مام عالی مقام کے افکار سر مدیہ جو آپﷺ نے مدینہ طیّبہ سے مکہ مکرمہ اور مکہ مکرمہ سے کربلائے معلیٰ تک کے سفرِ عزیمت میں اظہار فرمائے تھے،امام سجاد زین العا بدین نے ایک رسالہ میں جمع فرمائے ہیں۔یہ رسالۃ مِراٰۃ ْالعاشقین کے عنوان کے تحت طباعت کو سرخرو کر چکا ہے(یہ کتاب چھپ چکی ہے)۔سو اس فکری مسلک کے امام منتسب (جن کی طرف یہ مسلک منسوب ہے)خود امام عالی مقام ہیں اور یہ جادہ ءِفکر ''حسین منی وانی من الحسین''(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے) کے پر توِنور سے متجلی ہے۔
حضرت ابو ہاشم صوفی ؒ،ابو طالب مکی ؒ،سری سقطیؒ،حبیب ِعجمیؒ ،معروف کرخیؒ ،جنید بغدادیؒ،طیفوربسطامی ؒ، حسین ابنِ منصورالحلاج ؒ،حکیم خاقانیؒ،حضرت عطارؒ،حضرت جندیؒ ،حضرت شمسؒ ،حضرت عارف جلال الدین رومیؒ ،حضرت سنائی ؒ پر مشتمل یہ روحانی وفکری کہکشاں سبل السلام سے عبارت ہے۔اس سلسلۃ الذوق کی آخری کڑی حکیم الا مۃؒ ہیں۔
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانا ئے راز آید کہ ناید
اس فقیر(اقبالؒ) کا وقتِ آخر آگیا ہے۔(دیکھتے ہیں)کوئی دوسرا دانائے راز آتا ہے کہ نہیں۔
اس جادہ ءِ فکرِ اظہا میں صحتِ ایمان و عمل اور صحتِ معا ملہ علم و عقل و عشق خاص طور پر کار فرما ہے۔ نظریہءِحقیقتِ محمدیہؐ جو ظہورِخلق کی علت و وجہ ہے،ان بزرگوں نے نہایت یقین و سرمستی کے ساتھ بیان کیا۔چونکہ سیرتِ پاک کا یہ پہلو دلیل و محکمات کے ساتھ ساتھ مشرب و ذوق سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے حکیم الامۃاقبالؒ نے ان نظریاتِ سرمدیہ کو جمالی انداز سے بزبان ِشاعری پیش کیا ہے تا کہ علم وآگہی کے ساتھ ساتھ تا ثیر و ولولہ بھی وارد ہو۔
کائنات معنوی و مادی یعنی جمیع خَلق میں رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور عالم خلق وامر میں آپﷺ کی محوریت و مرکزیت کیا ہے ۔ اس حوالے سے قرآن وسنت کی تعلیمات میں ایسے الطاف و اشارات موجود ہیں جن تک عام طبائع اور ظاہری علم نہیں پہنچ سکتا ۔ان جواہرِلدنیّہ تک رسائی حاصل کرنےکےلئے ایسے روح پرور اور سرّآشام رجال اللہ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے حکیم سنا ئیؒ اور حکیم اقبالؒ واقع ہو ئے ہیں ۔
بالخصوص حکیم الا مۃ علامہ اقبالؒ اس لئے کہ ان کے دبستان فکر میں رشحاتِ اسلاف(اکابر کی تحریریں) اجمالی اور ترغیبی انداز سے مظہر و متجلی ہیں ۔وہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی غایت (مقصد)سے باخبر ہیں۔رمزِتفسیرجانتے ہیں،اسرارِسیرپاک(اسلاف کے حالاتِ زندگی)سے روشناس ہیں مقامِ مصطفیﷺ کا محکم اور مشربی ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے علمی کمالات وخدمات میں قابل ِو صف و قابلِ صد ستائش کمال یہ ہے کہ انہوں نے مقامِ مصطفیﷺ کی شرحِ مطلوب فرمائی ہے۔رسول اللہﷺ کی جوہریت،نورانیت،معنویت،عنصریت، مرکزیت،محوریّت ،خاتمیّت ،جامعیت،اور اتمامیت و کمالیت کا علمی ذوق اور مشربی تبیان کا حق تو کوئی ادا نہیں کر سکتا لیکن حکیم الامۃؒ نے عنایتِ ربِ جلیل (اللہ کے لطف و کرم )سے کمال کر دیکھا یاہے۔یہ ہر دو اشعار نظریہءِ حقیقت ِمحمدیہ کے کہکشانِ نور پر کواکبِ جلّی ہیں(یہ دو اشعار حقیقتِ محمدیہؐ کے نظریے کی واضح دلیلیں ہیں)۔
دانائے سْبل:سبیل کی جمع سْبل ہے، زیادہ نام فضیلت پر دلالت کرتے ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسماءحسنیٰ ذات کبیریا کے جلال وجمال کا پتہ دیتے ہیں۔قرآن مجید کے بہت سے نام کلام ِالٰہیٰ کی ہیبت و شِکْوہ اور اہمیت وا فادیّت کی خبر دیتے ہیں۔آخرت کے کئی نام آخرت کی شدت اور واقعیّت سے آگاہ کرتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کے متعدد نام آپﷺ کی شانِ جمیل کے ترجمان ہیں۔بعینہٖ اسلام و ایمان اور شریعت وطریقت کے ایک سے زیادہ نام اس سبیل کی ضرورت اور افادیت کو واضح کرتے ہیں۔اسلام سبیلِ اعظم ہے۔اس کے اجزا کو سْبْل السلام کہتے ہیں۔وعلی ھٰذا الفصل(اسی تفصیل سے) قرآن مجید اس راہِ حق کو کئی ناموں سے موسم کرتا ہے۔
1،صراط المستقیم 2۔ صراط السَّوِی 3۔سبیل الھدیٰ 4سبیل الرشاد
5۔سوا ءَ السبیل 6۔ سبیل النور 7۔سبیل النجاۃ 8۔ سبیل الفلاح 9۔صراط المنعمین و غیرھم
حکیم الا مۃؒ بجا طور پر استدراک فرمار ہے ہیں۔کہ ان تمام سْبل السّلام کے دانائے اعظم رسول اللہ ﷺہیں ۔
ختم الرسّْل:تمام خلائق و امکانات واعتبارات میں افضل واہم ترین خلقت انبیاء ورسْلؑ کی ہے۔تمام خلائق متحرک و غیر متحرک میں افضل انبیاءاکرام ورسلِ عظام ہیں۔ان کے سرداروامام و محور رسول اللہ ﷺہیں۔ختم کا ایک ظاہری ،متشرع ،معبتر، مسلم اور معتمد مطلب یہ ہے کہ آپﷺ اللہ تبارک و تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ ختم کا ذوقی مطلب یہ ہےکہ فلاح،اصلاح،ترغیب،ترہیب،احسان،سلوک،رفاہ،جمال،کمال،جلال،رفعت،عروج،علم،خبر،القا،الہام،وحی،وجد،خلق،خْلق،حرمت،عصمت،تقدس،تطیب،تزکیہ،تعلیم،حکمت، وغیرھم ایسی صفات ِعالیہ اور محامد عْلِّیَّہ (نیک عادتیں)آپﷺ پر بدرجہ ءِکمال واتمام ختم ہیں۔ ختم کا مشروبی و حقیقی مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ جوہری و معنوی طور پر باعثِ تخلیقِ کائنات وجہءِ اعتبارات وامکانات،اور تمام اعیانِ خارجہ(حقائقِ عالَم) کے منوِّر ہیں۔اسلام کی نزولی تدریج جو سیدنا وابونا آدم ؑسے شروع ہوئی تمام انبیاء ورسْل علیھم السلام کے تسلسل سے تکمیل کے مراحل طے کرتی ہوئی ،آپﷺ پر اکمل ہوچکی ہے۔
اتمامیت،خاتمیت،جامعیت،اکملیت،محوریت،مرکزیت،وسطیت،عالمگیریت اور حجیت آپ کا خاصہ ہے، ختم الرسل کی ترکیب میں حکیم الا مۃؒ نے ان مذکورہ معارف و معالم کو نہایت خوبصورتی سے اجمالی طور پر سمویا ہے۔
مولائے کْل : مولا کا لفظ اللہ جلّ شانہ کے لئے مْطلق ہے۔ کما قَالَ تعالیٰ فی التنزیل: أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (بقرہ،286)(اے اللہ تو ہی ہمارامختارِ مطلق ہے پس ہماری دستگیری فرماکافر قوم پر)
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَىٰ لَهُمْ (محمّد، 11)(بے شک اللہ مددگار ہے اْن لوگوں کا جو ایمان لائےہیں اور کافروں کا کوئی مددگار نہیں)
یہاں پر لفظِ مولا خالق و مالک ومختارِ مطلق مددگارِ مطلق ،متصرِّف و مؤثّرِ مطلق کے معنوں میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے لئےیہ لفظ بروزی،ظلِّی ،نزولی،توسیعی اور تاثیری معنوں میں ہے۔اس بارگاہِ رسالت کے نصاب میں اس لفظ کا مفہوم محسن،سردار، آقا، مشفق، راہبروراہنما،اولیٰ، اعلیٰ،ھادی،شفیع اور مزکّی و مربّی کے معنوں میں ہے،آپﷺ اللہ جل شانہ کے فضل و عنایت اور لطف و اِذن سے تمام خلائق متحرک و غیرمتحرک کے مولا ہیں۔
غبارِراہ:سے مراد تمام خلقت و خَلقت ہے،ان تمام چیزوں کا یکون و ظہور و شہود رسول اللہﷺ کی رونمائی کے رہینِ منت ہے۔
فروغِ وادی سینا:تشبیب ہے جواس امر ِواقعی کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح معدوم آپﷺ کی برکت سے معلوم ہوا اور کس طرح معلوم آپﷺ کی برکت سے معروف ہوا۔
نگاہِ عشق ومستی:یہ صفتِ باری تعالیٰ باندازِمطلق و محکم ہے۔اعیانِ ثابتہ کا خارجی ظہور عشق و مستی کے مرہون منت ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے صفاتِ عالیہ اور اسما ءرافعہ کے اعیان ثابتہ میں اعیانِ خارجہ (تمام اعتبارات و امکانات وخلائق)کی صورتوں پر لطف و محبت کی نظر ڈالی تو صورتِ محمد کو نگاہ ِکمال سے منتخب کیا اور باقی تمام صورتوں کو اس صورت ِمصطفیٰ و مرتضیٰ کے لئے اسباب وخدمات و مْوصِلات کے درجہ میں ظہور و شہود دینے کا ارادہ فرمایا سو حکیم الا مۃعلّامہ اقبالؒ نے کمال کا استدراک فرمایا کہ نگاہ ِعشق و مستی میں آپﷺ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی یہ مصرع قرآن و سنۃکا عرق المعروق (extract)ہے۔
نمونہ جاتِ آیات واحادیث
وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ''(شعراء) (اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل وحرکت رکھی)
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ''(علق)(پڑھیئے اپنی رب کے نام جس نے پیدا کیا)
لَا أُقْسِمُ بِهَٰذَا الْبَلَدِ(1)وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ(2'البلد)(نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔اور حال یہ ہے کہ (اے نبیؐ)اس شہر میں تم اْترے ہوئے ہو۔
لولاک خلقت ماخلقت الاَفلاکَ (الحدیث)اگر آپﷺ کو پیدا نہ کرتا تومیں زمین وآسمان کو تخلیق نہ کرتا۔
اوَّل ماخلق اللہ نوری(الحدیث)سب سے پہلے جو اللہ نے پیدا فرمایا وہ میرا نور ہے۔
کنت نبیًّاوآدم بین الماءِ والطِّین(الحدیث)میں (اللہ کے عِلم میں)نبی تھا اور آدمؑ پانی اور مٹی کے مابین تھے۔
یہ مصرع ان تمام کتب سیرت کا بھی نچوڑ ہے۔
1۔مواہب لدنیہ 2۔دلائلْ النّبوۃ 3۔خصائص الکبریٰ 4۔حلیۃ الاولیا 5۔ شمائل ترمذی 6۔مدارج النّبوۃ 7۔شواھد النّبوۃ 8۔مشارق النّبوۃ 9۔فتو حاتِ مکی 10۔محاسن النّبوۃ
11۔ رسائل النو ریّہ 12۔اسرار السرمدیہ وغیرھم۔
قرآن رسول اللہﷺ کے قلب کی تنزیل ہے۔فرقان حق و باطل کے درمیان امتیاز ہے جو آپﷺ کی ذات بابر کات ہے۔یٰسین سے مراد قلبِ کلامِ الٰہی بھی ہے،مرکز و محورِ معرفت بھی ہے۔اٰلِ یسین یعنی عترتِ مصطفیٰﷺ بھی ہے۔یہ حکیم الامۃؒ کی اشارات ہے اس حدیث و تلقین کی طرف جو آپ ﷺنے ملائے اعلیٰ کی طرف ارتحال وار تفاع فرماتے وقت اصحابِ اکرام رضی اللہ عنہ سے خطاب فرمایا،
تَركتُ فِيكم الثَّقلين، ما إن تمسَّكتُم بهما، لن تضلُّوا: كِتابَ اللهِ، وعِترتي أهلَ بيتی'' (تهذيب التهذيب) لابن حجر399) میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم اْن کو تھامے رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہونگے''ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اہلِ بیت''۔
طَہٰ :اشارت ہے شریعت کی طرف دستورِ مصطفیٰﷺ کی طرف ،اسوہءِ حسنہ کی طرف ۔
طه(1)مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ (2)
حکیم الامۃؒ فرماتے ہیں یہ دستور تمام انسانوں کے لئےمیسّر،متوازن،معتدل،اصلاح آفریں، فلاح آگیں ،احسان آمیز،رفاہ انگیز،اور ابری سعادت کا مطلق ضامن ہے۔شاید ہی سیرتِ انور پر اتنا جامع کلام کسی نے کیا ہو۔
ورق تمام ہوا مدح باقی ہے
سفینہ چاھیئے اس بحر ِبیکراں کے لئے
(علّامہ زید گل خٹک صاحب)