ایچ آر کا قرآنی تصوّر
تحریر: زیدگل خٹک صاحب عفی عنہ بتشکر: کرنل نویدظفرصاحب
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مزاجِ اجتماعی سے نوازا ہے اور مدنی الطّبع بنایا ہے۔ وسائلِ ارض اس کے تصرف میں دئیے ہیں اور اختیارِ توفیقی سے متمتّع فرماکر عادلانہ روِش کا پابند بنایا ہے۔ اطاعت کی صورت میں ماجور اور بغاوت کی حالت میں معیوب قرار دیا ہے۔ اس کی سرِّیّت اور مظاہرِ فطرت میں ہدایت ودیعت کرنے کے علی الرّغم ترسیل و تنزیل کا اعلیٰ و ازکیٰ انتظام انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ شفقت کا آئینہ دار ہے۔
قرآنِ عظیم اللہ کا بے بدل کلام اور لاریب صحیفہ جو حضور ختم ا لمرسینﷺ کے قلبِ اطہر پر منزّل (Revolted) ہے۔ ہدایت و حکمت کی تمام ضیاپاشیاں جلو میں رکھتا ہے اور کسی بھی گوشہءِحیات اور صیغہءِکار کو اپنے ابدی انوارات سے محروم نہیں رکھتا ۔ قرآن کا مخاطب (Being addressed) حضرتِ انسان ہے خواہ وہ منعم ہو یا مفلس، اٰجر ہو یا اجیر، مطاع ہو یا مطیع! دورِ جدید میں نسبتًانئےتقاضے نئے اسالیب کے متجسس ہیں۔
ہیومن ریسورسز کی انگریزی ترکیب ایک منصّہءِتعلیم و تربیت بن چکی ہے۔ اردو میں اگر اس ترکیب کا نِکھرا ترجمہ کیا جائے تو انسانی وسائل و وسائط یا افرادی تقویم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے لسانی جمالیات میں اس دامنِ فکر و عمل کے لئے دیدہ زیب اور پرسطوت مصطلحات میسّر ہیں:- شؤْن العباد، حلّْ الافراد، مردانِ کار، عقودالبشر، واسلانِ کار، اہلْ العمل۔
قرآنِ مجید فرقانِ حمید اس خاص حوالے سے ہمیں نہایت اور غایت درجہ عمدہ اشارات و الطاف مرحمت فرماتا ہے: ''إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ''( النّساء58)۔
ترجمہ و مفہوم: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے دائرہءِ مؤدت میں امانت و منصب ان لوگوں کو تفویض کرو جو اْس کی اہلیّت رکھتے ہوں، اور یہ کہ وہ( تفویض کئے جانے والے اور تم تفویض کرنے والے) جب لوگوں کے مابین کوئی فیصلہ یا معاملہ کریں تو وہ فیصلہ و معاملہ عدل و فضل کے ساتھ کریں ۔ بے شک اللہ تمہیں بہترین موعظت دیتا ہے ان تمام حوالوں سے اور بلا شک اللہ جلّ شانہٗ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
یہ آیتِ مبارکہ اور دیگرآیاتِ موضوعِ متعلّقہ پر تدبر کی دعوت دیتی ہے۔سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے '' جس نے قرآن کے جزو کو سمجھ لیاگویا اْس نے قرآن کے کْل کو سمجھ لیا''
آئیے ایچ آر کے تناظر میں اس جزوِ مبارکہ سے راہنمائی لیتے ہیں:-
یَامرکم : از خود اس سے بحث کرتا ہے کہ معاملہ امر کا ہے، اللہ جلّ شانہ کے حکم کے تحت امارت، ماموریّت، متاھَیّل اور اہل کی بات روبہءِ ذکر ہے۔
تؤدّ : اہل کا انتخاب متعلّقہ لوگوں میں سے کرنا ہےجن کے کوائف معلوم اور مستند ہوں اور جن سے آپ روشناس اور مانوس ہوں، جن کے طبائع میں سپاس گزاری اور فرمانبرداری کا جذبہ ہو، جن کے رویّوں میں تمہارے لئے عزّت اور محبّت ہو چونکہ آگے جاکر یہی لوگ تنظیمی سطح پر آپ کے لئے ممد و معاون اور تنظیم کے لئے مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتےہیں۔
امانات : جو چیز یا وظیفہ( Obligation) تم کسی کو دے رہے ہو وہ تمہارے پاس بھی اختیاری درجہ میں امانت ہے، جہاں تک تم مکلف ہو اور تدبیر کے دائرہ میں کار گر ہو، اہلِ فرد تک اْس امانت کی ترسیل تمہاری ذمّہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ذمّہ داری تفویض کرنے سے پہلے اور دورانِ ادائیگی فرض اہلیّت و افادیّت کا ماحول میسّر و مہیا رکھنا بھی تمہاری تعلیق ہے۔
حکمتم : یہ اہلیّت اختیار نہیں بلکہ لازمی ہے اس لئے کہ ان مفوّضہ لوگوں نے آگے اہم فیصلوں اور معاملات کو سر انجام دینا ہے، ان کی کوتاہی کے مضر اثرات خود تمہاری طرف اور اجتماع کی طرف لوٹیں گے اس لئے ان کی تربیّت و تحکیم تمہاری توجّہ کی بطورِ خاص حامل ہے۔
عدل : عدل قرآن کا اصل الاصول ہے عدل کا متضاد ظلم ہے۔ سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے : ''تعرف الأشياء بأضدادها'' چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ توحید عدل ہے چونکہ شرک ظلم ہے، تصدیق عدل ہے چونکہ تکذیب ظلم ہے، کسبِ حلال عدل ہے چونکہ نفقہءِحرام ظلم ہے، اس طرح اہلِ فرد کا تقرّر عدل ہے چونکہ نا اہل فرد کا تقرّر ظلم ہے۔
یَعِظکم : اللہ کی شفقت ہے کہ اس کریم نے وعظ کا لفظ نازل فرمایا ، یہاں وعظ کا مطلب یہ ہے کہ ایچ آر کی ایسی تفویض و ترتیب میں تمہارے لئے فلاح ہے اور تمہارے اداروں کی رفاہ بھی متمکّن ہوگی۔
سمیعًا بصیرًا : ان صفاتِ عالیہ میں در پردہ احتساب و مؤاخذہ ( Impeachment )کا اشارہ مضمر ہے کہ اپنا احتساب خود کرو، توازن و اعتدال رکھو، دیانت ملحوظِ خاطر اور خیانت و بدعنوانی بر طرف رکھو وگرنہ ''یومَ یقوم النّاس لرِبِّ العالَمینَ'' کےموقع پر خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب اْن صفاتِ محمودہ ، شمائلِ مسعودہ اور خصائصِ مطلوبہ کا ذکر کرتے ہیں جو قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے از اوّل تا آخر بیان فرمائے ہیں بلکہ کمالِ ترغیب کے ساتھ نہایت دِل کش انداز سے ذکر فرمائے ہیں جو بلا شبہ ایچ آر کا اعلیٰ و اولیٰ و افضل اسلوب ہے ہم ان محامد و محاسِن کی تعداد 92 رکھتے ہیں تاکہ مزکّیِ اعظم اور مربّیِ اکبرﷺ کے نام مبارک '' محمّد'' کے اعداد کے ساتھ نسبت قائم ہوجائے۔
- متّقین : عقل و فہم و زہد والے۔
- اٰمنین : امانت دار ، راز رکھنے والے۔
- مصلحون : اصلاح کرنے والے، سلجھانے والے۔
- صادقین : صدق شعار اور صدق بردار۔
- راکعین : اللہ کے حضور جھکنے والے ظاہری اعتبار سے۔
- خاشعین : اللہ کے حضور جھکنے والے قلبی اور باطنی اعتبار سے۔
- شاکرین : شکر گزار، نعمتوں کے ضیاع سے بچنے والے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔