قسط ۔2 , تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ربطِ ملّت سے شناور افراد کے لئے حکیم الامۃ کا یہ شعرایک وعظِ مسلسل ہے، اس شعر کو سمجھنے کے لئے اس کے تناظر میں جانا ضروری ہے۔فطرت کا لفظ یہاں مروّج اور مستعمل معنوں میں نہیں ہےبلکہ فطرت سے مْراد یہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذاتِ ستودہ صفات ہیں ، جو عظیم قدرتوں کی حامِل ہے، اْس جلیل وجمیل کے صفاتِ عالیہ میں تین اسماءِ مقتدرہ کو پانا اور اْن سے لْطف وکیف اور ذوق وسر مستی حاصل کرنا فردِملّت کاتوشہ ہے۔
اَلبَدِیعْ :- جس نےتمام مخلوقات کی ابتدا اپنی حکمتِ بالغہ اور قْدرتِ کامِلہ سے کی۔
اَلخالِقْ :-جس نے مختلف اور نو بَنو عناصر کے جواہر کو باہم مرکّب کرکے شعوری خلائق پیدا کئے ، مثلاََ سیّدنا آدمؑ کے نفس کو 92 عناصر کے جواہر سے مرکّب کیا جن میں ہوا، پانی ، مٹی اور آگ نمایاں ہیں ۔
اَلفَاطِرْ :- جس نے تمام خلائق کو مخصوص فطرت، استعداد اور صلاحیّت عطا فرمائی اور حضرتِ انسان کو اپنے خْلْق پر پیداکیا ، اس کو ایسی فطرت اور جبلّت عطا فرمائی کہ وہ اگر چاہے تو عاداتِ اِلٰہیہ کی اتّباع کرسکتاہے۔ اس لئے انسان کو کائنات کا مِحور اور اپنا خلیفہ بنایا ۔
فردِ ملّت
تحریر : پروفیسر علامہ زائد گل خٹک
قسط۔1
صداقت کے لئے ہو جس دل میں مرنے کی تڑپ
وہ پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
حکیم الامّۃؒ فردِ ملّت کی روحانی اور جسمانی تربیّت و تقویّت کوبہت ضروری سمجھتے ہیں اور اس کو ملّت کا عظیم سرمایہ قرار دیتے ہیں۔افراد کی تربیّت وتقویّت میں اعتقادی و ایمانی ثبات کو اہم مقام حاصل ہےاس لئے حکیم الاْمّۃؒ نے اس کو خاص طور پر اْجاگر کیا ہے۔ قرآن و سْنّت کے اعتقادی نظام کو اصولی طور پر تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1 ۔توحید 2۔رسالت 3۔معاد (آخرۃ)
توحید سب سےبڑی حقیقت ہے، باقی سب حقائق اس عظیم حقیقت کے مرہونِ منّت اور تابع ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ موجودِ مطلق اورحسنِ ازل ہے،باقی سب اْس کے صفات کی کارفرما ئی ہے۔خالِقِ اقدس نے تمام خلائق کو معنوی ومادی طور پر رونما فرمایا، وہ کریم وجمیل وحدہٗ لاشریک واجب الوجود ہے باقی ساراکان ومایکون اعتبار وامکان ہےجو فالواقعہ صفاتِ باری تعالیٰ کے انوارات کی جلوہ گری ہے۔
حکیم الامّۃؒ نے باقی مْتکلِّمین ،ماتریدیؒ، اشعریؒ ، طحاویؒ اورنسفی ؒکی طرح توحیدکو صرف اعتقادی سطح پر واضح نہیں کیا بلکہ عملی طور پرکھولا ہے۔
تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
عزیز ساتھیو!حکیم الامّۃ حضرت علّامہ اقبال ؒ اپنے شاہینوں کو اْن کا مْقام یاد دِلاتے ہیں، تاکہ اْن کو اپنی اہمیّت کا احساس ہوجائےاور وہ ذمّہ دارانہ کردار اور اچھی سیرت کا مظاہرہ کریں۔
یہ کائنات اور اس کی تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور انسان کو ازل سے ابد تک اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ آسمان انسان کے لئے سقف (Roof) ہے ، سورج روشنی مہیّا کرتا ہے، چاند سورج کی شعاعیں منعکس (Reflect) کرتا ہے ، بارش زمین کو شاداب رکھتی ہے ،زمین ہمارے لئے قیام اور رزق کا بندوبست ہے۔لیکن انسان اس سارے کارخانہءِحیات کا مرکز ہے اور وہ اپنے رب کا خلیفہ ہے ، سب سے بڑے انسان ، تمام انسانوں کے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمّدمصطفیٰﷺ ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی خلافت کا حق ادا کرکے ہمارے لئے بہترین نمونہءِحیات چھوڑاجسے قرآنِ مجید کی زبان میں اْسوہءِحسنہ کہتے ہیں ۔
علّامہ محمّد اقبال ؒ اسوہءِحسنہ کے سچے ترجمان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں۔۔
کی محمّد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں