Tassawuf (3)
تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک
مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
عزیز ساتھیو!حکیم الامّۃ حضرت علّامہ اقبال ؒ اپنے شاہینوں کو اْن کا مْقام یاد دِلاتے ہیں، تاکہ اْن کو اپنی اہمیّت کا احساس ہوجائےاور وہ ذمّہ دارانہ کردار اور اچھی سیرت کا مظاہرہ کریں۔
یہ کائنات اور اس کی تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور انسان کو ازل سے ابد تک اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ آسمان انسان کے لئے سقف (Roof) ہے ، سورج روشنی مہیّا کرتا ہے، چاند سورج کی شعاعیں منعکس (Reflect) کرتا ہے ، بارش زمین کو شاداب رکھتی ہے ،زمین ہمارے لئے قیام اور رزق کا بندوبست ہے۔لیکن انسان اس سارے کارخانہءِحیات کا مرکز ہے اور وہ اپنے رب کا خلیفہ ہے ، سب سے بڑے انسان ، تمام انسانوں کے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمّدمصطفیٰﷺ ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی خلافت کا حق ادا کرکے ہمارے لئے بہترین نمونہءِحیات چھوڑاجسے قرآنِ مجید کی زبان میں اْسوہءِحسنہ کہتے ہیں ۔
علّامہ محمّد اقبال ؒ اسوہءِحسنہ کے سچے ترجمان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں۔۔
کی محمّد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
نوائے صُبحگاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!
یہ حکیم الامۃ علّامہ اقبالؒ کا غزلیہ شعر ہے ۔ اصنافِ نظم(نظم کی قسموں)میں غزل کو یہ امتیاز(رتبہ)حاصل ہے کہ اس کا ہرایک شعر منفرد ہوتا ہےاور جدا و مکمّل مفہوم کا متحمّل ہوتا ہے۔
اردو غزل میں عارفانہ ذوق کا اظہار خواجہ میر دردؒ اور غالبؒ کے دور سے چلا آرہا تھا، لیکن حکیم الامۃؒ نے اردو غزل کو غسلِ تصوّف دے کر بالکل مشربی رنگ دے دیا۔یہ کمالِ ذوق یہاں تک محدود نہیں بلکہ حضرتؒ نے اپنے غزلیاتی اشعارکا پسِ منظر قرآنی آیات و تلمیحات اور احادیث و آثار سے گْلِ رنگ کردیااور اپنے اشعار میں نہایت گِہرے معانی و مطالب کو سمودیا۔
شعرِموضوع میں خطا کا لفظ فی الوقعہ اصطلاحِ سرّیّت ہے ، جب سالک(چلنے والا) عرفانِ ذات اور سلوک کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، محبوبِ حقّانی اور جلوہءِربّانی کی طرف انابت کرتا ہے تو اسے اپنی کم مائیگی(تنگ حالی)، بے کسی، بے بسی، فروتنی، عاجزی وانکساری اور بے بضاعتی(ناداری) کا احساس ہوتا ہے۔
ایسی بے سروسامانی میں اْس حسنِ ازل کی محبّت کا دعویٰ ایک طرح کی بے ادبی اور خطا ہے ، لیکن یہ اْس نورالسّمٰوات والارض کی توفیق سے ہی ممکن ہے ، یہاں اپنا کچھ نہیں سب کچھ اْسی کا ہے۔''یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ
حقیقت الروح
روح کے تعلق قرآن مجید فرقان حمید کا اصولی فیصلہ ہے کہ
وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ۰ۭ
ترجمہ:۔ اے حبیب لبیب صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ
ترجمہ:۔ ”اے میرے حبیب صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ بتا دیکھئے کہ روح عالم امر میں سے ہے۔
وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا۸۵
ترجمہ:۔ کہ اے انسانوں روح کے تعلق آپ کو محدود علم دیا گیا ہیں
روح امر بسیط میں سے ہے۔ بعض محققین نے فرما ہیں کہ انائے بسیط میں سے ہے۔ چونکہ کریم رب فرماتے ہیں۔
وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ
کہ روح کو جب میں آدم علیہ السلام میں سے پھونکوں۔
توامر بسیط ،عالم امر اور انائے بسیط میں سے ہے۔
روح الله کا امر ہے اور یہ کائنات و کائنات کے جملہ اعتبارات و مجازات و امکانات بأمر اللہ قائم و دائم ہیں۔
جب نفس انسانی سے روح کاایتصال ہوتا ہے تو جو انسانی کی تعمیل ہوتا ہے۔ اب وجود انسانی کو اللہ تبارک وتعالی جل وعلیٰ اختیارِ توفیقی سے نوازتا ہے، وہ متحریک بھی ہوتا ہے متکلم بھی ہوتا ہے اور بالآثر خدائے کریم و جلیل اس کو ارتحال دیتا ہے۔ اور اس دنیا سے برزخ کیطرف پرواز کر جاتا ہے۔
حالت خواب میں روح کا ایک حصہ مستخرج ہوتا ہے، جسے روح سیلانی کہتے ہیں۔ جب روح آنانے بسيط امر بسیط اور عالم امر میں سے ہے تو پر ’’متصرف ‘‘ میں سے ہے بأمر اللہ۔
عالم خواب میں ’’روح نباتی‘‘ کی وجہ سے جسم طبعی زنده و متصرف ہوتا ہے۔
حصہ دوئم روح سیلانی،عالم بالا، عالم مثال اعلیٰ ئے علین میں پرواز کر جاتا ہے۔
دیدار ونندارو خواب ، و سیلانی کو عالم بالا، عالم مثال اور اعلی ٰ ئےعلین میں منکشف ہوتے ہیں۔
روح سیلانی تمثیلی خاکہ مظاہر کیساتھ صورتِ خواب روح نباتی کو تر سیل کرتا ہے، سوج بو جه اور تعبیر و امکانکا اطلاق ہوتا ہے۔
ابوحامد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روح تین ماورائی خصوصیات وانوارات کی حامل ہے۔
سریع الحرکت ہے۔
سریع النفوز ہے اور

معراج النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم
by Prof Zaid Gul Khattak Link download by Prof Zaid Gul Khattak Link download
ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان
by Prof Zaid Gul Khattak Link download
From The Blog
-
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت از زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے حلق میں زہر انڈیل دیا۔
پھر حضرتِ اقبال تاریخ کی طرف جاتے ہیں ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان اظہار پسند ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال کو سمو کے رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں حزب الشیطان کے ایک سرکش کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے ۔
قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا
فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ
-
پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے ح کُن
اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے
Support us to spread the love n light
Your contribution can make the difference - Get involved
Upcoming Events
Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم