آج کے دن تمہارے ساتھ سخت برتاؤ نہیں ہوگا
استاد کا رویہ جابرانہ نہیں بلکہ مشفقا نہ ہونا چاہیے تاکہ تلامذہ حقیقی اثر لیں اور ان کی زندگیوں میں صالح انقلاب آئے
"سیدنا موسی فرماتے ہیں: إِنَّ مَعِيَ رَبّي سَيَهْدِيْنِ"(الشعراء96)
"میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے راستہ دے گا "
استاد کی ذمہ داری ہے کہ شاگرد کے دل میں اللہ کی معیت کا احساس پیدا کرے۔
سیدنا اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
" سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ "(الشعراء102)
صبر ایک بڑی استعداد ہے "
زندگی کےابتلا آمیز شاہراہ پر صرف صابر شخص کامیاب سفر کر سکتا ہے۔ معلم پر لازم ہے کہ اپنے طلبا کو صبرشعار بنائے تاکہ صبرآزما مراحل میں وہ شکست خوردہ نہ ہوجائیں۔
سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:"مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ"(اٰلِ عمران52)
" اللہ کی راہ میں میری نصرت کون کرےگا باہمی تعاون اور نصرتِ حق کے جذبات پروان چڑھانا
تعلیم وتربیت کا اہم حصہ ہے۔
بچے کا ذہن ایک لوحِ خام کی مانند ہے استاد اس لوح پر نقش مرتب کرتا ہے۔ اگر نقاش محنت و مہارت سے نقش مرتب کرے تو یہ لوح خام منقش اور دیدہ زیب ہوجاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے کہ وہ ایمان کو تمہارے لئے محبوب رکھتا ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں مزین کرنا چاہتا ہے ۔حب کا اصل معنی دانہ ہے۔ استاد کا کام اس دانہ کو آب ِتعلیم دے کر پروان چڑھانا اور بارآور کرنا ہے۔ قلب کے اندر ایمان کو مزین کرنا ایک مسلسل تربیتی عمل کا متقاضی ہے۔
استاد ملازم نہیں مربّی ہے جب تک وہ خود کو مربی نہیں جانے گا بچوں کی کماحقہ تربیت نہیں کر پائے گا۔
ابو حامد غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں استاد شفیق ہوگا تو بچہ رزیق ہوگا یعنی وہ رزقِ علم پائے گا۔
ابن رشد رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بچے کے اندر چار خواص ہوتے ہیں فطرت، طبیعت ،جبلّت، اور مادیّت!
استاد کوچا ھیئے کہ اس کی فطرت کو پاک رکھے، طبیعت کو متوازن رکھے، جبلت کو بےخوف رکھے اور مادیّت کو قانع رکھے۔
ازبر کرنے سے نصاب زبر ہو جاتا ہے لیکن طالب علم زیر ہو جاتا ہے ۔فہم حاصل کرنے سے طالبعلم جلوہ گر ہوتا ہے۔
استاد دیکھے کہ طالب علم میں استعداد پیدا ہوئی ہے کہ نہیں ۔اگر وہ اپنے شاگرد میں استعداد پیدا کرسکا ہے تو راست معنوں میں استاد ہے۔
امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام کے تلامذہ یک زبان ہیں کہ ہماری عمر بس وہی ہے جو امام والاتبار کے حضور میں گزری ہے۔
orci.