اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

منہجِ تذکرہ اور حکیم الامّۃؒ کی ازواجی زندگی

11 January 2022
(0 votes)
Author :  

جن قارئینِ محترم کا تناظر علمی ہے  وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منہجِ تذکرہ کا متمکّن اسلوب اثبات ہے، اہلِ سیرت  اور فلاسفہ کا مؤقّف ہےکہ نفی و  تضاد اثبات کے تعیّن و تشخص و تتمیز کے لئے ہوتا ہے اس لئے سَلبی اظہار امکانی و اعتباری  علمی رویّہ نہیں ہے اس حوالے سے متکلّمین اور مشربیّین کے رشحاتِ جلیلہ اور افکارِ متبحِّرہ بطورِخاص قابِلِ لحاظ اور لائقِ تجلّب ہیں۔

کائنات میں خَلقی اور خْلقی سطح پر اعظم و ازکیٰ و اطہر و اطیب و اقدس اعتباری ہستی رسول اللہﷺ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خِلافِ اولیٰ پر آنجناب رسالتِ مآبﷺ ازواجِ مطہّرات(امّہات المؤمنین)سے شکر رنج ہوکر مسجدِنبوی شریف میں معتکف و متراہب ہوگئے تھے تو کیا یہ عمل غیر مستحسن کے طور پر مذکور تصوّر بھی کیا جاسکتا ہے (العیاذباللہ والصّلٰوۃ علیٰ رسولہٖ والتّسلیم وعلیٰ امہاتنا الحلیم)۔

یہ عمل متوجہ و متراجع بصائر ہے، رسول اللہ ﷺ کا مقامِ رضا اس واقعہءِعبیرہ میں مستظہر ہے اور امّہات المؤمنین کا منصّہءِامتیاز اور مرتبہءِ اعزازمتجلّیٰ ہے۔ چنانچہ تبصیرِتنزیل ملاحظہ فرمائیے اور خطیرہءِاثبات کی جلوہ گری دیکھیئے:

يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء”(الاحزاب۔32) نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ "(الاحزاب۔6) نبی تو مؤمنوں کے لئے اْن کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہےاور نبی کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔

قرآنِ عظیم سے مستفاد و منصوص اس تلمیح و اشارت کے بعد جو منہجِ تذکرہ اور اسلوبِ جلب و اثبات پر محاکمہءِایجاب (Constructive doctrine) فراہم و ارزاں کرتی ہے۔ نفسِ مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں:

ملّی اساطین اور قومی رجال کو مختلَّف و متنازعہ فیہ بنانے کا عمل بتحقیق و تدقیق بھی منشوء و مختار نہیں ۔آپ سب مشاجرات، مسلّمات، مصفیات، مؤتفِقات اور مختمات ایسی مصطلحات سے واقف ہوں گے اور اِن علمی مختارات کا دائرہ تکلّْف و نفوذ بھی جانتے ہوں گے۔

ایک اور تصریحی نکتہ بھی مرجعِ فکر ہے کہ اہلِ علم شخصیّات کے افکار پر محاکمہ و مکالمہ کرتے ہیں اور سوانح پر محاسنہ و مجالبہ کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارا مواصلاتی نظامْ الاظہار والترسیل جلبی رویّہ کے بجائے سلبی رویّہ کا غماز ہے، ہمارا علمی لجنہ بھی اِن حسّاس حوالوں سے متساہل و متغالِط واقع ہوا ہے۔

معروض ایک اور امر کا بھی متقاضی ہے سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ  کا قول ہے: صاحب البیت اعلم بما فیہ" گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے۔ حضرت دارائیؒ کا مقولہ ہے: القْرب بالقربِ والحبّْ بالحبِّ" قربت نزدیکی سے اور محبّت محبّت سے حاصل ہوتی ہے۔پیشِ نظر رہے اور منہجِ اظہار کا قرینہ بھی قرار پائے۔

حکیم الامّۃؒ کے افکارِجلیلہ اور منظوماتِ جمیلہ تبیان و اذکار و امتنان کے موجب و معتنیہ و مستلزم ہونے چاھئیں، اْن کے سوانح اور مرتقیاتِ حیات کا تذکرہ اگر کرنا بھی ہے تو مراجع و ملتفات اْن کے اقارب و احبّاء و ملازم ہونے چاھئیں:مثلًا

ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم، مخدومہ منیرہ بیگم، خلیفہ عبدالحکیم، نذیرنیازی وغیرہم۔

حکیم الامّۃؒ کی ازواجی زندگی مشرقی رسوم و قیود، تاَدّبِ ولایت  و اخیار اور اْن کے اپنے مزاجِ عالیہ کے مطابق تھی، قطعًا منتشر نہیں تھی۔

آپؒ کی پہلی زوجہءِمحترمہ کریم بی بی غفراللہْ ایک باوقار اور متموّل و متنوّب خاندان سے تھی اور خاندانی بزرگوں کے اہتمام سے آپؒ کے حبالہءِعقد میں آئی تھیں ؛ تب حضرت تعلیمی سرگرمیوں میں حدّ درجہ مشغول تھےاس لئے خاتونِ محتشم مستقلًا آپ کے پاس نہیں رہ سکتی تھیں، قلیلًا آپ کے پاس اور سسرال میں اور کثیرًا اپنے والدین کے پاس سکونت پذیر رہتی تھیں، سسرال میں رہنے کا تعلّق قطعًا ناچاقی اور زودرنجی سے نہیں تھا۔

اللہ وہّاب الکریم نے دو اولادیں مرحمت فرمائیں: آفتاب اقبال اور معراج بیگم ۔ دونوں عنفوانِ شباب اور بلوغِ عمر کو پہنچے اور حضرت کی حیات میں داغِ مفارقت دے گئے۔ کریم بی بی گو زیادہ عرصہ اپنے میکے میں رہی لیکن اپنے سسرال گاہے گاہے آتی تھیں اور اہتمام و رضا کے ساتھ رہتی تھیں؛ اْن کے بچوں کے نام بھی شیخ نورمحمّدقادریؒ(پدرِحکیم الامۃؒ) نے رکھے۔ دونوں اپنے دادا سے بے حد محبّت کرتے تھے البتہ آفتاب اقبال اپنے تایا شیخ عطا محمّد کے سخت تربیتی اور انتظامی مزاج سے کچھ نالاں رہتے تھے لیکن اْن کے نیاز مند ضرور تھے اِن سے حضرت کے تغلّْظ(Divorce)کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تادمِ ارتحال وہ آپکی زوجیّت میں رہی۔ ایک دفعہ جب سارا اْسریٰ لاہور جاوید  منزل میں متسکن ہوا تو اْن کی ہمسر سردار بیگم خود اْن کو لینے گئیں اور اپنی ہمراہی میں لائیں تب سارے کئی ماہ تک یکجا رہے۔

آپؒ کا دوسرا نکاح محتشمہ و مکرّمہ سردار بیگم کے ساتھ ہوا رخصتی عمل میں نہیں آئی کہ ایک بد خواہ نے یفرّقون بین المرءِ وزوجہ کا کردار ادا کیا لیکن الحمدللہ وماہم بضارّین بہ من احدٍالّا باِذنِ اللہ پر ختم ہوگیا اور کچھ نقصان نہیں ہوا۔

گو حضرت اس فریب کاری سے سخت رنجیدہ ہوئے اور رخصتی معرضِ التواء میں پڑگئی ، سردار بیگم نے خود اس حوالے سے احقاقِ حق کا فریضہ سر انجام دیا اور مؤدب نامہ اپنے منکوح و منسوبِ مکرّم کو بھیجا۔ مکتوب کے الفاظ:

"آپ ایسے عقل مند اور منصف مزاج کو اس طرح کے بہتان پر ہرگز یقین نہیں کرناچاھئیے ، میرا نکاح آپ کے ساتھ ہوچکا ہے ، میں آپ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ نکاح کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی، میں آپ کی مناکحت میں پوری زندگی گزاروں گی اور دنیا میں نہ سہی آخرت میں آپ کے دامن سے وابستہ ہوں گی"۔

 (روایاتِ اقبال از چغتائی، ذکرِاقبال از سالک، زندہ رود ازجاویداقبال، اقبال از خلیفہ عبدالحکیم، نذیرنیازی کی ڈائری)

اس مکتوب کے اقتباس پر غور کریں ! ایہ ایک مؤمنہ کا کمالِ ایمان، وفاداری بشرطِ استواری اور روحانی مشرب کی دلیلِ ناطق ہے۔ اس مکتوب سے حکیم الامّۃؒ کی سحر انگیز شخصیّت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

اس مکتوب کے سہارے تو اس عالی مرتبت خاتون  نے امّ المؤمنین حضرت سودہ بنتِ زمعہ سلام اللہ علیہا کا اسوہ اور یاد تازہ کردی۔ حکیم الامّۃؒ نے سردار بیگم کا مکتوب اپنی تیسری منکوحہ اور زوجہ مختار بیگم کو دکھایا ، وہ یعنی مختار بیگم مکتوب پڑھ کر  رونے لگیں، سردار بیگم کا دکھ اْن سے نہ دیکھا گیا ، وہ نہایت حلیم الطّبع اور شاکر و قانع خاتون تھیں ، انہوں نے اصرار کیا کہ اقبالؒ فورًا سردار بیگم کی رخصتی عمل میں لائیں، ہم دونوں بہنیں مل کر رہیں گی۔

اور پھر دونوں ہم سِن خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ بہنیں ہیں، ان کے درمیان بے پناہ محبّت تھی، دونوں کے مثالی تعلقات اور مودت تھی انار کلی والے مکان میں دونوں مل کر رہتی تھیں اور شکر و قناعت کی زندگی گزارتی تھیں ۔ دونوں نے حضرت کی غیر آباد بہن کریم بی کو اہتمام سے اپنے پاس رکھا۔

اصرار کرکے شیخ عطامحمّد مرحوم کی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سیالکوٹ سے لاہور بلایا اور اپنے دسترخوان پر بٹھایا۔ سردار بیگم نے جاکر اپنی بڑی ہمسر کریم بی بی(والدہءِآفتاب اقبال) کو نہایت نیاز سے گھر آنے کی دعوت دی  موصوفہ نے ساتھ آنے میں بالکل دیر نہیں کی ۔ اس طرح  انار کلی والے گھر میں چہل پہل ہوگئی۔اب آگے آکر بتائیں کہ یہ کیسا گھرانہ تھا۔

مرحومہ سردار بیگم کی اولاد ڈاکٹر جاوید اقبال مغفور اور مخدومہ منیرہ بیگم ہیں  ان ہی کے بارے میں حضرت نے جاوید اقبال کو مخاطب کیاہے:

مادرت درسِ نخستیں باتو داد

غنچۂ تو از نسیمِ او کشاد

از نسیم او ترا ایں رنگ و بوست

اے متاعِ ما بہائے تو ازوست

دولتِ جاوید ازو اندوختی

از لبِ او لا الٰہ آموختی

اے پسر!ذوقِ نگہ از من بگیر

سوختن در لا الٰہ از من بگیر

بس اقبال شناس کے تساہلِ طبع پر زودرنج ہوا تو یہ چند سطور رقم کردئیے ہیں مصداقِ مصرعِ رضا        ؎

ناچارہ اس راہ پڑا جاناں

جو طالب و متعلّم سحرِکلامِ حکیم الامّۃؒ میں مست ہو اْس کو  سوانح سے کیا لاگ:

نظر بخویش  چناں بستہ  ام کہ جلوہءِدوست

جہاں گرفت و مرا فرصتِ تماشا نیست

 

-----------

 علّامہ زیدگل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

 

 

Tag :

Login to post comments
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

Recent News

cache/resized/b15a70d8f5547f99286ef34082cb3ae3.jpg 11
January 2022

عِلم

عِلم علم اصولی طور پر صفاتِ اِلٰہیہ  میں سے ہے وہ خالقِ کائنات علیم و علّام ہے۔ مطلق، ذاتی اور کلّی علم اْس کے پاس ہےاْس پاک والاصفات نے جدّْنا ...

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…