سورۃ الکوثر
حروف و الفاظ و آیاتِ مبارکہ کے اعتبار سے یہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سب سے مختصر اور مُجَمَّل سورہ ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم میں ایک تسلسل اور تاَمّل ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید کی تفسیر اوّلًا قرآن کے اندر تلاش کرنا ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ یہ تفسیری کلیہ بابُ العلم سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے بتایا ہے۔ اس کے بعد تبیان یعنی فرموداتِ مہبطِ وحی رسول اللہﷺ میں قرآنِ عظیم کی تفسیر تلاش کرنا چونکہ قرآن کے تبیان کا حق صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہے۔ دیگر کا فرض و حق اتِّباعِ رسولﷺ ہے خواہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہی کیوں نہ ہوں۔ تب آثارِ اہل البیت علیہم السلام میں قرآن کی تفسیر سے بہرہ حاصل کرنا بے حد ضروری ہے چونکہ وہ ہی اہل القرآن ہیں اور اُن سے تمسّک کا حکم رسول اللہﷺ نے اہتمام کے ساتھ دیا ہے۔ اعتصام بالکتاب کے لیے تمسّک بالعترۃ لازمی ہے۔ بعد ازاں اقارِبِ رسولﷺ، امّہاتُ المؤمنین علیہم السلام، صحابۂ اکرام رضوان اللہ علیہم اور اخیار و ابرارِاُمّت علیہم الرّحمۃ کے تفسیری افادات سے استفادہ کرنا امّت کےلیے باعثِ رحمت ہے اور تسلسل و تامّل کو انضباط و استحکام فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تفرّق کی صورت پیدا نہیں ہوتی اور اتّحادِفکر کو فروغ ملتا ہے، اتّحادِفکر اتّحادِاُمّت کا وسیلہ ہے۔ بایں ہمہ تدبّرِ قرآن اللہ کا حکم بھی ہے، رسول اللہﷺ کی ترغیب بھی ہے اور قرآن کا حق بھی!
اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر ظاہراً یہ ہے(جس کو تفسیری زبان میں شانِ نزول کہتے ہیں) کہ ایک معاند و حاسد و مخاصمِ اسلام عاص بن وائل نے رسول اللہﷺ کو ابتر کہا، غیرتِ خداوندی کو جلال آگیا اور فرمایا: ہم نے آپﷺ کو الکوثر عطا فرمائی۔ یقینًا الکوثر سے خیرِکثیر، حوضِ کوثر اور حکمت و علم بھی مراد ہیں لیکن اصلًا اس کا مطلب الکوثر الفاطمہ ہے۔ جن کی اپنی اور ان کی عترت کی سیرت نفسِ رسولﷺ کی تجلّی، تطہیر کی آماجگاہ، مودت کا مرکز و محور اور تمسّک کا تقاضا ہے۔ جن کی عترت نے ہر دور میں دینِ متین کی سرپرستی کرکے اعلائے کلمۃ الحق کا عظیم الشّان فریضہ سر انجام دے کر