ضربِ کلیم
حکیم الامتؒ کا اردو مجموعہ کلام ہے۔اس میں رزم اور قیام کے انداز میں دورِ تجدُّد اور دورِ حاضر کے حرص و ظلم ، استحصال و استعمار اور مذموم و نامساعد حالات کے خلاف ملتِ اسلام دنیا کے بیدار مغز لوگوں اور نژادِ نو کو استقامت و عزیمت کی ولولہ انگیز دعوت دی گئی ہے۔اس دعوتِ فکر و عمل کا تناظر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تحریک سے لیا گیا ہے یعنی تلمیح و ترغیبی تمثیل کلیم اللہ کے منظر نامہ سے اٹھائی گئی۔اس تلمیح کی متعدد وجوہات ہیں۔نابغۂ فکریاتِ اسلامی حضرت اقبالؒ جانتے ہیں کہ دورِ حاضر اور موسی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور کے حالات میں کیا مماثلت ہے۔وہاں بھی غلامی درپیش تھی ۔فرعون نے انسانوں کو مشارق و مغارب الارض میں غلام بنا رکھا تھا۔ظلم اور استحصال کا بازار گرم تھا۔دورِ حاضر میں بھی انسانیت استعمار کے پنجۂ خونیں میں سسک رہی ہے۔وہاں بھی حکیمی کام نہیں آئی، کلیمی کام آئی:-
ایں کارے حکیمے نیست دامانِ کلیمےگیر
صد بندۂ ساحل مست یک بندۂ دریا مست
دوسری علت یہ ہے کہ موسیٰؑ کو اہلِ مذاہب مانتے ہیں۔دورِ حاضر میں استعماری روپ دھارنے والے یہود و نصاری بھی ان کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور بے بس امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو اللہ کا اولی العزم رسول مانتی ہے۔گو یہود و نصاری شرک کی آلائش سے آلودہ ہیں اور اہلِ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تمام تر خرابیوں کے باوجود آج بھی توحید ہے۔
نکتہ سنج خاوراں ، پیر اشراق حضرت اقبالؒ ایسا عبقری اور قرآن کا تلمیذ عمیق فکر جانتا ہے کہ قرآن میں سب سے زیادہ ذکر موسیٰ کی قوم بنو اسرائیل کا ہوا ہے۔قوم وملت کو سخت حالات سے نکل کر ابھرنے میں ان تفصیلات میں نجات اورحریت و خوشحالی کا راز پنہاں ہے۔
ضربِ کلیم حضرتِ والاتبار اقبالؒ کی طبع زاد ترکیب ہے۔اس سے پہلے فارسی ادب میں عصائے موسوی کی ترکیب استعمال ہوتی تھی ۔عصائے موسوی میں معجزہ کا تصور تو آ جاتا ہے لیکن عمل اورتحریک کا نہیں۔لہذا جدید اصطلاح کی ضرورت تھی اور اس مجددِ عصر نے وہ اصطلاح فراہم کر دی:
ضرب ِکلیم
چنانچہ یہ اصطلاح بتا رہی ہے کہ دنیا کی سعادت ارشادِ نبوت، حکمت، عصا، کلیمی اور باطل پر ضربت میں پوشیدہ ہے۔اس طرح نہایت قابلِ توجہ اور وسیع تناظر کےجلو میں یہ مجموعۂ کلام شہود کرتا ہے۔
علامہ زید گل خٹک