قسط ۔5 , تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
افرادکے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
حکیم الامۃ ؒ کا یہ بیت ہمارے عنوان کی پیاس بْجھانے کے لئے کافی ہے، فردِ ملّت کا ہاتھ اگر ''یَداللہِ فَوقَ اَیدِیہِم'' ترجمہ ۔ اللہ کی مدداْن کے ساتھ ہے'' سے عبارت ہو تووہ قوم کی تقدیر بن سکتا ہے ، مومن کا ہاتھ جب تائیدِایزدی اور نصرتِ غیبی سے مدد پاتا ہے تب کارساز، کار کشا اور کار آفریں بن جاتا ہے ، ظاہر کی آراستگی اور باطن کی پیراستگی فرد کو ناقابلِ تسخیر بنادیتی ہے اور وہ قوم کی رونق اور سطوت وجبروت کا باعث بنتی ہے۔
فرد عضوِقوم ہے، اعضا کی مضبوطی جسم کی قوّت ہے ، قوم کا قیام فردِ ملّت کے دستِ زبردست سے دائم و لایزال ہے۔
قسط۔ 4, تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
افراد کی استعداد اور دریافت قومی وملّی صلاحیّت کا باعث بنتی ہے، اگر فرد ہدایت کی نعمت سے محروم ہو، اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو تو اْس کی استعداد اور دریافت اْس کو تکبّراور فساد فی الارض کی راہ پر ڈال سکتی ہے، ایسے افراد جو روحانی اور اخلاقی اقدارِ عالیہ اور شرفِ تمدّْنی سے بے بہرہ ہوں، حدودِ الٰہیہ سے نابلداور قیود شرعِ انبیاء علیہم السلام سے آزاد ہوں ،اْن کی جدّت طرازیاں اور ارتقائی افکار خود اْن کے لئے اور دیگر اقوام ومِلل کے لئے سخت نقصان دہ ہیں اسلام اور سیرتِ پاک ؐمیں ایسے افراد کے لئے حدود وقیود،خواطر وضوابط، قواعد واخلاقیات اور نظم ونسق کا ایسا پائدار تعین ہے جس سےتجاوز جْرم ہے ۔
معروف ومنکر ، اوامر ونواہی اور آداب و وثائق کا یہ اعلیٰ تمدّن انسان کو تہذیب واحسان کی راہوں پر گامزن کردیتا ہے، ان اسالیب کے تحت افراد کی فکری منزلت اور ارتقائی تموّج ایک صالح ملّت ترتیب دیتی ہے جو عالمِ بشریٰ کے لئے مصلح ، مفید، فلاح کار اور رفاہ ساز بن سکتی ہے، حکیم الامّۃؒ ارتقاءِ محض کے حق میں نہیں ہیں، آپؒ ارتقاءِ مفید کا پرچار کرتے ہیں ۔ افکار کا عملی صعود اگر اْن اقوام کے افراد کے ہاں رْوبہءِ اختیار ہو تو تمرّْد،تکبّْر اورتترف کی فضا قائم ہوگی اور انسانیت سسکتی رہیگی جن کے ہاں ہدایاتِ سماوی سے محرومی مقدّر ہے۔
قسط۔ 3, تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
فردِ ملّت
فرد از حقِّ ملّت از وے زندہ است
از شعاعِ مہر اْو تابندہ است
ترجمہ ۔ فرد اللہ واجب الوجود کی معرفت وتعلّق سے قائم ہے اور ملّت تعلّقِ رسول اللہ ﷺ سے پائندہ ہے اور سراجِ منیر کی شعاع سے چمک رہی ہے۔
شعر عنوان میں حکیم الامّۃ نے ربط ِفرداور ربطِ ملّت کاعقدہ نہایت جامعیّت سے کھولا ہے، فرد خودی سے استحکام پکڑتا ہے اور خودی کے سفرِجاودانی کا اہم ترین مرحلہ تزکیہءِنفس ہےجو رسول اللہ ﷺکی عطا کے رہیںِ منت ہے۔
اللہ نے اس عظیم احسان کاذکر اہتمام کےساتھ فرمایا: ''لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ'' (اٰلِ عِمران 164) ترجمہ ۔بےشک اﷲ نے مومنوں پر بڑا اِحسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے۔
تزکیہ کے نتیجے میں تعلّق باللہ پیدا ہوتا ہے اورمعرفت نصیب ہوتی ہے۔معرفت ہی فرد کا اصل سرمایہ ہے۔ عملِ صالح ، یقینِ محکم، توکّل علی اللہ، قناعت (تھوڑی چیز پر رضا مند)واستغنا( بے غرض، بے نیاز)، صبر وتحمّل ،فنا فی اللہ اور بقا باللہ ایسے خواصِ عالیہ اور اشرافِ انسانی اتباعِ رسولﷺہی کا ثمرہیں۔