اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

Education (6)

Education

صرف نحو

15 August 2022

Course #1
صرف نحو کورس

صرف و نحو وہ علم ہے جس میں لفظوں اور جملوں کی تعمیر، اور ان کے بولنے
 - اور استعمال کا قواعد کو احاطہ کیا جاتا ہے
علم صرف کا موضوع کلمہ اور کلام ہے ؛ اس علم میں ان کے آخری احوال سے بحث ہوتی ہے۔ نحو کا ایک معین طریقہ ہے۔ متکلم اس علم کے ذریعے عرب کے 

طریقے پرچلتاہے اس لیے اس علم کونحوکہتے ہیں۔

المودۃ فاؤنڈیشن عنقریب آن لائن صرف و نحو کورس کا آغاز کر رہی ہے 


Course Teacher 
پروفیسر علامہ زید گل خٹک صاحب  

 

 Course Phases  
 

اولا ۔مصادر قرآن
ثانیا ۔مفردات قرآن
ثالثا ۔ ۔ضمائر قرآن
رابعا ۔ جوائر قرآن
خامسا۔لسان القرآن


ہر ہفتے ٣ کلاسز  میں آپ گھر بیٹھے شرکت کرسکتے ہیں۔ صرف و نحو کورس میں قواعد نحو وصرف کا مکمل اجراء، آسان انداز سے درست ترجمہ کرنے کے طریقے، ، فن نحو و اصول نحو کی کتب کا تعارف اور قواعد کی معرفت، وغیرہ کروائیں جائیں گی  اور فیس کی معلومات کی لئے ہم سے رابطہ کیجیۓ
کورس میں مستحق طلباء / طالبات کے لئے نصف فیس / مکمل فیس سے رعایت کی سہولت موجود ہے

 

Student Name
Contact Number ( Preferably WhatsApp) 
Address (Only City /Country is enough) 
Email *
Do you need Discount ? 

 

نقد و نظر

11 January 2022

اَفَحُکۡمَ الۡجَاہِلِیَّۃِ یَبۡغُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکۡمًا لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ'' المائدہ 50)

 ترجمہ ۔ کیا یہ جاہلانہ دستور کے خوگر ہیں جبکہ اللہ کے دستور سے بڑھ کر احسن دستورِحیات  اہلِ یقین کے لئے اور کون سا ہوسکتا ہے۔

یہ اور اس کے علاوہ تین آیات میں اس طرح کی تراکیب کا احتمال و استحضار ہے:-

1۔ حکم الجاہلیۃ    2۔ ظن الجاہلیۃ     3۔ تبرج الجاہلیۃ   4۔ حمیّۃ الجاہلیّۃ

قرآنِ مجید اپنے اجزاء کے بارے میں خود بتاتا ہے، بس قرآنِ مجید کی اجمالی اور جمالی تفسیر یہی ہے۔ اس کے بعد تعینِ معانی کا حق صرف  مہبطِ وحیﷺکو ہے اور آپﷺ کے تعلیم و اذن سے آپﷺ کے اہلِ بیتؑ، اقاربؑ، ازواجِ مطہّراتؑ(امہات المؤمنین) اور صحابہءِاکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے۔ تابعین ، تبع تابعین، سلفِ صالحین اور بعد کے اہل الرّائے کو تدبّر فی القرآن کی ترغیب دی گئی ہےجو آخر زمان (End of time) تک میسّر رہے گی لیکن اس کے لئے تمسّک بالسنّۃ والعترت شرطِ لازم ہے، مجرّد زبان دانی اور قابلیّت ثانوی استحقاق ہے۔

ہماری تفسیری تاریخ میں چند ایک تسامحات ایسے چلے آرہے ہیں جو مروّجہ اظہارات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلًا:

جہالت اور جاہلیّت کا فرق جاننا ضروری ہے۔ جہالت' نہ جاننے 'کو  کہتے ہیں، اس میں نہ جاننے والا کبھی معذور، کبھی مجبور اور کبھی قصور وار ہوتا ہے۔ جاہلیّت حق کے شایع ہونے کے بعد مصر بر ناحق رہنے کا نام ہے۔ جہالت کا متضاد عِلم اور جاہلیّت کا متضاد اسلام و تسلیم ہے۔ نفاق کا متضاد ایمان، رخصت کا متضاد عزیمت اور مداہنت کا متضاد استقامت ہے۔

ایچ آر کا قرآنی تصوّر

تحریر: زیدگل خٹک صاحب عفی عنہ                                                                 بتشکر: کرنل نویدظفرصاحب

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مزاجِ اجتماعی سے نوازا ہے اور مدنی الطّبع بنایا ہے۔ وسائلِ ارض اس کے تصرف میں دئیے ہیں اور اختیارِ توفیقی سے متمتّع فرماکر عادلانہ روِش کا پابند بنایا ہے۔ اطاعت کی صورت میں ماجور اور بغاوت کی حالت میں معیوب قرار دیا ہے۔ اس کی سرِّیّت اور مظاہرِ فطرت میں ہدایت ودیعت کرنے کے علی الرّغم ترسیل و تنزیل کا اعلیٰ  و ازکیٰ انتظام  انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ شفقت کا آئینہ دار ہے۔

قرآنِ عظیم اللہ کا بے بدل کلام اور لاریب صحیفہ جو حضور ختم ا لمرسینﷺ کے قلبِ اطہر پر منزّل  (Revolted) ہے۔ ہدایت و حکمت کی تمام ضیاپاشیاں جلو میں رکھتا ہے اور کسی بھی گوشہءِحیات اور صیغہءِکار کو اپنے ابدی انوارات سے محروم نہیں رکھتا ۔ قرآن کا مخاطب (Being addressed) حضرتِ انسان ہے خواہ وہ منعم ہو یا مفلس، اٰجر ہو یا اجیر، مطاع ہو یا مطیع! دورِ جدید میں نسبتًانئےتقاضے نئے اسالیب کے متجسس ہیں۔

ہیومن ریسورسز کی انگریزی ترکیب ایک منصّہءِتعلیم و تربیت  بن چکی ہے۔ اردو میں اگر اس ترکیب کا نِکھرا ترجمہ کیا جائے تو انسانی وسائل و وسائط یا افرادی تقویم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے لسانی جمالیات میں اس دامنِ فکر و عمل کے لئے  دیدہ زیب اور پرسطوت مصطلحات میسّر ہیں:- شؤْن العباد، حلّْ الافراد، مردانِ کار، عقودالبشر، واسلانِ کار، اہلْ العمل۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید اس خاص حوالے سے ہمیں نہایت اور غایت درجہ عمدہ اشارات و الطاف مرحمت فرماتا ہے: ''إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ''( النّساء58)۔

ترجمہ و مفہوم: بے شک  اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے دائرہءِ مؤدت میں امانت و منصب ان لوگوں کو تفویض کرو جو اْس کی اہلیّت رکھتے ہوں، اور یہ کہ وہ( تفویض کئے جانے والے  اور تم تفویض کرنے والے) جب لوگوں کے مابین کوئی فیصلہ  یا  معاملہ کریں تو وہ فیصلہ و معاملہ   عدل و فضل کے ساتھ کریں ۔ بے شک اللہ تمہیں بہترین موعظت دیتا ہے ان تمام حوالوں سے اور بلا شک اللہ جلّ شانہٗ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

یہ آیتِ مبارکہ اور دیگرآیاتِ موضوعِ متعلّقہ پر تدبر کی دعوت دیتی ہے۔سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے '' جس نے قرآن کے جزو کو سمجھ لیاگویا اْس نے قرآن کے کْل کو سمجھ لیا''

آئیے ایچ آر کے تناظر میں اس جزوِ مبارکہ سے راہنمائی لیتے ہیں:-

یَامرکم : از خود اس سے بحث کرتا ہے کہ معاملہ امر کا ہے، اللہ جلّ شانہ کے حکم کے تحت امارت، ماموریّت، متاھَیّل اور اہل کی بات روبہءِ ذکر ہے۔

تؤدّ : اہل کا انتخاب متعلّقہ لوگوں میں سے کرنا ہےجن کے کوائف معلوم اور مستند ہوں اور جن  سے آپ روشناس اور مانوس ہوں، جن کے طبائع میں سپاس گزاری اور فرمانبرداری کا جذبہ ہو، جن کے رویّوں میں تمہارے لئے عزّت اور محبّت ہو چونکہ آگے جاکر یہی لوگ تنظیمی سطح پر آپ کے لئے ممد و معاون اور تنظیم کے لئے مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتےہیں۔

امانات : جو چیز یا وظیفہ( Obligation) تم کسی کو دے رہے ہو وہ تمہارے پاس بھی اختیاری درجہ میں امانت ہے، جہاں تک تم مکلف ہو اور تدبیر کے دائرہ میں کار گر ہو، اہلِ فرد تک اْس امانت کی ترسیل تمہاری ذمّہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ذمّہ داری تفویض کرنے سے پہلے  اور دورانِ ادائیگی فرض اہلیّت و افادیّت کا ماحول میسّر و مہیا رکھنا بھی تمہاری تعلیق ہے۔

حکمتم : یہ اہلیّت اختیار  نہیں بلکہ لازمی ہے اس لئے کہ ان مفوّضہ  لوگوں نے  آگے اہم فیصلوں اور معاملات کو سر انجام دینا ہے، ان کی کوتاہی کے مضر اثرات خود تمہاری طرف اور اجتماع کی طرف لوٹیں گے اس لئے ان کی تربیّت و تحکیم تمہاری توجّہ کی بطورِ خاص حامل ہے۔

عدل : عدل قرآن کا اصل الاصول ہے عدل کا متضاد ظلم ہے۔ سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے : ''تعرف الأشياء بأضدادها'' چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ توحید عدل ہے چونکہ شرک ظلم ہے، تصدیق عدل ہے چونکہ تکذیب ظلم ہے، کسبِ حلال عدل ہے چونکہ نفقہءِحرام ظلم ہے، اس طرح اہلِ فرد کا تقرّر عدل ہے چونکہ نا اہل فرد کا تقرّر ظلم ہے۔

یَعِظکم : اللہ کی شفقت ہے کہ اس کریم نے وعظ کا لفظ  نازل فرمایا ، یہاں وعظ کا مطلب یہ ہے کہ ایچ آر کی ایسی تفویض  و ترتیب  میں تمہارے لئے  فلاح ہے اور تمہارے اداروں کی رفاہ بھی متمکّن ہوگی۔

سمیعًا بصیرًا :  ان صفاتِ عالیہ میں در پردہ احتساب و مؤاخذہ ( Impeachment )کا اشارہ مضمر ہے کہ اپنا احتساب خود کرو، توازن و اعتدال رکھو، دیانت ملحوظِ خاطر  اور خیانت و بدعنوانی  بر طرف  رکھو وگرنہ  ''یومَ یقوم النّاس لرِبِّ العالَمینَ'' کےموقع پر خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب اْن صفاتِ محمودہ ، شمائلِ مسعودہ اور خصائصِ مطلوبہ کا ذکر کرتے ہیں  جو قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے از اوّل تا آخر بیان فرمائے ہیں بلکہ کمالِ ترغیب کے ساتھ نہایت دِل کش انداز سے ذکر فرمائے ہیں  جو بلا شبہ ایچ آر کا اعلیٰ و اولیٰ و افضل اسلوب  ہے  ہم ان محامد و محاسِن کی تعداد 92 رکھتے ہیں تاکہ مزکّیِ اعظم اور مربّیِ اکبرﷺ کے نام مبارک '' محمّد'' کے اعداد کے ساتھ نسبت قائم ہوجائے۔

  • متّقین : عقل و فہم و زہد والے۔
  • اٰمنین : امانت دار ، راز رکھنے والے۔
  • مصلحون : اصلاح کرنے والے، سلجھانے والے۔
  • صادقین : صدق شعار اور صدق بردار۔
  • راکعین : اللہ کے حضور جھکنے والے ظاہری اعتبار سے۔
  • خاشعین : اللہ کے حضور جھکنے والے قلبی اور باطنی اعتبار سے۔
  • شاکرین : شکر گزار، نعمتوں کے ضیاع سے بچنے والے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امتیازی اسلوبِ تزکیہ و تعلیم

عنوان کا استدراک :  '' یزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ''

توجیحات : دارالارقم، اصحابِ صفّہ، کاتبینِ وحی، الغارمین فی سبیل اللہ، دارالفاطمہ، منبرِسلونی، دارالزّبرۃ، مکتبِ جنیدیہ، دارالارشاد، (دارالارشاد غوثِ پاکؒ کی درس گاہ تھی) حلقات المسجد النبویّہ، نظام الطّوسیہ(امام غزالیؒ کی درس گاہ)، مجلس المصائب والبصائر و العبائر(امام سجادؒ کی درس گاہ)، دارالنّحبۃ الفکر( شیخِ اکبر ؒکا تحقیقی لجنہ)، ترتیب الافراد و تصفیۃ القلوب(نظام الدین اولیاءؒ کا نظامِ تعلیم)، اسفارالاخوان(اخوان الصفا کا وزیٹنگ سکول) ۔

تصریحات : سیّدنا علیؑ، سیّدنا جعفر، سیّدنا زیدبن ثابت، سیدہ طیّبہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام، ام المؤمنین عائشۃ رضوان اللہ علیہا، سیّدنا ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام سجاد زین العابدینؒ، امام غزالیؒ، امام ابنِ غزالیؒ، خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ، حضرت محمّد بن علی مشہدیؒ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔

نوٹ : تاریخِ تزکیہ و تعلیم و تربیّت میں اور کئ ایسی مثالیں مظہر ہیں، چند ایک ذکر کردی ہیں تاکہ واضح ہو کہ یہ نظام طبع زاد نہیں بلکہ متداول ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے مکّہ شریف کے معاشرہ سے مفلوک الحال اور مجبورالمال  افرادِ ملّت  کو اپنی خاص توجّہ کا مرکز بنایا، مدینہ طیّبہ میں آپﷺ کی خصوصی نظرِ التفات کا محور یہی اور ایسے ہی لوگ رہے۔ لطفِ ربّانی نے آنحضور ﷺ کے اس جاں گداز  رویّہ کو صرف نظرِ استحسان سے ہی نہیں دیکھا بلکہ ترغیبِ مزید دی:   وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ '' اور اے حبیب ﷺ آپ اپنے معارف و انوارِ نفس ِ قدسی سے ان لوگوں کو متمتّع فرمائیں۔ ''وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ''(الکہف 28)یا رسول اللہ ! آپ ان لوگوں کو اپنی لطفِ نگاہ کے فیض سے محروم نہ کریں۔

ہم تاریخ کی پیشانی پر انہی ہستیوں کو منصبِ تعلیم و تربیت  اور منصّہءِفلاح  واصلاح  و رفاہ کے حوالے سے متمکن و مؤثر و مفید دیکھتے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے معاشرے سے صرف انسانی بنیادوں پر انتخاب فرمایا اور امتیازی و خصوصی تزکیاتی و تربیّتی و تعلیمی اسلوب سے گزار کر سیّادت، نظامت، ادارت اور قیادت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز کردیا۔

ان حضرات کے پاس ابتداء میں کوئی صلّہ(Return) نہیں تھا  لیکن امتیازی تعلیم و تربیّت نے ان کی ذواتِ مبارکہ کو انسانی معاشرے کے لئے دنیوی و اخروی  صلہ بنادیا اور پھر یہ طریقہءِتعلیم کبھی انقطاع و تعطّل کا شکار نہیں ہوا اور نہ کسی طرح حکومتی سرپرستی سے مطلقًا بے نیاز ، اپنی مدد آپ کے تحت معجِّز و مقوَّم یہ نظام نو آبادیاتی تسلط سے پہلے تک چلتا رہا، صرف یہ نہیں کہ چلتا رہا بلکہ بہترین اثرات کا متحمّل رہا۔ چند ایک کامیاب و کامران سلاسل ہائے تزکیہ و تعلیم کا حوالہ میں نے توجیحات کے ذیلی عنوان کے تحت عرض کردیا ہے وگرنہ عبر و عنبر زلفِ مشکیں دراز ہے۔

اس کا قاعدہ ،تقویم اور  تنظیم (Foundation Sustaining, accomplishment)کے لئے تصریحات میں متذکرہ لجنات و درّاسات لائقِ تقلید اور قابلِ اتّباع ہیں۔ میں صرف ترغیبًا طوس کی مثال سے اپنی ادّعا کو مترشّح کرنا چاہونگا۔

'' حصولِ تعلیم کے بعد اس یتیم شعار معلّم نے کمال کردیا تھا، ان کی والدہءِکریمہ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عینِ جوانی میں اپنی حیاتِ مستعار کی تمام خوشیوں اور آسائشوں کو تج دیا، اپنی ساری توجّہ اپنے دو بچوں  محمّد بن محمّدغزالیؒ اور احمد بن محمد غزالیؒ   کی تعلیم پر مرتکز کردی۔ جب شوہر کا ترکہ اور اپنے اثاثے (زیورات وغیرہ) ختم ہوگئے تو اپنے مرحوم شوہر کے ایک وفادار حضرت رازکانیؒ  (جو متموّل تاجر اور عالم با عمل تھے ) سے اپنے بچوں کی تعلیمی کفالت کی درخواست کی ، موصوف تعلیمی سرپرستی کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، اْن کی مالی ولاء سے امامِ غزالیؒ نے حسبِ ضرورت نہایت قناعت  اور کفایت کے ساتھ استفادہ کیا، تب بغداد، نظامیہ، عبرون، نیشاپور، سلاجقہ کو اپنے علمی برکات  سے نوازتے ہوئے  یہ امتیازی معلّم ، متکلّم ،محدّث، عارف، ناظم، قیّم، فقیہ اور مربِّیءِعلم و تعلّم نے اپنے وطنِ مالوف طوس میں امتیازی  تزکیہ و تعلیم کا ایک عظیم الشّان مرکز بنایا جو سلسلۃ النظامیّہ کی بھی آنکھیں خیرہ کررہا تھا۔

تعمیر تین بڑے کیمپس پر مشتمل تھی:

  • مسجد : جس میں تمام مکاتِبِ فکر کے مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت تھی، فجر کے بعد درسِ قرآنِ مجید اور جمعۃ المبارک کا وعظ حضرت خود فرتے تھے۔
  • درس گاہ : ایک جامعہ (University) جس میں فلسفہ، تاریخ، تفسیر، حدیث،   منطق، کلام، نحو، تعدیل جغرافیہ، ہندسہ، کیمیا، طبعیات ، ریاضی ، نجوم، صنعت، حرفت اور کسب سب علوم و فنون زیرِتدریس تھے۔
  • خانقاہ : جس میں تصوّف بطورِ فلسفہءِحیات و نصاب پڑھایا جاتا تھااور روحانی تربیت و تزکیہ ( انابت، عقیدت، خلق، خدمت، ارادت، مجاہدہ، مراقبہ، مسامرہ، مکالمہ، مشاہدہ، مفاردہ، مجاردہ، فنا، بقا) کا بہترین نظام کار فرما تھا یعنی قال و حال و تمکین یکجا تھے۔
  • نظامت :

دارالتوہیب : اس دفتر میں عطیات، موہبات، تحائف و تصدق( Contributions, Donation, Charities) جمع ہوتے تھے۔

دارالمشاورت : اس میں اعلیٰ سطحی مشورے  ہوتے تھے۔

دارالترغیب : اس میں والدین اور مخیّر حضرات کو تعلیم پروری کی ترغیب دی جاتی تھی۔

دارالاحتشام : اس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے بچوں، والدین، اساتذہ، اور سماجی کارکنوں کو اعزازات دئیے جاتے تھے۔

دارالتّحقیق : یہ تحقیقات کا مرکز( Research center) تھا جس میں حضرت استاذ الغزالیؒ خود رونق افروز ہوتے تھے، یہاں سے ماہرین اطرافِ عالم کی طرف کوچ کرتے تھے تاکہ اور ادارے بنائیں۔

علّامہ زیدگل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

 

Educational Programs

5 January 2022

تعلیم و تربیّت

روح فورم کے اصلاحی، فلاحی اور  رفاہی پروگرامز میں ترجیحی توجہ فروغِ تعلیم اور منہجِ تربیت کو حاصل ہے۔انسانی تعمیر و ترقی  میں تعلیم  وتربیت کا کردار  خاص توجہ کا متقاضی ہے۔قرآن و سنۃ ، آثار ِ انبیاءِؑ اکرامؑ، وثائقِ اہلِ بیت علیہم السلام، بصائرِ امہات المومنین علیہن السلام نظائرِ اصحابہءِ اکرام رضی اللہ عنہم، رشحاتِ اسلافؒ و اخلافؒ اور مشاہیرِ عالم کے افکار ِ جلیلہ کو مدِ نظر  رکھتے ہوئے تعلیمی و تربیتی جادہ کچھ اس طور  مدوّن و مترتب ہونا چاہیے۔

الف) ترغیبی طریقہءِ تعلیم و تربیت

اس طریقہء تعلیمی و تربیت کو جماعت اول سے جماعت ہشتم تک زیرِ تدریس رکھنا چاہیے۔اس طریقہ میں امام غزالیؒ، ابنِ رشدؒ، ابن طینؒ، ابن ِ زجارؒ الماوردیؒ، الفرابیؒ، سقراط اور شیکسپئر و ورڈز ورتھ (Shakespeare and Wordsworth) ایسے مشاہیرِ عالم کے افکار و ترغیبات سے استفادہ کر کے بچوں کو جبلّی اوصاف کو اثباتی طور پر نشونما دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ودعی جذبہء خیر پروان چڑھے اور شر کے احساسات فنا ہوتے چلے جائیں۔اس منطقہءِ تدریس میں ہم بچوں کے طبائع میں تعلیم و تربیت  کے مفید اثرات کی پرورش کر سکتے ہیں ۔یوں ایک مضبوط بنیادِ تعلیم آگے  کےمراحل میں ہمارے لیے نہایت افادیت پرور ہو گی۔

ذوقی طریقہء تعلیم و رتربیت:-

اس طریقہ کو جماعت نہم سے جماعت د و دہم(Fa, fSC)تک مروج و متداول(IN PRACTICE) رکھنا ہے۔اس میں جندیؒ، عطارؒ، قونویؒ، رومیؒ، سنائیؒ، خاقانیؒ، نظیریؒ، سعدیؒ، شیرازیؒ، بیدلؒ، غالبؒ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ، برگساں، فیثا غورث، نطشے، المانوی(گوئٹے) ، ٹیگور ایسے جبالِ فکر و نظر کے اظہارات و رشحات  سے (EXTRACTUATION)  کر کے بچوں کے فطری قابلیتوں کا اثباتی تنوع(POSITIVE GROUTH)  دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ذوقی رجحان اور وجدانی حظ(iNTUITIONAL tALENT)   بیدار ہو جائے۔وہ اپنا تشخص پا لیں۔کائنات میں اُن کو انسان  کے محوری و جوھری مقام (CENTRAL & ESSENTIAL STATUS)  سے روشناسی ہو جائے۔اس طرح معرفت ِ نفس کا باب کھلے گا۔یہ وہ منزل ِ تعلیم و تربیت ہے جہاں انسان ترغیبی و ترہیبی سطح سے بہت آگے بڑھ کر ذوقی طور پر اقدار (VALUES)  سے مانوس ہو جاتا ہے ۔اب وہ خیر کو با تکلف(FORCE FULLY)  نہیں بلکہ بے تکلف اخیتار کرتا ہے چونکہ اُس نے ترغیبی اور ذوقی طور پر حق کو دریافت کر لیا ہوتا ہے۔

ج) علوی طریقہء تعلیم   وتربیت

اس اختصاصی (CLASSIFIED)  طریقہ کو ڈگری، تعلیقی اور تحقیقی مدارج(BA, MA, MPHIL, PHD)  میں بروئے تدریس رکھا جائے۔یہاں پر مزکورہ مراحل سے گزر کر ایک  مُتَرَغَّب (MOTIVATED & INSPIRED)  اور مُتَزَوَّق   (NATURALIZED QUALIFIED)  جماعتِ طلباء میسر ہو گی جو ایک طبیعت ِ جاذبہ ، نفسِ ناطقہ اور شعورِ باصرہ رکھتے ہونگے۔اس لیول پر ہم اُن کو اعلی افق کی طرف گامزن کریں گے اور حکیم الامت ؒ کا وہ  نعرہ جلوہ گر ہو گا جو انہوں نے بہت یقین سے لگایا:

جہاں اگرچہ دگر گوں ہے قم باذن اللہ

وہی زمیں، وہی گردوں ہے قم باذن اللہ

کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے

تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ

غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا

فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ

علامہ زید گل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

 

 

اہلِ علم نے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوّا ؑ کا طریقہء تربیت لکھا ہے جس کو انھوں نے  استعمال کیا۔سیدنا شیث ؑ کی کفالت میں اس کے کچھ نکات  اہلِ علم نے لکھے ہیں یہ بہت بڑے ماہرِ تعلیم ابنِ نجّا ر کی تقویم ہے۔

خَلق ، خُلق ، جبلّت ، فطرت ، طبیعت ، نفس

 

 

  • خَلق سے مراد حضرت آدمؑ ہیں۔جتنی خَلقی خوبیاں ہیں اعداء ، اثماء وغیرہ ۔اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو عطا فرمائی ہیں۔اب آدمؑ کا طریقہء تربیت اپنے فرزند کے لیے کیا تھا۔
  • خُلق کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ نے حضرت شیث ؑ کو کریمانہ اخلاق سکھائے۔اقدار کی تعلیم دی۔سچ بولنا ہے، حُسنِ خُلق سے پیش آنا ہے، مکارمِ اخلاق اختیار کرنے ہیں۔یہ خُلقی، تعلیم و تدریس اور  تربیت ہے۔
  • جبلت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت رکھی ہے۔اِ سکی حفاظت بہت ضروری ہے۔یہ انسان کے پاس خزانہ ہے۔اِ س خزانے پر چور مسلط ہوتے ہیں اور وہ ہیں وسوسہ، خطوہ اور شہوہ۔جب شیطان وسوسے کے ذریعے انسان کی جبلت میں اپنا سفارت خانہ بنا لیتا ہے تو اِ س صورت حال کو خطوہ کہتے  ہیں۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے "ولا تتبع خطوات الشیطن"اور شیطان کے خطوات کے پیچھے نہ چلو"یہ خطوہ جب اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو شہوہ کہلاتا ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے"جو شہوہ سے بچ گیا ، وہ فلاح پا گیا"

  • جبلت ایک طاقت ہے ، استعداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمائی ہے۔اسے ان تینوں چوروں سے بچانا ہے۔فرمانِ الہیٰ ہے
    "اے بنی آدم! شیطان کی پیروی نہ کرو۔میرے عبادت کرو، میرے احکام کی پیروی کرو۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اِس شیطان نے تم میں سے کتنوں کی جبلت بگاڑ دی"
    جبلت کی حفاظت آبروئے ملت تعلیمی نظام میں ضروری ہے۔
  • جس طرح جبلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خارجی دنیا میں ایک ودیعت فرمائی ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔اسے جبلت کے ساتھ خاص ارتباط حاصل ہے۔سورج ، چاند، ستارے وغیرہ یہ سب فطری مناظر میں شامل ہیں۔اس سے جبلت مضبوط ہوتی ہے چونکہ یہ ہدایت کی نشانی ہوتی ہے۔قرآ ن دو طرح کے ہیں۔ایک وہ جو حضورؐ کےقلبِ اطہر پر نازل ہوا۔ایک قرآن اَثَری ہے۔جس میں تمام فطری مناظر شامل ہیں۔یہ فطرت کو ہدایت پر استوار کرتے ہیں اور فطرت کو ہدایت پر ا ستحکام و انضباط بخشتے ہیں۔ابنِ نجارؒ فرماتے ہیں کہ بچوں کو فطرت آگیں بنائیں تا کہ یہ مناظر اُن کی طبیعت پر اس طرح اثرانداز ہوں جس طرح قرآن نے ان کی افادیت بتائی ہے۔جیسے ستارے سے یہ ملتا ہے ، چاند سے یہ ملتا ہے وغیرہ ۔یہ سب ایک لحاظ سے خدمات ہیں،  ہدایت کی آیات ہیں۔
  • طبیعت
    جب انسان فطری مناظر کو ہدایت پانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو طبیعت کے اندر ایک روحانی  کیفیت پیدا ہوتی ہے۔طبیعت اِن چیزوں سے مانوس ہو کر ہدایت پر جم جاتی ہے
  • طبیعت کے بعد نفس ہے۔نفس جسم و روح کے ملاپ کے بعد پیدا ہوتا ہے۔یہ قوت و استعداد اور باطنی طاقت ہے۔نفس معرفت کا محل ہے۔جب انسان خُلقی سطح پر، جبلی سطح پر، فطری سطح پر، طبعی سطح پر صحیح راستے پر  گامزن ہوتا ہے تو نفس کے اندر خود بخود معرفت پیدا ہوتی ہے۔اس طرح انسان کا سلوک، فلاح ، رفاع کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔یہ بہترین طریقہء تعلیم ہے جو ابنِ نجار نے اپنے رسالوں میں بیان کیا ہے۔
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

Recent News

cache/resized/b15a70d8f5547f99286ef34082cb3ae3.jpg 11
January 2022

عِلم

عِلم علم اصولی طور پر صفاتِ اِلٰہیہ  میں سے ہے وہ خالقِ کائنات علیم و علّام ہے۔ مطلق، ذاتی اور کلّی علم اْس کے پاس ہےاْس پاک والاصفات نے جدّْنا ...

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…