فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
حکیم الامّۃ ؒکےنزدیک فرد کا اعتقادی اور ایمانی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ توحید کا اعتقاد فرد کو باطنی قوّت فراہم کرتاہےاوروہ ملّت کی تقویّت کا باعث بن سکتا ہے۔
تمام انبیاءِکرام علیہم الصلٰوۃ والسلام نے دعوت وعزیمت کا آغاز توحید سے کیا۔ سب کا اوّلین نعرہ''قولوا لٓاالٰہ الَّااللہ تفلِحونَ''(لاالٰہ الّا اللہ پڑھ لو کامیاب ہوجاؤگے) ہے۔ یہ اعتقاد اور یہ حقیقت کہ اللہ یکتا ہے، وہ تمام چیزوں کا مالک اور کْل اختیارات کامنبع ہے۔ ہمیں پیدا کرنے والا وہ ہے، رزق دینے والا وہ ہے، عزّت دینے والا وہ ہے،موت دینے والا وہ ہے اور کل اْس کے حضور حاضر ہوکر اپنے اعمال کاحساب دینا ہے۔ انسان کو لازوال قوّت دیتا ہے۔ اس طرح انسان خوف، حزن،حرص، طمع، حسد اورظلم سے نجات پاجاتاہے اور توکّل کے منصب پر فائز ہوکرملّت کا مفید رکن بن جاتاہے۔
توحید کی دولت سے دامن بھر کر جب آدمی گلشنِ اسلام میں داخل ہوتاہےتو وہ تقویٰ اور یقین کی منزل پاتا ہے۔ نماز میں حضوری، اللہ کی یاد، معرفت کا احساس، منکر سے پرہیز، صیام کے مقاصد سے بہرہ وری، زکٰوۃ کے فوائد سے سرشاری، حج کی اجتماعیّت سے شادکامی اوراشاعتِ اقدارِ اسوہءِحسنہ کی استعدادسےلطف سامانی اس کاطرّہءِامتیاز بن جاتاہے۔بس ملّت کو ایسے ہی مرتّب،منظم اور پرعزم افراد کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی افراد پر مصطفوی ہونے کا اطلاق ہوتاہے۔
حکیم الامّۃ ؒ مصطفوی ہونےکو انتہا پر لائیں ہیں اس لئے کہ مصطفوی ہونا ہی وہ سند ہے جس کی توثیق اللہ کی طرف سے ہوئی ہے، مصطفوی ہونے کااعزازپاکر ہی اللہ کی رضا میسّر آتی ہے،اور اللہ اپنے انعامات وبرکات کی بارش کردیتا ہے، کامیابی کی یہی وہ اعلیٰ منزل ہے جس کا نصاب حکیم الامّۃ ؒ نے اس شعر میں اجمالاََ واضح کیا ہے۔
قسط۔10 , تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا ہے، فالاصل تمام انسان مؤاخات اور مساوات کے حقیقی اور ناقابلِ شکست رشتہ میں مربوط ہیں، دنیوی تدبیر اور انتظامِ عالم کے نکتہءِنظر سے مراتب کا تعیّن اپنی جگہ موجود ہے کوئی امیر ہے اور کوئی مامور ہے،کوئی اٰجر ہے اور کوئی اجیر ،کوئی لازم ہے اور کوئی ملازم لیکن یہ سب کاروبارِ جہانبانی ہے، اصل منہج مساواتِ انسانی ہےبصورتِ دیگر فرقِ مراتب اور اونچ نیچ کی یہی مجازی اور تدبیری تقسیم تکبّر، تمرّد، تترْف
، ظلم، حرص،نفرت اور فساد کی موجب بن جاتی ہے۔لہٰذا فرد ملّت کا باطن انسانی محبّت سے سرشار اور اْس کا ظاہر عادلانہ سر گرمیوں کامنہ بولتاثبوت ہونا چاھئیے۔
قسط۔9 - تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
تلوار کا دھنی تھا، شجاعت میں فرد تھا
پاکیزگی میں، جوشِ محبّت میں فرد تھا
اس بیت میں حکیم الامّۃ ؒ نے اْس مرحوم ملت کا ذکر کیا ہےجس کو آج نگاہِ نارسا ڈھونڈ رہی ہے۔
تلوار کے دھنی سے مراد صرف میدانِ جنگ کے تگ و تاز نہیں بلکہ کارزارِحیات کے سب مراحل ہیں، فرد کی فرض شناسی، جفاکشی،اخلاص، پامردمی اور محنت کیشی دراصل اْس کے اوزار وہتھیار ہیں۔
کیا رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا! ''اَلصَّبرصلَاح المؤمِنِ''صبر مؤمن کا ہتھیارہے۔
امامِ محمّد بن ادریس شافعیؒ فرماتے ہیں!اَلوَقت سَیفٌ'' وقت تمہارے ہاتھوں میں ایک تلوار ہےیعنی اس کا بہترین استعمال تمہارے لئےتمہارے مقاصد کی دستیابی ممکن بنادےگا۔ شجاعت کا مفہوم بھی وسیع ہے،اسلام میں منکرات سے پرہیز،خواہشات کے حوالےسے قناعت کو شجاعت قرار دیا گیاہے،رسول اللہﷺنے فرمایا!شجاع(بہادر) وہ نہیں جو کسی کو زیر کردے، شجاع وہ ہے جو عفو و درگزرسے کام لے۔
یوں حکیم الامّۃ ؒ کا یہ مصرع اس طرح کھلتا ہےکہ ان عظیم اقدارِ عالیہ سے متمتّع ہوکروہ عظیم افراد ملّت کے سطوت و شکْوہ کا باعث بنے۔ آج بھی ان چراغوں کو جلانے کی ضرورت ہےجس کے لئے بہترین مشکٰوۃ(طاقچے) تعلیمی ادارے ہیں۔