تعلیم و تربیّت
روح فورم کے اصلاحی، فلاحی اور رفاہی پروگرامز میں ترجیحی توجہ فروغِ تعلیم اور منہجِ تربیت کو حاصل ہے۔انسانی تعمیر و ترقی میں تعلیم وتربیت کا کردار خاص توجہ کا متقاضی ہے۔قرآن و سنۃ ، آثار ِ انبیاءِؑ اکرامؑ، وثائقِ اہلِ بیت علیہم السلام، بصائرِ امہات المومنین علیہن السلام نظائرِ اصحابہءِ اکرام رضی اللہ عنہم، رشحاتِ اسلافؒ و اخلافؒ اور مشاہیرِ عالم کے افکار ِ جلیلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی و تربیتی جادہ کچھ اس طور مدوّن و مترتب ہونا چاہیے۔
الف) ترغیبی طریقہءِ تعلیم و تربیت
اس طریقہء تعلیمی و تربیت کو جماعت اول سے جماعت ہشتم تک زیرِ تدریس رکھنا چاہیے۔اس طریقہ میں امام غزالیؒ، ابنِ رشدؒ، ابن طینؒ، ابن ِ زجارؒ الماوردیؒ، الفرابیؒ، سقراط اور شیکسپئر و ورڈز ورتھ (Shakespeare and Wordsworth) ایسے مشاہیرِ عالم کے افکار و ترغیبات سے استفادہ کر کے بچوں کو جبلّی اوصاف کو اثباتی طور پر نشونما دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ودعی جذبہء خیر پروان چڑھے اور شر کے احساسات فنا ہوتے چلے جائیں۔اس منطقہءِ تدریس میں ہم بچوں کے طبائع میں تعلیم و تربیت کے مفید اثرات کی پرورش کر سکتے ہیں ۔یوں ایک مضبوط بنیادِ تعلیم آگے کےمراحل میں ہمارے لیے نہایت افادیت پرور ہو گی۔
ذوقی طریقہء تعلیم و رتربیت:-
اس طریقہ کو جماعت نہم سے جماعت د و دہم(Fa, fSC)تک مروج و متداول(IN PRACTICE) رکھنا ہے۔اس میں جندیؒ، عطارؒ، قونویؒ، رومیؒ، سنائیؒ، خاقانیؒ، نظیریؒ، سعدیؒ، شیرازیؒ، بیدلؒ، غالبؒ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ، برگساں، فیثا غورث، نطشے، المانوی(گوئٹے) ، ٹیگور ایسے جبالِ فکر و نظر کے اظہارات و رشحات سے (EXTRACTUATION) کر کے بچوں کے فطری قابلیتوں کا اثباتی تنوع(POSITIVE GROUTH) دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ذوقی رجحان اور وجدانی حظ(iNTUITIONAL tALENT) بیدار ہو جائے۔وہ اپنا تشخص پا لیں۔کائنات میں اُن کو انسان کے محوری و جوھری مقام (CENTRAL & ESSENTIAL STATUS) سے روشناسی ہو جائے۔اس طرح معرفت ِ نفس کا باب کھلے گا۔یہ وہ منزل ِ تعلیم و تربیت ہے جہاں انسان ترغیبی و ترہیبی سطح سے بہت آگے بڑھ کر ذوقی طور پر اقدار (VALUES) سے مانوس ہو جاتا ہے ۔اب وہ خیر کو با تکلف(FORCE FULLY) نہیں بلکہ بے تکلف اخیتار کرتا ہے چونکہ اُس نے ترغیبی اور ذوقی طور پر حق کو دریافت کر لیا ہوتا ہے۔
ج) علوی طریقہء تعلیم وتربیت
اس اختصاصی (CLASSIFIED) طریقہ کو ڈگری، تعلیقی اور تحقیقی مدارج(BA, MA, MPHIL, PHD) میں بروئے تدریس رکھا جائے۔یہاں پر مزکورہ مراحل سے گزر کر ایک مُتَرَغَّب (MOTIVATED & INSPIRED) اور مُتَزَوَّق (NATURALIZED QUALIFIED) جماعتِ طلباء میسر ہو گی جو ایک طبیعت ِ جاذبہ ، نفسِ ناطقہ اور شعورِ باصرہ رکھتے ہونگے۔اس لیول پر ہم اُن کو اعلی افق کی طرف گامزن کریں گے اور حکیم الامت ؒ کا وہ نعرہ جلوہ گر ہو گا جو انہوں نے بہت یقین سے لگایا:
جہاں اگرچہ دگر گوں ہے قم باذن اللہ
وہی زمیں، وہی گردوں ہے قم باذن اللہ
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ
علامہ زید گل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت