ان اصطلاحات کا ان کی ضد سے سمجھنا بھی اچھا ہےتا کہ ان کا امتیاز و تشخّص واضح ہوجائے، وگرنہ بیان کرنے والا کتناہی مخلص اور منظّم کیوں نہ ہو، لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنے کا ارتکاب کرتا رہے گا۔
ہمارے آثار و اساطیر میں فَترَتِ ہدایت کا احتمال پایا جاتا ہے۔ جو کسی بھی طور درست طرزِ فکر نہیں اور نہ ہی کلامِ اِلٰہی سے اس کی توثیق ہوتی ہےبلکہ آیاتِ ربّانی سے اس نکتہءِنظر کی تردید ہوتی ہے۔ از روئے قرآنِ مجیدفرقانِ حمید حیاتِ انسانی کا ایک لمحہ بھی ہدایت اور اہل الہدیٰ سے خالی نہیں رہا ہے۔
ہدایت تین انواع پر مشتمل ہے اور تینوں انواع ہر وقت موجود رہتے ہیں تاکہ انسانوں پر اللہ کی حجّت قائم رہے۔
- فطری ہدایت : نوامیسِ کائنات و آفاق کی صورت میں۔
- سرّی ہدایت : نفسِ انسانی، روحِ انسانی اور قلبِ انسانی کے اندر ہدایت کا انجذاب۔
- تشریعی ہدایت : نظامِ وحی و تنزیل، رسالت و نبوّت و ولایت و موعظت۔
حکم الجاہلیّۃ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے حکم الاسلام والایمان والایقان سمجھ لیا تھا لیکن اشتہاءِنفس، ابتغائے حرص اور طمعِ دنیا نے ان کو مسحور کئے رکھا اور وہ حسنہ کی طرف نہیں آئے بلکہ قبح میں رہے۔ اس کی مثال یوں لے لیں کہ ایک آدمی حکمران بنا اور اس نے عدل کو ترک کیا جو حسنہ ہے اور ظلم کی روش اختیار کی جو قبح ہے اور جاہلیّت کا نتیجہ ہے۔
ظنّ الجاہلیّۃ سے مراد فی الواقعہ بے یقینی اور عدمِ توکّل علی اللہ ہے جو تمسّک بحکم الاسلام میں طمعًا یا تخوّفًا مزاحم و معارض ہوتی ہے۔
تبرج الجاہلیّۃ سے مراد شحہءِنفس یا ترغیباتِ دنیا ہیں۔ امہات المؤمنین کے حوالے سے اس ترکیب کا برتنا اْن کی شان اور اْن کا امتیاز ہے۔ ان سے فرمایا گیا کہ آپ امّہاتِ امّۃ ہو سو( قَرنَ فِی بیوتِکنَّ) اپنے گھروں میں اعلیٰ درجے کا قرینہ، سلیقہ معاشرت، نفاست، متانت اور تمدّن قائم رکھو تاکہ افرادِملّت کے لئے آپ ایسی عظیم ماؤں کا اسوہءِمینارہءِنور ہو۔
تبرّج یعنی اظہارِ طمع و مرغوبات و مشتہیّات سے بھی روکا گیاحالانکہ خواتین کو آرائش و زیبائش، زیور و زعفران، حنا و نگینان بھی پسند ہیں اور روا بھی ہیں لیکن امّہات المؤمنین کے لئے اس کو تبرّج الجاہلیّہ قرار دیا گیا یہ فالواقعہ اْن کا مقام ِ سیّادت و وِلایت جو بحرصورت اعلیٰ و اولیٰ امتیازات کا متقاضی ہے۔
حمیّۃ الجاہلیّۃ سے مراد بھی وسوسہ و خطوہ و شحہءِنفس سے اجتناب ہے۔ فیصلہ کرتے وقت جنبہ داری کا مرتکب ہونا، عطا کرتے وقت اقربا پروری کا شکار ہونا، غیض و انتقام اور جدال و قتال کے وقت قبیلہ و خویش کی ناحق حمایت کرنا، زبان، علاقہ، گروہ اور دلچسپیوں کے زیرِ اثر حق و عدل و فضل سے چشم پوشی حمیّۃ الجاہلیّۃ ہے کہ حق معلوم و مشیّع ہے لیکن حجابِ نفسِ امّارہ اور عماءِغیر میں آکر حکم الاحسن یعنی حکم الاسلام سے انحراف کیا جارہا ہے۔
یہ قرآنی اصطلاحات وتراکیب در اصل اسلام کا باطنی نظام( تزکیہ و احسان و طریقت) ہے۔ اس سے مراد بعثتِ اقدس سے پہلے کا زمانہ نہیں ہےجس طرح ہمارے اکثر تفسیر نگاروں، سیرت نگاروں اور مؤرّخین نے غلط فہمی پیدا کی ہے اور مستشرقین نے ان کی تتبع کرکے (period of Ignorance, time of negligence)کی تراکیب مشتہر کردی ہیں۔
اس تعبیر کا بے محل ہونا ظاہر باہر ہے بلکہ اس سے آیاتِ مبارکہ کے تعینِ معانی اور شخصیات کے ارتسالِ سیرت میں سخت کوتاہیاں وارِد ہوئی ہیں کہ آج سیّدنا قیدار، سیّدنا عدنان، سیّدنا لوی،سیّدنا قصی، سیّدنا عبداللہ، سیّدنا ہاشم، سیّدنا عبدالمطلب، سیّدنا عبداللہ ابن عبدالمطلب اور سیّدنا ابو طالب ابن عبدالمطلب کو جاہلیّت سے جوڑا جاتا ہے (العیاذباللہ)۔
جاہلیّت فی الواقعہ ایک مرض ہےجو نفس کو لاحق ہوکر اْس کو تسدیہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ نفس کی صلاحیّتِ معرفت کو گدلا دیتا ہے اور انسان کو عرفانِ ذات یعنی خودی کے بلند اسلامی و ایمانی و ایقانی منصب سے عزل دے کر کبھی ظنِّ باطل، کبھی تبرّج بے جا اور کبھی حمیّتِ بے عنا میں مبتلاء و مستلاء کردیتا ہے۔
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت