الرَّحْمٰنُ: وہ اللہ رحمان ہے، جو کچھ ظاھر اور پوشیدہ ہے اعیان ہے یا تبیان! مغیٰ ہے یا ماویٰ، لطیف ہے یاکثیف، اوّل، آخر،ظاھر، باطن اکنون، کن، کان، فیکون، شہود و ظہور اور دنیا و عقبٰی سب کچھ صفتِ رحمانیّت کے تحت ہے۔ وہ کس قدر رحمان ہے، اس نے خود فرمایا: "الرَّحْمَانُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا"
عَلَّمَ الْقُرْآنَ: اُس رحمان کا سب سے بڑا رحم یہ ہے کہ اس نے قرآن سکھایا۔ یہ قرآن اس کا کلام ہے، یہ کلام اس نے اپنے محبوبﷺ سے کیا۔ عالمِ فیکون کے نکتۂ آغاز پر نورِ محمدی یعنی تعیّن اوّل سے کیا۔ تب اس کلام کو آپﷺ کے دل پر نازل کیا پر اس کی مراسلت عطا فرمائی۔ یہ قرآن اللہ اور مخلوق کے درمیان حبلٌ متین ہے۔ اِس میں تمام علوم اجمالی طور پر جمع ہیں اور تفصیلی طور پر مرموز(Codified) ہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: "خیرکم من تعلّم القرآن وعلمہ" رحٰمن، قرآن انتہائی خوشگوار شدّت، بڑی وسعت اور بلندی کے صرفیات و نحویات ہیں۔ بدوی عرب کا شخص جب بہت پیاسا ہوتا ہے۔ تو کہتا ہے "اَنَا عَتْشَان"، یعنی وہ کہتا ہے کہ مجھے پانی کی کس قدر طلب ہے بس رحمنٰ مطلوب ومقصود ہے، قرآن طلب وقصد ہے اور بندہ طالب و مقتصد ہے۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ!
کیوں اللہ تعالیٰ نے توسب کچھ خَلق کیا پھر انسان کا ذکر بطورِ خاص کیوں! اس لئے کہ باقی سب مخلوقات خدمات ہیں۔ انسان مخدوم ہے اور مرتبہ جامعۂ پر ہے اور یہ قرآن کا مخاطب ہے۔ اِس کی تخلیق مقصدِ خلقت ہے ۔
عَلَّمَہُ الْبَیَانَ:
صوت،آواز،صلاۃ،دعا،تسبیح تمام مخلوقات کو سکھائی، "کُلُّ قّدْعَلِمَ صَلَا تَہ وَتَسْبِیْحَہٗ" لیکن بیان صرف انسان کو عطا فرمایا۔
بیان کا نکتۂ عروج قرآن ہے: "ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ"
اس بیانِ عظیم کے تبیان کا حق رسول کریمﷺ کو حاصل ہے۔
واصخ ہوا کہ مسلمان سرودِ ازلی کا حامل ہونا چاہیے۔ اس کی فطرت کا تقاضا یہی ہے۔ وہ رحمان کاعبدان ہے۔ وہ علَمِ قرآن کا مخاطبان ہے، وہ تخلیق کا محوران ہے۔وہ بیان تخلیق کا محوران ہے۔ وہ بیان کا علّمان ہے۔ حکیم الامۃ کا یہ شعر کتنا ضوفشان ہے۔
علّامہ زیدگل ختک صاحب