ہے اصل میں نفس جب ہویدا ہوتا ہے تو وہ نفسِ لوّامہ بنتا ہے
جو نیکیوں پر قانع ،آمادہ کرتا ہے اور برائی پر ناقد ہوتا ہے یعنی ملامت کرتا ہے لوامہ اس لئے اس کو کہتے ہیں کہ یہ ملامت کرتا ہے کہ برائی کے راستے پر نہ چلو نیکی کے راستے پر چلو اس کے بعد نفس ترقی کرتے ہوئے نفسِ معرفہ،مطمئنہ،زکیہ بنتا ہے۔
نفس مقام معرفت ہے اس میں سے معرفت کا خزانہ تلاش کرنا ایساہے جس طرح ہم زمین پر محنت کرتے ہیں اور وہاں سے پھل پھول درخت اور فصل آتی ہیں اور ایک باغ ہمارے سامنے بن جاتا ہےایسے ہی ہم دعا کرتے ہیں تو آسمان سے بارش آتی ہے، سورج کی روشنی پھوٹتی ہے یہ تمام کائنات ، زمین کے خواص ہیں۔ چاند میں شفافیت ہے سورج میں نور ہے آسمان میں سائبانی ہے زمین میں شادابی و زرخیزی ہے یہ اس کی خصوصیت ہے اسی طرح نفس کی خصوصیت معرفت ہے۔
نفس کے اندر معرفت کے سارے خزانے موجود ہیں ۔ محنت کرکے تزکیاتی عمل سے گزار کر عمل کرکے نفس کے اندر سے معرفت کے خزانے ٹٹولنا اور نکالنا باطن کا تزکیہ ہے اور یہ ہمارا تزکیاتی طریقۂ تعلیم کا نقطۂ عُنفوان ہوگا۔ اگلا مرحلہ ظاہر کا رویّہ ہے جونہی باطن میں معرفت پیدا ہوجائے قلب بینا ،روح متجلیّٰ ، سِر مُنکشف،عقل راست ہوگی تو نفس معرفت، وجدان عشق، خفی و اخفی مستی و سرمستی پائےگا تو پورا باطن مزکّٰی و متزکٰٗی ہوگا۔ اب اس کا ظاہر پر رویّہ بالکل اس طرح ہوگا جیسے سورج نکلتا ہے تو تمام چیزیں چمک جاتی ہیں ۔پھر ظاہر خود بخود ٹھیک ہوجائے جب نفس کے اندر سے بدنیّتی،حسد،عناد،بغض،نفرت ،حرص یہ سارے رِجز اور رُجز ختم ہوجائینگے تو پھر ظاہری کردار ایسا ہوگا جس سے معاشرہ بقعۂ نور بنےگا۔
تبیان
"هَٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ" (آل عمران - 138)
اس بیان کے تبیان(وضاحت) کی اتھارٹی آقا و مولیٰ ﷺ کو حاصل ہے "لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ" اے میرے حبیبﷺ اس بیان کا تبیان آپؐ کریں گے یہ حق کسی اور کے پاس نہیں۔ آقا و مولیٰ ﷺ جب کسی چیز کا تعین کریں مثلًا جب آیتِ مودّۃ نازل ہوئی تو صدّیقِ اُمّت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کہ حضور آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ سرورِکونینﷺ نے فرمایا: "فاطمۃٌ وَ عَلِیٌّ وَ وَلدَاھُما" تو معلوم ہوا کہ قرآن و وحی بیان ہے اور سنّت اس کا تبیان ہے ۔جب رسولِ اکرم ﷺکسی چیز کا تعین فرمادیں تو اُمّت کسی فرد و ولی کو اختیار نہیں کہ اس میں ردّ و بدل کرے۔مروّجہ نظامِ تعلیم میں رائے پسندی کی بھرمار کو ختم کرکے اُمّت کو مرکز و محور پر لانے کی ضرورت ہے۔
بُرہان
بُرہان کا مطلب ہے مستند چیزیں جیسے قرآنِ مجید، احادیثِ رسولﷺ، اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام اور ازواجِ مطہّرّات و صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثارِمبارکہ۔ایسے ہی اُمّت کا تامّل، مسلمانوں کا اجماع اگر اصل کے مطابق ہو اور فاتح کی فتح اگر عادلانہ ہو فتحِ مکّہ کی طرح تو وہ بھی بُرہان ہے۔حکیم الامّتؒ فرماتے ہیں:
آنکہ بر اعداء درِ رحمت کُشاد
اہلِ مکّہ را پیامِ لاتثریب داد
کسی فاتح کی فتح، قاضی کی عدل اور مصنّف کی تصنیف اگر اس کے مطابق ہو تو وہ بھی بُرہان ہے لیکن اس میں تسلسل اور قرآن و سنّت کے ساتھ انضباط بہت ضروری ہے۔
علامہ زیدگُل خٹک صاحب