متعلّقہ پر تدبر کی دعوت دیتی ہے۔سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے '' جس نے قرآن کے جزو کو سمجھ لیاگویا اْس نے قرآن کے کْل کو سمجھ لیا''
آئیے ایچ آر کے تناظر میں اس جزوِ مبارکہ سے راہنمائی لیتے ہیں:-
یَامرکم : از خود اس سے بحث کرتا ہے کہ معاملہ امر کا ہے، اللہ جلّ شانہ کے حکم کے تحت امارت، ماموریّت، متاھَیّل اور اہل کی بات روبہءِ ذکر ہے۔
تؤدّ : اہل کا انتخاب متعلّقہ لوگوں میں سے کرنا ہےجن کے کوائف معلوم اور مستند ہوں اور جن سے آپ روشناس اور مانوس ہوں، جن کے طبائع میں سپاس گزاری اور فرمانبرداری کا جذبہ ہو، جن کے رویّوں میں تمہارے لئے عزّت اور محبّت ہو چونکہ آگے جاکر یہی لوگ تنظیمی سطح پر آپ کے لئے ممد و معاون اور تنظیم کے لئے مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتےہیں۔
امانات : جو چیز یا وظیفہ( Obligation) تم کسی کو دے رہے ہو وہ تمہارے پاس بھی اختیاری درجہ میں امانت ہے، جہاں تک تم مکلف ہو اور تدبیر کے دائرہ میں کار گر ہو، اہلِ فرد تک اْس امانت کی ترسیل تمہاری ذمّہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ذمّہ داری تفویض کرنے سے پہلے اور دورانِ ادائیگی فرض اہلیّت و افادیّت کا ماحول میسّر و مہیا رکھنا بھی تمہاری تعلیق ہے۔
حکمتم : یہ اہلیّت اختیار نہیں بلکہ لازمی ہے اس لئے کہ ان مفوّضہ لوگوں نے آگے اہم فیصلوں اور معاملات کو سر انجام دینا ہے، ان کی کوتاہی کے مضر اثرات خود تمہاری طرف اور اجتماع کی طرف لوٹیں گے اس لئے ان کی تربیّت و تحکیم تمہاری توجّہ کی بطورِ خاص حامل ہے۔
عدل : عدل قرآن کا اصل الاصول ہے عدل کا متضاد ظلم ہے۔ سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے : ''تعرف الأشياء بأضدادها'' چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ توحید عدل ہے چونکہ شرک ظلم ہے، تصدیق عدل ہے چونکہ تکذیب ظلم ہے، کسبِ حلال عدل ہے چونکہ نفقہءِحرام ظلم ہے، اس طرح اہلِ فرد کا تقرّر عدل ہے چونکہ نا اہل فرد کا تقرّر ظلم ہے۔
یَعِظکم : اللہ کی شفقت ہے کہ اس کریم نے وعظ کا لفظ نازل فرمایا ، یہاں وعظ کا مطلب یہ ہے کہ ایچ آر کی ایسی تفویض و ترتیب میں تمہارے لئے فلاح ہے اور تمہارے اداروں کی رفاہ بھی متمکّن ہوگی۔
سمیعًا بصیرًا : ان صفاتِ عالیہ میں در پردہ احتساب و مؤاخذہ ( Impeachment )کا اشارہ مضمر ہے کہ اپنا احتساب خود کرو، توازن و اعتدال رکھو، دیانت ملحوظِ خاطر اور خیانت و بدعنوانی بر طرف رکھو وگرنہ ''یومَ یقوم النّاس لرِبِّ العالَمینَ'' کےموقع پر خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب اْن صفاتِ محمودہ ، شمائلِ مسعودہ اور خصائصِ مطلوبہ کا ذکر کرتے ہیں جو قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے از اوّل تا آخر بیان فرمائے ہیں بلکہ کمالِ ترغیب کے ساتھ نہایت دِل کش انداز سے ذکر فرمائے ہیں جو بلا شبہ ایچ آر کا اعلیٰ و اولیٰ و افضل اسلوب ہے ہم ان محامد و محاسِن کی تعداد 92 رکھتے ہیں تاکہ مزکّیِ اعظم اور مربّیِ اکبرﷺ کے نام مبارک '' محمّد'' کے اعداد کے ساتھ نسبت قائم ہوجائے۔
- متّقین : عقل و فہم و زہد والے۔
- اٰمنین : امانت دار ، راز رکھنے والے۔
- مصلحون : اصلاح کرنے والے، سلجھانے والے۔
- صادقین : صدق شعار اور صدق بردار۔
- راکعین : اللہ کے حضور جھکنے والے ظاہری اعتبار سے۔
- خاشعین : اللہ کے حضور جھکنے والے قلبی اور باطنی اعتبار سے۔
- شاکرین : شکر گزار، نعمتوں کے ضیاع سے بچنے والے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتیازی اسلوبِ تزکیہ و تعلیم
11 January 2022امتیازی اسلوبِ تزکیہ و تعلیم
عنوان کا استدراک : '' یزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ''
توجیحات : دارالارقم، اصحابِ صفّہ، کاتبینِ وحی، الغارمین فی سبیل اللہ، دارالفاطمہ، منبرِسلونی، دارالزّبرۃ، مکتبِ جنیدیہ، دارالارشاد، (دارالارشاد غوثِ پاکؒ کی درس گاہ تھی) حلقات المسجد النبویّہ، نظام الطّوسیہ(امام غزالیؒ کی درس گاہ)، مجلس المصائب والبصائر و العبائر(امام سجادؒ کی درس گاہ)، دارالنّحبۃ الفکر( شیخِ اکبر ؒکا تحقیقی لجنہ)، ترتیب الافراد و تصفیۃ القلوب(نظام الدین اولیاءؒ کا نظامِ تعلیم)، اسفارالاخوان(اخوان الصفا کا وزیٹنگ سکول) ۔
تصریحات : سیّدنا علیؑ، سیّدنا جعفر، سیّدنا زیدبن ثابت، سیدہ طیّبہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام، ام المؤمنین عائشۃ رضوان اللہ علیہا، سیّدنا ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام سجاد زین العابدینؒ، امام غزالیؒ، امام ابنِ غزالیؒ، خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ، حضرت محمّد بن علی مشہدیؒ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔
نوٹ : تاریخِ تزکیہ و تعلیم و تربیّت میں اور کئ ایسی مثالیں مظہر ہیں، چند ایک ذکر کردی ہیں تاکہ واضح ہو کہ یہ نظام طبع زاد نہیں بلکہ متداول ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مکّہ شریف کے معاشرہ سے مفلوک الحال اور مجبورالمال افرادِ ملّت کو اپنی خاص توجّہ کا مرکز بنایا، مدینہ طیّبہ میں آپﷺ کی خصوصی نظرِ التفات کا محور یہی اور ایسے ہی لوگ رہے۔ لطفِ ربّانی نے آنحضور ﷺ کے اس جاں گداز رویّہ کو صرف نظرِ استحسان سے ہی نہیں دیکھا بلکہ ترغیبِ مزید دی: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ '' اور اے حبیب ﷺ آپ اپنے معارف و انوارِ نفس ِ قدسی سے ان لوگوں کو متمتّع فرمائیں۔ ''وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ''(الکہف 28)یا رسول اللہ ! آپ ان لوگوں کو اپنی لطفِ نگاہ کے فیض سے محروم نہ کریں۔
ہم تاریخ کی پیشانی پر انہی ہستیوں کو منصبِ تعلیم و تربیت اور منصّہءِفلاح واصلاح و رفاہ کے حوالے سے متمکن و مؤثر و مفید دیکھتے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے معاشرے سے صرف انسانی بنیادوں پر انتخاب فرمایا اور امتیازی و خصوصی تزکیاتی و تربیّتی و تعلیمی اسلوب سے گزار کر سیّادت، نظامت، ادارت اور قیادت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز کردیا۔
ان حضرات کے پاس ابتداء میں کوئی صلّہ(Return) نہیں تھا لیکن امتیازی تعلیم و تربیّت نے ان کی ذواتِ مبارکہ کو انسانی معاشرے کے لئے دنیوی و اخروی صلہ بنادیا اور پھر یہ طریقہءِتعلیم کبھی انقطاع و تعطّل کا شکار نہیں ہوا اور نہ کسی طرح حکومتی سرپرستی سے مطلقًا بے نیاز ، اپنی مدد آپ کے تحت معجِّز و مقوَّم یہ نظام نو آبادیاتی تسلط سے پہلے تک چلتا رہا، صرف یہ نہیں کہ چلتا رہا بلکہ بہترین اثرات کا متحمّل رہا۔ چند ایک کامیاب و کامران سلاسل ہائے تزکیہ و تعلیم کا حوالہ میں نے توجیحات کے ذیلی عنوان کے تحت عرض کردیا ہے وگرنہ عبر و عنبر زلفِ مشکیں دراز ہے۔
اس کا قاعدہ ،تقویم اور تنظیم (Foundation Sustaining, accomplishment)کے لئے تصریحات میں متذکرہ لجنات و درّاسات لائقِ تقلید اور قابلِ اتّباع ہیں۔ میں صرف ترغیبًا طوس کی مثال سے اپنی ادّعا کو مترشّح کرنا چاہونگا۔
'' حصولِ تعلیم کے بعد اس یتیم شعار معلّم نے کمال کردیا تھا، ان کی والدہءِکریمہ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عینِ جوانی میں اپنی حیاتِ مستعار کی تمام خوشیوں اور آسائشوں کو تج دیا، اپنی ساری توجّہ اپنے دو بچوں محمّد بن محمّدغزالیؒ اور احمد بن محمد غزالیؒ کی تعلیم پر مرتکز کردی۔ جب شوہر کا ترکہ اور اپنے اثاثے (زیورات وغیرہ) ختم ہوگئے تو اپنے مرحوم شوہر کے ایک وفادار حضرت رازکانیؒ (جو متموّل تاجر اور عالم با عمل تھے ) سے اپنے بچوں کی تعلیمی کفالت کی درخواست کی ، موصوف تعلیمی سرپرستی کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، اْن کی مالی ولاء سے امامِ غزالیؒ نے حسبِ ضرورت نہایت قناعت اور کفایت کے ساتھ استفادہ کیا، تب بغداد، نظامیہ، عبرون، نیشاپور، سلاجقہ کو اپنے علمی برکات سے نوازتے ہوئے یہ امتیازی معلّم ، متکلّم ،محدّث، عارف، ناظم، قیّم، فقیہ اور مربِّیءِعلم و تعلّم نے اپنے وطنِ مالوف طوس میں امتیازی تزکیہ و تعلیم کا ایک عظیم الشّان مرکز بنایا جو سلسلۃ النظامیّہ کی بھی آنکھیں خیرہ کررہا تھا۔
تعمیر تین بڑے کیمپس پر مشتمل تھی:
- مسجد : جس میں تمام مکاتِبِ فکر کے مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت تھی، فجر کے بعد درسِ قرآنِ مجید اور جمعۃ المبارک کا وعظ حضرت خود فرتے تھے۔
- درس گاہ : ایک جامعہ (University) جس میں فلسفہ، تاریخ، تفسیر، حدیث، منطق، کلام، نحو، تعدیل جغرافیہ، ہندسہ، کیمیا، طبعیات ، ریاضی ، نجوم، صنعت، حرفت اور کسب سب علوم و فنون زیرِتدریس تھے۔
- خانقاہ : جس میں تصوّف بطورِ فلسفہءِحیات و نصاب پڑھایا جاتا تھااور روحانی تربیت و تزکیہ ( انابت، عقیدت، خلق، خدمت، ارادت، مجاہدہ، مراقبہ، مسامرہ، مکالمہ، مشاہدہ، مفاردہ، مجاردہ، فنا، بقا) کا بہترین نظام کار فرما تھا یعنی قال و حال و تمکین یکجا تھے۔
- نظامت :
دارالتوہیب : اس دفتر میں عطیات، موہبات، تحائف و تصدق( Contributions, Donation, Charities) جمع ہوتے تھے۔
دارالمشاورت : اس میں اعلیٰ سطحی مشورے ہوتے تھے۔
دارالترغیب : اس میں والدین اور مخیّر حضرات کو تعلیم پروری کی ترغیب دی جاتی تھی۔
دارالاحتشام : اس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے بچوں، والدین، اساتذہ، اور سماجی کارکنوں کو اعزازات دئیے جاتے تھے۔
دارالتّحقیق : یہ تحقیقات کا مرکز( Research center) تھا جس میں حضرت استاذ الغزالیؒ خود رونق افروز ہوتے تھے، یہاں سے ماہرین اطرافِ عالم کی طرف کوچ کرتے تھے تاکہ اور ادارے بنائیں۔
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت
تیرا وجود الکتاب
11 January 2022
لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
اس شعر میں مبالغہ ہے اور نہ ہی مغالطہ بلکہ حقیقت کی منظوم اور دلکش ترجمانی ہے اس حقیقت سے روشناس اور مانوس ہونے کے لئے اس بیت کے علمی، خبری اور اثری پسِ منظر میں جانا لازمی ہے؛ اور وہ یہ کہ خالِقِ کل ، فاطرِ حقیقی، بدیع السّمٰوات والارض اور وجودِ مطلق و حسنِ ازل اپنی شانِ یکتائیّت و الوہیّت و صمدیّت و علویّت میں موجود ہے، تھا اور رہے گا(یاد رہے کہ الفاظ حقیقت سے ابعدالبعید ہیں) اْس ذات ِ بحت، ذاتِ مطلق، ذاتِ واجب کے ساتھ دوسری شے/ چیز ماسوائے اْس کی صفات ، اسماء ، اختیارات، تصرفات، تجلیات اور انوارات کے قطعًا موجود نہیں تھی، تب اْس کریم محب و مکون نے کمالِ لطف وعنایت سے ااپنے اکنون ( قدرت، محبّت، تدبیر، تقدیر، ارادہ) کو ظہورِ اعتباری و امکانی عطا فرمایا۔
کلامِ سرّیّت و شریعت میں جوہر و الطاف و اوامر و معانی و امثال و عناصر ( جبروت و ملکوت و مثال و ناسوت) میں صرف اور صرف امکانات و اعتبارات و برکات و ظلّیّات و بروزات و پرتوات ہیں۔ اعیانِ خارجہ میں تعیّنِ اوّل حقیقتِ محمّدیہ ہے ، باقی تمام تعینات اس تعیّن، اوّل کے اجزاء و تفاصیل اور تنوّعات و ینابیعات ہیں۔
Makhdoom
7 January 2022Every single thing that exists in this Universe is Allah's creation. Man and his actions are all Maklook. Man is distinguished amongst other creations. All other creation is for Mankind's khidmaat. Man is Makhdoom.
Allah blessed every creation with Nutkh, the ability to speak and communicate. Allah tells us in the Qur'an that everything does namaz and zikr but Man cannot understand them.
Sulayman alayhis salaam spoke with mountains, insects, birds...
Stones said salaam to Beloved Rasoolallah (s) and trees prostrated before him.
So we see that everything has Nutkh, expression and speech which Allah has blessed them with. But the most beautiful and eloquent speech, Allah gave to man. The speaker and the speech is His makhlook.
Ibn e Arabi (ra) says Haq is only haq when you speak the Truth. What is better in Allah's Eyes is surely better for Mankind.
Man has been granted exclusive (taufeeqi) decision making power. No other creation has this power. They have (takveeni) limitations. Man can speak the truth, tell lies, say half truths, speak deceptively, speak for other people's benefit, speak to guide others, speak to confuse others, speak to bewilder others, speak to worry others etc etc.
This decision power will end with Man's worldly life. Everyone will be presented before Rabb taala. Those who chose Haq will be rewarded and those that chose Ghayr e Haq will face His wrath.
Ibn e Arabi (ra) says we should realise our lofty state (martaba) and live in accordance with Allah's set boundaries. For example He has ordered us to earn halal money. If we do that we will be successful. We should relinquish all our ill desires. We must leave our wishes and adopt Allah's wishes.
Ambiya alayhis salaam and foremost Beloved Rasoolallah (s) have delivered to us the boundaries that Rabb taala has set for us. They have delivered to us Allah's amanat, wahi, ayats, mansha, shariat and tariqat. Ambiya's haqayaat, talkinaat, naseehatain, irshaadaat and farmudaat help us determine our boundaries. We know our limits on how to eat, dress, use authority, worship, behave etc etc.
If Man decides to adopt Haq in his life he has to follow Beloved Rasoolallah (s). By doing this Man will be on the straight path. If not, Man will get lost in the chaos of this World.
May Allah keep us steadfast on the right path.
Ameen.
By Prof Zaid Gul Khattak
Allah is Rooh ul Alameen.
7 January 2022All that exists in the Alams is Soorat, Anwaraat, Tajalliyat, Baruzaat and Barakaat of Allah's Ism o Siffaat. Makhlooq is the Soorat of Khaliq. Risk is the Soorat of Razzak.
The High Skies are the Soorat of Rafayo. The sun and shinning stars are the Soorat of Noor. Shafi created Shifa. Mujeer created Hifazat. And so on...
Allah is Rooh ul Alameen. The Rooh and Basis and Tehreek of all the Alams. He created everything with Kun. He made Mankind Makhdoom and everything else is Khidmaat. He made beloved Rasoolallah (s) the Markaz and Mehvar of all creation. He made him Makhdoom e Ala, Azam, Anwar. He made beloved Rasoolallah (s) His Mehboob.
Allah is Badi, Khaliq, Faatir, Rafay... these Asma created grand things, the Universe, Alams and all that it contains.
Biggest Shahid is Allah
7 January 2022Ibn e Arabi (ra) says the Biggest Shahid is Allah Himself. And those He has chosen as Shahids, like His Ambiya alayhis salaam. Beloved Rasoolallah (s) is the leader. This is His choice, His favour.
In everything that is Mashood, Zahir and Batin, Maanvi or Vajoodi - Allah is the Asal, Real Mashood. He is Asal Mashood because He is Asal Moujood. He is Haqeeqat ul Haqeeqat. He is Wajib ul Wajood. All else is Itabaar, Imkaan and Mumkinaat.
مصادر دینیہ میں دوسرے نمبر پر حدیث
6 January 2022مصادر دینیہ میں سب سے پہلا مصدر قرآن مجید فرقان حمید
6 January 2022Educational Programs
5 January 2022تعلیم و تربیّت
روح فورم کے اصلاحی، فلاحی اور رفاہی پروگرامز میں ترجیحی توجہ فروغِ تعلیم اور منہجِ تربیت کو حاصل ہے۔انسانی تعمیر و ترقی میں تعلیم وتربیت کا کردار خاص توجہ کا متقاضی ہے۔قرآن و سنۃ ، آثار ِ انبیاءِؑ اکرامؑ، وثائقِ اہلِ بیت علیہم السلام، بصائرِ امہات المومنین علیہن السلام نظائرِ اصحابہءِ اکرام رضی اللہ عنہم، رشحاتِ اسلافؒ و اخلافؒ اور مشاہیرِ عالم کے افکار ِ جلیلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی و تربیتی جادہ کچھ اس طور مدوّن و مترتب ہونا چاہیے۔
الف) ترغیبی طریقہءِ تعلیم و تربیت
اس طریقہء تعلیمی و تربیت کو جماعت اول سے جماعت ہشتم تک زیرِ تدریس رکھنا چاہیے۔اس طریقہ میں امام غزالیؒ، ابنِ رشدؒ، ابن طینؒ، ابن ِ زجارؒ الماوردیؒ، الفرابیؒ، سقراط اور شیکسپئر و ورڈز ورتھ (Shakespeare and Wordsworth) ایسے مشاہیرِ عالم کے افکار و ترغیبات سے استفادہ کر کے بچوں کو جبلّی اوصاف کو اثباتی طور پر نشونما دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ودعی جذبہء خیر پروان چڑھے اور شر کے احساسات فنا ہوتے چلے جائیں۔اس منطقہءِ تدریس میں ہم بچوں کے طبائع میں تعلیم و تربیت کے مفید اثرات کی پرورش کر سکتے ہیں ۔یوں ایک مضبوط بنیادِ تعلیم آگے کےمراحل میں ہمارے لیے نہایت افادیت پرور ہو گی۔
ذوقی طریقہء تعلیم و رتربیت:-
اس طریقہ کو جماعت نہم سے جماعت د و دہم(Fa, fSC)تک مروج و متداول(IN PRACTICE) رکھنا ہے۔اس میں جندیؒ، عطارؒ، قونویؒ، رومیؒ، سنائیؒ، خاقانیؒ، نظیریؒ، سعدیؒ، شیرازیؒ، بیدلؒ، غالبؒ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ، برگساں، فیثا غورث، نطشے، المانوی(گوئٹے) ، ٹیگور ایسے جبالِ فکر و نظر کے اظہارات و رشحات سے (EXTRACTUATION) کر کے بچوں کے فطری قابلیتوں کا اثباتی تنوع(POSITIVE GROUTH) دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ذوقی رجحان اور وجدانی حظ(iNTUITIONAL tALENT) بیدار ہو جائے۔وہ اپنا تشخص پا لیں۔کائنات میں اُن کو انسان کے محوری و جوھری مقام (CENTRAL & ESSENTIAL STATUS) سے روشناسی ہو جائے۔اس طرح معرفت ِ نفس کا باب کھلے گا۔یہ وہ منزل ِ تعلیم و تربیت ہے جہاں انسان ترغیبی و ترہیبی سطح سے بہت آگے بڑھ کر ذوقی طور پر اقدار (VALUES) سے مانوس ہو جاتا ہے ۔اب وہ خیر کو با تکلف(FORCE FULLY) نہیں بلکہ بے تکلف اخیتار کرتا ہے چونکہ اُس نے ترغیبی اور ذوقی طور پر حق کو دریافت کر لیا ہوتا ہے۔
ج) علوی طریقہء تعلیم وتربیت
اس اختصاصی (CLASSIFIED) طریقہ کو ڈگری، تعلیقی اور تحقیقی مدارج(BA, MA, MPHIL, PHD) میں بروئے تدریس رکھا جائے۔یہاں پر مزکورہ مراحل سے گزر کر ایک مُتَرَغَّب (MOTIVATED & INSPIRED) اور مُتَزَوَّق (NATURALIZED QUALIFIED) جماعتِ طلباء میسر ہو گی جو ایک طبیعت ِ جاذبہ ، نفسِ ناطقہ اور شعورِ باصرہ رکھتے ہونگے۔اس لیول پر ہم اُن کو اعلی افق کی طرف گامزن کریں گے اور حکیم الامت ؒ کا وہ نعرہ جلوہ گر ہو گا جو انہوں نے بہت یقین سے لگایا:
جہاں اگرچہ دگر گوں ہے قم باذن اللہ
وہی زمیں، وہی گردوں ہے قم باذن اللہ
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ
علامہ زید گل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت