نوائے صُبحگاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
یہ حکیم الامۃ علّامہ اقبالؒ کا غزلیہ شعر ہے ۔ اصنافِ نظم(نظم کی قسموں)میں غزل کو یہ امتیاز(رتبہ)حاصل ہے کہ اس کا ہرایک شعر منفرد ہوتا ہےاور جدا و مکمّل مفہوم کا متحمّل ہوتا ہے۔
اردو غزل میں عارفانہ ذوق کا اظہار خواجہ میر دردؒ اور غالبؒ کے دور سے چلا آرہا تھا، لیکن حکیم الامۃؒ نے اردو غزل کو غسلِ تصوّف دے کر بالکل مشربی رنگ دے دیا۔یہ کمالِ ذوق یہاں تک محدود نہیں بلکہ حضرتؒ نے اپنے غزلیاتی اشعارکا پسِ منظر قرآنی آیات و تلمیحات اور احادیث و آثار سے گْلِ رنگ کردیااور اپنے اشعار میں نہایت گِہرے معانی و مطالب کو سمودیا۔
شعرِموضوع میں خطا کا لفظ فی الوقعہ اصطلاحِ سرّیّت ہے ، جب سالک(چلنے والا) عرفانِ ذات اور سلوک کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، محبوبِ حقّانی اور جلوہءِربّانی کی طرف انابت کرتا ہے تو اسے اپنی کم مائیگی(تنگ حالی)، بے کسی، بے بسی، فروتنی، عاجزی وانکساری اور بے بضاعتی(ناداری) کا احساس ہوتا ہے۔
ایسی بے سروسامانی میں اْس حسنِ ازل کی محبّت کا دعویٰ ایک طرح کی بے ادبی اور خطا ہے ، لیکن یہ اْس نورالسّمٰوات والارض کی توفیق سے ہی ممکن ہے ، یہاں اپنا کچھ نہیں سب کچھ اْسی کا ہے۔''یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ
جن قارئینِ محترم کا تناظر علمی ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منہجِ تذکرہ کا متمکّن اسلوب اثبات ہے، اہلِ سیرت اور فلاسفہ کا مؤقّف ہےکہ نفی و تضاد اثبات کے تعیّن و تشخص و تتمیز کے لئے ہوتا ہے اس لئے سَلبی اظہار امکانی و اعتباری علمی رویّہ نہیں ہے اس حوالے سے متکلّمین اور مشربیّین کے رشحاتِ جلیلہ اور افکارِ متبحِّرہ بطورِخاص قابِلِ لحاظ اور لائقِ تجلّب ہیں۔
کائنات میں خَلقی اور خْلقی سطح پر اعظم و ازکیٰ و اطہر و اطیب و اقدس اعتباری ہستی رسول اللہﷺ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خِلافِ اولیٰ پر آنجناب رسالتِ مآبﷺ ازواجِ مطہّرات(امّہات المؤمنین)سے شکر رنج ہوکر مسجدِنبوی شریف میں معتکف و متراہب ہوگئے تھے تو کیا یہ عمل غیر مستحسن کے طور پر مذکور تصوّر بھی کیا جاسکتا ہے (العیاذباللہ والصّلٰوۃ علیٰ رسولہٖ والتّسلیم وعلیٰ امہاتنا الحلیم)۔
یہ عمل متوجہ و متراجع بصائر ہے، رسول اللہ ﷺ کا مقامِ رضا اس واقعہءِعبیرہ میں مستظہر ہے اور امّہات المؤمنین کا منصّہءِامتیاز اور مرتبہءِ اعزازمتجلّیٰ ہے۔ چنانچہ تبصیرِتنزیل ملاحظہ فرمائیے اور خطیرہءِاثبات کی جلوہ گری دیکھیئے:
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء”(الاحزاب۔32) نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ "(الاحزاب۔6) نبی تو مؤمنوں کے لئے اْن کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہےاور نبی کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔
قرآنِ عظیم سے مستفاد و منصوص اس تلمیح و اشارت کے بعد جو منہجِ تذکرہ اور اسلوبِ جلب و اثبات پر محاکمہءِایجاب (Constructive doctrine) فراہم و ارزاں کرتی ہے۔ نفسِ مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں:
ملّی اساطین اور قومی رجال کو مختلَّف و متنازعہ فیہ بنانے کا عمل بتحقیق و تدقیق بھی منشوء و مختار نہیں ۔آپ سب مشاجرات، مسلّمات، مصفیات، مؤتفِقات اور مختمات ایسی مصطلحات سے واقف ہوں گے اور اِن علمی مختارات کا دائرہ تکلّْف و نفوذ بھی جانتے ہوں گے۔
ضربِ کلیم
حکیم الامتؒ کا اردو مجموعہ کلام ہے۔اس میں رزم اور قیام کے انداز میں دورِ تجدُّد اور دورِ حاضر کے حرص و ظلم ، استحصال و استعمار اور مذموم و نامساعد حالات کے خلاف ملتِ اسلام دنیا کے بیدار مغز لوگوں اور نژادِ نو کو استقامت و عزیمت کی ولولہ انگیز دعوت دی گئی ہے۔اس دعوتِ فکر و عمل کا تناظر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تحریک سے لیا گیا ہے یعنی تلمیح و ترغیبی تمثیل کلیم اللہ کے منظر نامہ سے اٹھائی گئی۔اس تلمیح کی متعدد وجوہات ہیں۔نابغۂ فکریاتِ اسلامی حضرت اقبالؒ جانتے ہیں کہ دورِ حاضر اور موسی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور کے حالات میں کیا مماثلت ہے۔وہاں بھی غلامی درپیش تھی ۔فرعون نے انسانوں کو مشارق و مغارب الارض میں غلام بنا رکھا تھا۔ظلم اور استحصال کا بازار گرم تھا۔دورِ حاضر میں بھی انسانیت استعمار کے پنجۂ خونیں میں سسک رہی ہے۔وہاں بھی حکیمی کام نہیں آئی، کلیمی کام آئی:-
ایں کارے حکیمے نیست دامانِ کلیمےگیر
صد بندۂ ساحل مست یک بندۂ دریا مست
دوسری علت یہ ہے کہ موسیٰؑ کو اہلِ مذاہب مانتے ہیں۔دورِ حاضر میں استعماری روپ دھارنے والے یہود و نصاری بھی ان کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور بے بس امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو اللہ کا اولی العزم رسول مانتی ہے۔گو یہود و نصاری شرک کی آلائش سے آلودہ ہیں اور اہلِ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تمام تر خرابیوں کے باوجود آج بھی توحید ہے۔
نکتہ سنج خاوراں ، پیر اشراق حضرت اقبالؒ ایسا عبقری اور قرآن کا تلمیذ عمیق فکر جانتا ہے کہ قرآن میں سب سے زیادہ ذکر موسیٰ کی قوم بنو اسرائیل کا ہوا ہے۔قوم وملت کو سخت حالات سے نکل کر ابھرنے میں ان تفصیلات میں نجات اورحریت و خوشحالی کا راز پنہاں ہے۔
ضربِ کلیم حضرتِ والاتبار اقبالؒ کی طبع زاد ترکیب ہے۔اس سے پہلے فارسی ادب میں عصائے موسوی کی ترکیب استعمال ہوتی تھی ۔عصائے موسوی میں معجزہ کا تصور تو آ جاتا ہے لیکن عمل اورتحریک کا نہیں۔لہذا جدید اصطلاح کی ضرورت تھی اور اس مجددِ عصر نے وہ اصطلاح فراہم کر دی:
ضرب ِکلیم
چنانچہ یہ اصطلاح بتا رہی ہے کہ دنیا کی سعادت ارشادِ نبوت، حکمت، عصا، کلیمی اور باطل پر ضربت میں پوشیدہ ہے۔اس طرح نہایت قابلِ توجہ اور وسیع تناظر کےجلو میں یہ مجموعۂ کلام شہود کرتا ہے۔
علامہ زید گل خٹک