مخلوقات میں خلقتِ انسانی کو اللہ تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق چند ایک افعال اور مظاہروں کا نام نہیں ، جزوی ، اظہارات تک بھی محدود نہیں بلکہ ظاہرو با طن کی یگا نگت کے ساتھ ایک جمال آ فرین رویہ کا نام ہے ۔اس رویہ کی برکت اعتقادات و نظریات ، خیالات وا حسانات ، نیت وارا دہ ، معاملات واشغال پر محیط ہے ۔ صدق و امانت کا یہ صنو فشاں رویہ صادق وامین اور صاحبِ خلق ِعظیم کے دم قدم سے استقامت پذیر ہے ، حکیم الا مۃ نےتا ریخی اور اثری حقائق کی روشنی میں اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ کوئی بھی قوم یا خطہ بے شک جتنا بھی تقدس مآب پسِ منظر کیوں نہ رکھے ، خْلق ِمحمدی سے بے نیاز ہونے کی صورت میں اپنی اہمیت وافادیت اور وقار وتشخص کھو دیتا ہے ۔
نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمدِ عربی سے ہے عالمِ عربی
نسبتِ حبیبﷺ سے بندہ بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگاا ور قوم بھی اللہ کے منظورِ نظرہوگی ۔ اس قرآنی حکمت کو علامہ اقبال ؒنے اپنے فارسی و اردو کلام میں نہایت شکوہ و سطوت اور ولولہ و حرارتِ ایمان کے ساتھ کھولا ہے ۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں
حضرت نے نسبت کی اس وقعت و وا قعیت کو انتہائی جا معیت کے ساتھ ذہن نشین کرایا ہے ، صدر اول کے مسلمان ہوں ، تا بعین و تبع تا بعین ہوں ، خیر القرون ہوں ، ملوک و سلا طین ہوں ، عرب و عجم جو بھی ہوں ، اگر
خْلق ِمحمد سے منحرف اور نسبتِ محمدی سے محروم ہو گئے تو کچھ بھی حا صل نہیں بجز حرماں نصیبی اور خسران کے ۔ حکیم الامۃ نے رسول اللہ ﷺ کے سگے چچا کی مثال دی ہے ۔
یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!