ایک اور تصریحی نکتہ بھی مرجعِ فکر ہے کہ اہلِ علم شخصیّات کے افکار پر محاکمہ و مکالمہ کرتے ہیں اور سوانح پر محاسنہ و مجالبہ کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارا مواصلاتی نظامْ الاظہار والترسیل جلبی رویّہ کے بجائے سلبی رویّہ کا غماز ہے، ہمارا علمی لجنہ بھی اِن حسّاس حوالوں سے متساہل و متغالِط واقع ہوا ہے۔
معروض ایک اور امر کا بھی متقاضی ہے سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے: صاحب البیت اعلم بما فیہ" گھر والا زیادہ جانتا ہے کہ گھر میں کیا ہے۔ حضرت دارائیؒ کا مقولہ ہے: القْرب بالقربِ والحبّْ بالحبِّ" قربت نزدیکی سے اور محبّت محبّت سے حاصل ہوتی ہے۔پیشِ نظر رہے اور منہجِ اظہار کا قرینہ بھی قرار پائے۔
حکیم الامّۃؒ کے افکارِجلیلہ اور منظوماتِ جمیلہ تبیان و اذکار و امتنان کے موجب و معتنیہ و مستلزم ہونے چاھئیں، اْن کے سوانح اور مرتقیاتِ حیات کا تذکرہ اگر کرنا بھی ہے تو مراجع و ملتفات اْن کے اقارب و احبّاء و ملازم ہونے چاھئیں:مثلًا
ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم، مخدومہ منیرہ بیگم، خلیفہ عبدالحکیم، نذیرنیازی وغیرہم۔
حکیم الامّۃؒ کی ازواجی زندگی مشرقی رسوم و قیود، تاَدّبِ ولایت و اخیار اور اْن کے اپنے مزاجِ عالیہ کے مطابق تھی، قطعًا منتشر نہیں تھی۔
آپؒ کی پہلی زوجہءِمحترمہ کریم بی بی غفراللہْ ایک باوقار اور متموّل و متنوّب خاندان سے تھی اور خاندانی بزرگوں کے اہتمام سے آپؒ کے حبالہءِعقد میں آئی تھیں ؛ تب حضرت تعلیمی سرگرمیوں میں حدّ درجہ مشغول تھےاس لئے خاتونِ محتشم مستقلًا آپ کے پاس نہیں رہ سکتی تھیں، قلیلًا آپ کے پاس اور سسرال میں اور کثیرًا اپنے والدین کے پاس سکونت پذیر رہتی تھیں، سسرال میں رہنے کا تعلّق قطعًا ناچاقی اور زودرنجی سے نہیں تھا۔
اللہ وہّاب الکریم نے دو اولادیں مرحمت فرمائیں: آفتاب اقبال اور معراج بیگم ۔ دونوں عنفوانِ شباب اور بلوغِ عمر کو پہنچے اور حضرت کی حیات میں داغِ مفارقت دے گئے۔ کریم بی بی گو زیادہ عرصہ اپنے میکے میں رہی لیکن اپنے سسرال گاہے گاہے آتی تھیں اور اہتمام و رضا کے ساتھ رہتی تھیں؛ اْن کے بچوں کے نام بھی شیخ نورمحمّدقادریؒ(پدرِحکیم الامۃؒ) نے رکھے۔ دونوں اپنے دادا سے بے حد محبّت کرتے تھے البتہ آفتاب اقبال اپنے تایا شیخ عطا محمّد کے سخت تربیتی اور انتظامی مزاج سے کچھ نالاں رہتے تھے لیکن اْن کے نیاز مند ضرور تھے اِن سے حضرت کے تغلّْظ(Divorce)کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تادمِ ارتحال وہ آپکی زوجیّت میں رہی۔ ایک دفعہ جب سارا اْسریٰ لاہور جاوید منزل میں متسکن ہوا تو اْن کی ہمسر سردار بیگم خود اْن کو لینے گئیں اور اپنی ہمراہی میں لائیں تب سارے کئی ماہ تک یکجا رہے۔
آپؒ کا دوسرا نکاح محتشمہ و مکرّمہ سردار بیگم کے ساتھ ہوا رخصتی عمل میں نہیں آئی کہ ایک بد خواہ نے یفرّقون بین المرءِ وزوجہ کا کردار ادا کیا لیکن الحمدللہ وماہم بضارّین بہ من احدٍالّا باِذنِ اللہ پر ختم ہوگیا اور کچھ نقصان نہیں ہوا۔
گو حضرت اس فریب کاری سے سخت رنجیدہ ہوئے اور رخصتی معرضِ التواء میں پڑگئی ، سردار بیگم نے خود اس حوالے سے احقاقِ حق کا فریضہ سر انجام دیا اور مؤدب نامہ اپنے منکوح و منسوبِ مکرّم کو بھیجا۔ مکتوب کے الفاظ:
"آپ ایسے عقل مند اور منصف مزاج کو اس طرح کے بہتان پر ہرگز یقین نہیں کرناچاھئیے ، میرا نکاح آپ کے ساتھ ہوچکا ہے ، میں آپ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ نکاح کا تصوّر بھی نہیں کرسکتی، میں آپ کی مناکحت میں پوری زندگی گزاروں گی اور دنیا میں نہ سہی آخرت میں آپ کے دامن سے وابستہ ہوں گی"۔
(روایاتِ اقبال از چغتائی، ذکرِاقبال از سالک، زندہ رود ازجاویداقبال، اقبال از خلیفہ عبدالحکیم، نذیرنیازی کی ڈائری)
اس مکتوب کے اقتباس پر غور کریں ! ایہ ایک مؤمنہ کا کمالِ ایمان، وفاداری بشرطِ استواری اور روحانی مشرب کی دلیلِ ناطق ہے۔ اس مکتوب سے حکیم الامّۃؒ کی سحر انگیز شخصیّت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
اس مکتوب کے سہارے تو اس عالی مرتبت خاتون نے امّ المؤمنین حضرت سودہ بنتِ زمعہ سلام اللہ علیہا کا اسوہ اور یاد تازہ کردی۔ حکیم الامّۃؒ نے سردار بیگم کا مکتوب اپنی تیسری منکوحہ اور زوجہ مختار بیگم کو دکھایا ، وہ یعنی مختار بیگم مکتوب پڑھ کر رونے لگیں، سردار بیگم کا دکھ اْن سے نہ دیکھا گیا ، وہ نہایت حلیم الطّبع اور شاکر و قانع خاتون تھیں ، انہوں نے اصرار کیا کہ اقبالؒ فورًا سردار بیگم کی رخصتی عمل میں لائیں، ہم دونوں بہنیں مل کر رہیں گی۔
اور پھر دونوں ہم سِن خواتین نے ثابت کردیا کہ وہ بہنیں ہیں، ان کے درمیان بے پناہ محبّت تھی، دونوں کے مثالی تعلقات اور مودت تھی انار کلی والے مکان میں دونوں مل کر رہتی تھیں اور شکر و قناعت کی زندگی گزارتی تھیں ۔ دونوں نے حضرت کی غیر آباد بہن کریم بی کو اہتمام سے اپنے پاس رکھا۔
اصرار کرکے شیخ عطامحمّد مرحوم کی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سیالکوٹ سے لاہور بلایا اور اپنے دسترخوان پر بٹھایا۔ سردار بیگم نے جاکر اپنی بڑی ہمسر کریم بی بی(والدہءِآفتاب اقبال) کو نہایت نیاز سے گھر آنے کی دعوت دی موصوفہ نے ساتھ آنے میں بالکل دیر نہیں کی ۔ اس طرح انار کلی والے گھر میں چہل پہل ہوگئی۔اب آگے آکر بتائیں کہ یہ کیسا گھرانہ تھا۔
مرحومہ سردار بیگم کی اولاد ڈاکٹر جاوید اقبال مغفور اور مخدومہ منیرہ بیگم ہیں ان ہی کے بارے میں حضرت نے جاوید اقبال کو مخاطب کیاہے:
مادرت درسِ نخستیں باتو داد
غنچۂ تو از نسیمِ او کشاد
از نسیم او ترا ایں رنگ و بوست
اے متاعِ ما بہائے تو ازوست
دولتِ جاوید ازو اندوختی
از لبِ او لا الٰہ آموختی
اے پسر!ذوقِ نگہ از من بگیر
سوختن در لا الٰہ از من بگیر
بس اقبال شناس کے تساہلِ طبع پر زودرنج ہوا تو یہ چند سطور رقم کردئیے ہیں مصداقِ مصرعِ رضا ؎
ناچارہ اس راہ پڑا جاناں
جو طالب و متعلّم سحرِکلامِ حکیم الامّۃؒ میں مست ہو اْس کو سوانح سے کیا لاگ:
نظر بخویش چناں بستہ ام کہ جلوہءِدوست
جہاں گرفت و مرا فرصتِ تماشا نیست
-----------
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت