اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

Super User

تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک


دہرمیں اسمِ محمّدسے اْجالاکردے

رسول اللہﷺ کے مبارک وصفی ناموں سے اقدارِاْسوہءِحسنہ کا استخراج واستنباط :قَالَ علیہ السلام''اَللہ معطِیٌّ وَّاِنَّمَا اَنَا محَمَّدٌقَاسِمٌ'' ترجمہ۔حضورﷺنے فرمایا اللہ عطا کرنے والاہے اور میں محمّدؐاللہ کی اذن سے تقسیم کرنے والا ہوں(اسانید وجوامع)

ناموں کےاستخراج سب امامِ قرطبیؒ کے رشحاتِ فکر سےلی گئی ہیں۔

تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک  

 

مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا

عزیز ساتھیو!حکیم الامّۃ حضرت علّامہ اقبال ؒ اپنے شاہینوں کو اْن کا مْقام یاد دِلاتے ہیں، تاکہ  اْن کو اپنی اہمیّت کا احساس ہوجائےاور وہ ذمّہ دارانہ کردار اور اچھی سیرت کا مظاہرہ کریں۔

یہ کائنات اور اس کی تمام چیزیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لئے پیدا کی ہیں  اور انسان کو ازل سے ابد تک اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ آسمان انسان کے لئے سقف (Roof) ہے ، سورج روشنی مہیّا کرتا ہے، چاند سورج کی شعاعیں منعکس (Reflect)  کرتا ہے  ،  بارش زمین کو شاداب رکھتی ہے ،زمین ہمارے لئے قیام اور رزق کا بندوبست ہے۔لیکن انسان اس سارے کارخانہءِحیات کا مرکز ہے اور وہ اپنے رب کا خلیفہ ہے ، سب سے بڑے انسان ، تمام انسانوں کے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمّدمصطفیٰﷺ  ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی خلافت کا حق ادا کرکے ہمارے لئے بہترین نمونہءِحیات چھوڑاجسے قرآنِ مجید کی زبان میں اْسوہءِحسنہ کہتے ہیں ۔

علّامہ محمّد اقبال ؒ اسوہءِحسنہ کے سچے ترجمان ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں۔۔

کی محمّد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

نوائے صُبح‌گاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!

یہ حکیم الامۃ علّامہ اقبالؒ  کا غزلیہ شعر ہے ۔ اصنافِ نظم(نظم کی قسموں)میں غزل کو یہ امتیاز(رتبہ)حاصل ہے کہ اس کا ہرایک  شعر منفرد ہوتا ہےاور جدا و مکمّل مفہوم کا متحمّل ہوتا ہے۔

اردو غزل میں عارفانہ ذوق کا اظہار خواجہ میر دردؒ اور غالبؒ کے دور سے چلا آرہا تھا، لیکن حکیم الامۃؒ نے اردو غزل کو غسلِ تصوّف دے کر بالکل مشربی رنگ دے دیا۔یہ کمالِ ذوق یہاں تک محدود نہیں بلکہ حضرتؒ نے اپنے غزلیاتی اشعارکا پسِ منظر قرآنی آیات و تلمیحات اور احادیث  و آثار سے گْلِ رنگ کردیااور اپنے اشعار میں نہایت گِہرے معانی و مطالب کو سمودیا۔

شعرِموضوع میں خطا کا لفظ فی الوقعہ اصطلاحِ سرّیّت ہے ، جب سالک(چلنے والا) عرفانِ ذات اور سلوک کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، محبوبِ حقّانی اور جلوہءِربّانی کی طرف انابت کرتا ہے تو اسے اپنی کم مائیگی(تنگ حالی)، بے کسی، بے بسی، فروتنی، عاجزی وانکساری اور بے بضاعتی(ناداری) کا احساس ہوتا ہے۔

ایسی بے سروسامانی میں اْس حسنِ ازل کی محبّت کا دعویٰ ایک طرح کی بے ادبی اور خطا ہے ، لیکن یہ اْس نورالسّمٰوات والارض کی توفیق سے ہی ممکن ہے ، یہاں اپنا کچھ نہیں سب کچھ اْسی کا ہے۔''یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ

تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک صاحب 

 

وہ دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ

یہ ہر دو اشعار بالِ جبریل کے غزلیات میں سے ماخوذ ہیں ان غزلیات میں حیکم سنائیؒ کے افکار جلیلہ کی پیروی کی گئی ہے۔حکیم الا مۃؒ نے اس با ت کا اظہار اگلے ہی شعر میں خود فرما دیا ہے۔

سنائیؔ کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ

ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لُولوئے لالا

حضرت حکیم سنائیؒ افغانستان کے رہنے والے تھے ۔وہ فارسی زبان کے مشہور فلسفی اور صوفی شاعرہیں ۔حضرت حیکم سنائیؒ اس سلسلۃ الذّہب کے ترجمان ہیں جس میں درخشاں کو کب حضرت  جلال الدین رومیؒ ہیں۔

ما از پئے سنائیؒ و عطارؒ آمدیم  (عارف رومیؒ)  (میں سنائیؒ اور عطّارؒ کے قدموں(صحبت)سے آیا ہوں)

اس سلسلۃ الفکر کی آخری کڑی بلا شبہ حکیم الا مۃ اقبال لاہوریؒ ہے۔یہ فکر سلسلہءِ عزیمت خانہءِ اہلِ بیتِ اطہار سے آغاز پزیر ہوا ہے۔اس دبستانِ فکرو اظہار میں شریعت،طریقت، معرفت، حقیقت ،تفلسف ،وتعقل اور نظریہءِ حقیقتِ محمّدی ؐیہ سب کچھ بصیغہءِجمال(اچھے اندازسے) بیان ہوا ہے۔اس سلسلۃ الرو  حانیہ والفکریہ(روحانی اور فکری سلسلہ)  کے سرخیل (Leader)و سرتاج امام عالی مقام خود ہیں۔

ہم رہ روِ دشتِ بلا روزِ ازل سے

اور قافلہ سالار حسین ابنِ علیؑ ہے

ا

مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال  اور  مظاہروں  کا نام نہیں ، جزوی ، اظہارات تک بھی محدود  نہیں  بلکہ ظاہرو با طن کی یگا نگت  کے ساتھ  ایک  جمال  آ فرین رویہ کا نام ہے ۔اس رویہ کی  برکت  اعتقادات و نظریات ، خیالات  وا حسانات ، نیت وارا دہ  ، معاملات واشغال پر محیط ہے ۔ صدق و امانت  کا یہ  صنو فشاں  رویہ  صادق وامین اور صاحبِ خلق   ِعظیم کے دم قدم سے  استقامت پذیر ہے ، حکیم  الا  مۃ  نےتا ریخی اور اثری حقائق کی روشنی میں اس امر کی  نشان دہی    کی ہے کہ  کوئی بھی قوم  یا خطہ بے شک جتنا بھی تقدس  مآب پسِ  منظر  کیوں نہ رکھے ، خْلق ِمحمدی  سے بے نیاز ہونے کی صورت میں اپنی  اہمیت  وافادیت اور وقار  وتشخص کھو دیتا ہے ۔

نہیں وجود حدود  و ثغور سے اس کا

محمدِ عربی سے  ہے عالمِ عربی

نسبتِ  حبیبﷺ سے بندہ بھی اللہ تعالیٰ   کو محبوب  ہوگاا ور قوم  بھی  اللہ کے منظورِ نظرہوگی ۔ اس قرآنی حکمت کو  علامہ اقبال ؒنے اپنے فارسی و اردو کلام  میں   نہایت  شکوہ و سطوت  اور ولولہ و حرارتِ ایمان  کے ساتھ کھولا  ہے ۔

 کی محمد  سے وفا  تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیالوح و قلم تیرے ہیں

حضرت نے نسبت کی اس وقعت و وا قعیت کو انتہائی  جا معیت کے ساتھ ذہن نشین  کرایا ہے ، صدر اول کے  مسلمان ہوں ، تا بعین  و تبع تا بعین ہوں ، خیر  القرون ہوں ، ملوک و سلا طین  ہوں ، عرب  و عجم جو بھی ہوں ، اگر

خْلق ِمحمد  سے  منحرف اور نسبتِ محمدی سے محروم ہو گئے تو کچھ  بھی حا صل نہیں بجز حرماں نصیبی اور خسران کے ۔ حکیم الامۃ نے رسول اللہ  ﷺ کے سگے  چچا کی مثال دی ہے ۔

یہ نکتہ پہلے سِکھایا گیا کس اُمّت کو؟
وصال مُصطفوی، افتراق بُولہَبی!

جن قارئینِ محترم کا تناظر علمی ہے  وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ منہجِ تذکرہ کا متمکّن اسلوب اثبات ہے، اہلِ سیرت  اور فلاسفہ کا مؤقّف ہےکہ نفی و  تضاد اثبات کے تعیّن و تشخص و تتمیز کے لئے ہوتا ہے اس لئے سَلبی اظہار امکانی و اعتباری  علمی رویّہ نہیں ہے اس حوالے سے متکلّمین اور مشربیّین کے رشحاتِ جلیلہ اور افکارِ متبحِّرہ بطورِخاص قابِلِ لحاظ اور لائقِ تجلّب ہیں۔

کائنات میں خَلقی اور خْلقی سطح پر اعظم و ازکیٰ و اطہر و اطیب و اقدس اعتباری ہستی رسول اللہﷺ ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خِلافِ اولیٰ پر آنجناب رسالتِ مآبﷺ ازواجِ مطہّرات(امّہات المؤمنین)سے شکر رنج ہوکر مسجدِنبوی شریف میں معتکف و متراہب ہوگئے تھے تو کیا یہ عمل غیر مستحسن کے طور پر مذکور تصوّر بھی کیا جاسکتا ہے (العیاذباللہ والصّلٰوۃ علیٰ رسولہٖ والتّسلیم وعلیٰ امہاتنا الحلیم)۔

یہ عمل متوجہ و متراجع بصائر ہے، رسول اللہ ﷺ کا مقامِ رضا اس واقعہءِعبیرہ میں مستظہر ہے اور امّہات المؤمنین کا منصّہءِامتیاز اور مرتبہءِ اعزازمتجلّیٰ ہے۔ چنانچہ تبصیرِتنزیل ملاحظہ فرمائیے اور خطیرہءِاثبات کی جلوہ گری دیکھیئے:

يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء”(الاحزاب۔32) نبی کی بیویوں تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ "(الاحزاب۔6) نبی تو مؤمنوں کے لئے اْن کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہےاور نبی کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔

قرآنِ عظیم سے مستفاد و منصوص اس تلمیح و اشارت کے بعد جو منہجِ تذکرہ اور اسلوبِ جلب و اثبات پر محاکمہءِایجاب (Constructive doctrine) فراہم و ارزاں کرتی ہے۔ نفسِ مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف آتے ہیں:

ملّی اساطین اور قومی رجال کو مختلَّف و متنازعہ فیہ بنانے کا عمل بتحقیق و تدقیق بھی منشوء و مختار نہیں ۔آپ سب مشاجرات، مسلّمات، مصفیات، مؤتفِقات اور مختمات ایسی مصطلحات سے واقف ہوں گے اور اِن علمی مختارات کا دائرہ تکلّْف و نفوذ بھی جانتے ہوں گے۔

نقد و نظر

اَفَحُکۡمَ الۡجَاہِلِیَّۃِ یَبۡغُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکۡمًا لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ'' المائدہ 50)

 ترجمہ ۔ کیا یہ جاہلانہ دستور کے خوگر ہیں جبکہ اللہ کے دستور سے بڑھ کر احسن دستورِحیات  اہلِ یقین کے لئے اور کون سا ہوسکتا ہے۔

یہ اور اس کے علاوہ تین آیات میں اس طرح کی تراکیب کا احتمال و استحضار ہے:-

1۔ حکم الجاہلیۃ    2۔ ظن الجاہلیۃ     3۔ تبرج الجاہلیۃ   4۔ حمیّۃ الجاہلیّۃ

قرآنِ مجید اپنے اجزاء کے بارے میں خود بتاتا ہے، بس قرآنِ مجید کی اجمالی اور جمالی تفسیر یہی ہے۔ اس کے بعد تعینِ معانی کا حق صرف  مہبطِ وحیﷺکو ہے اور آپﷺ کے تعلیم و اذن سے آپﷺ کے اہلِ بیتؑ، اقاربؑ، ازواجِ مطہّراتؑ(امہات المؤمنین) اور صحابہءِاکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہے۔ تابعین ، تبع تابعین، سلفِ صالحین اور بعد کے اہل الرّائے کو تدبّر فی القرآن کی ترغیب دی گئی ہےجو آخر زمان (End of time) تک میسّر رہے گی لیکن اس کے لئے تمسّک بالسنّۃ والعترت شرطِ لازم ہے، مجرّد زبان دانی اور قابلیّت ثانوی استحقاق ہے۔

ہماری تفسیری تاریخ میں چند ایک تسامحات ایسے چلے آرہے ہیں جو مروّجہ اظہارات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلًا:

جہالت اور جاہلیّت کا فرق جاننا ضروری ہے۔ جہالت' نہ جاننے 'کو  کہتے ہیں، اس میں نہ جاننے والا کبھی معذور، کبھی مجبور اور کبھی قصور وار ہوتا ہے۔ جاہلیّت حق کے شایع ہونے کے بعد مصر بر ناحق رہنے کا نام ہے۔ جہالت کا متضاد عِلم اور جاہلیّت کا متضاد اسلام و تسلیم ہے۔ نفاق کا متضاد ایمان، رخصت کا متضاد عزیمت اور مداہنت کا متضاد استقامت ہے۔

ایچ آر کا قرآنی تصوّر

تحریر: زیدگل خٹک صاحب عفی عنہ                                                                 بتشکر: کرنل نویدظفرصاحب

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو مزاجِ اجتماعی سے نوازا ہے اور مدنی الطّبع بنایا ہے۔ وسائلِ ارض اس کے تصرف میں دئیے ہیں اور اختیارِ توفیقی سے متمتّع فرماکر عادلانہ روِش کا پابند بنایا ہے۔ اطاعت کی صورت میں ماجور اور بغاوت کی حالت میں معیوب قرار دیا ہے۔ اس کی سرِّیّت اور مظاہرِ فطرت میں ہدایت ودیعت کرنے کے علی الرّغم ترسیل و تنزیل کا اعلیٰ  و ازکیٰ انتظام  انسان پر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ شفقت کا آئینہ دار ہے۔

قرآنِ عظیم اللہ کا بے بدل کلام اور لاریب صحیفہ جو حضور ختم ا لمرسینﷺ کے قلبِ اطہر پر منزّل  (Revolted) ہے۔ ہدایت و حکمت کی تمام ضیاپاشیاں جلو میں رکھتا ہے اور کسی بھی گوشہءِحیات اور صیغہءِکار کو اپنے ابدی انوارات سے محروم نہیں رکھتا ۔ قرآن کا مخاطب (Being addressed) حضرتِ انسان ہے خواہ وہ منعم ہو یا مفلس، اٰجر ہو یا اجیر، مطاع ہو یا مطیع! دورِ جدید میں نسبتًانئےتقاضے نئے اسالیب کے متجسس ہیں۔

ہیومن ریسورسز کی انگریزی ترکیب ایک منصّہءِتعلیم و تربیت  بن چکی ہے۔ اردو میں اگر اس ترکیب کا نِکھرا ترجمہ کیا جائے تو انسانی وسائل و وسائط یا افرادی تقویم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارے لسانی جمالیات میں اس دامنِ فکر و عمل کے لئے  دیدہ زیب اور پرسطوت مصطلحات میسّر ہیں:- شؤْن العباد، حلّْ الافراد، مردانِ کار، عقودالبشر، واسلانِ کار، اہلْ العمل۔

قرآنِ مجید فرقانِ حمید اس خاص حوالے سے ہمیں نہایت اور غایت درجہ عمدہ اشارات و الطاف مرحمت فرماتا ہے: ''إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا ''( النّساء58)۔

ترجمہ و مفہوم: بے شک  اللہ تبارک و تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے دائرہءِ مؤدت میں امانت و منصب ان لوگوں کو تفویض کرو جو اْس کی اہلیّت رکھتے ہوں، اور یہ کہ وہ( تفویض کئے جانے والے  اور تم تفویض کرنے والے) جب لوگوں کے مابین کوئی فیصلہ  یا  معاملہ کریں تو وہ فیصلہ و معاملہ   عدل و فضل کے ساتھ کریں ۔ بے شک اللہ تمہیں بہترین موعظت دیتا ہے ان تمام حوالوں سے اور بلا شک اللہ جلّ شانہٗ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

یہ آیتِ مبارکہ اور دیگرآیاتِ موضوعِ متعلّقہ پر تدبر کی دعوت دیتی ہے۔سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے '' جس نے قرآن کے جزو کو سمجھ لیاگویا اْس نے قرآن کے کْل کو سمجھ لیا''

آئیے ایچ آر کے تناظر میں اس جزوِ مبارکہ سے راہنمائی لیتے ہیں:-

یَامرکم : از خود اس سے بحث کرتا ہے کہ معاملہ امر کا ہے، اللہ جلّ شانہ کے حکم کے تحت امارت، ماموریّت، متاھَیّل اور اہل کی بات روبہءِ ذکر ہے۔

تؤدّ : اہل کا انتخاب متعلّقہ لوگوں میں سے کرنا ہےجن کے کوائف معلوم اور مستند ہوں اور جن  سے آپ روشناس اور مانوس ہوں، جن کے طبائع میں سپاس گزاری اور فرمانبرداری کا جذبہ ہو، جن کے رویّوں میں تمہارے لئے عزّت اور محبّت ہو چونکہ آگے جاکر یہی لوگ تنظیمی سطح پر آپ کے لئے ممد و معاون اور تنظیم کے لئے مؤثر اور مفید ثابت ہوسکتےہیں۔

امانات : جو چیز یا وظیفہ( Obligation) تم کسی کو دے رہے ہو وہ تمہارے پاس بھی اختیاری درجہ میں امانت ہے، جہاں تک تم مکلف ہو اور تدبیر کے دائرہ میں کار گر ہو، اہلِ فرد تک اْس امانت کی ترسیل تمہاری ذمّہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ذمّہ داری تفویض کرنے سے پہلے  اور دورانِ ادائیگی فرض اہلیّت و افادیّت کا ماحول میسّر و مہیا رکھنا بھی تمہاری تعلیق ہے۔

حکمتم : یہ اہلیّت اختیار  نہیں بلکہ لازمی ہے اس لئے کہ ان مفوّضہ  لوگوں نے  آگے اہم فیصلوں اور معاملات کو سر انجام دینا ہے، ان کی کوتاہی کے مضر اثرات خود تمہاری طرف اور اجتماع کی طرف لوٹیں گے اس لئے ان کی تربیّت و تحکیم تمہاری توجّہ کی بطورِ خاص حامل ہے۔

عدل : عدل قرآن کا اصل الاصول ہے عدل کا متضاد ظلم ہے۔ سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کا قول ہے : ''تعرف الأشياء بأضدادها'' چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ توحید عدل ہے چونکہ شرک ظلم ہے، تصدیق عدل ہے چونکہ تکذیب ظلم ہے، کسبِ حلال عدل ہے چونکہ نفقہءِحرام ظلم ہے، اس طرح اہلِ فرد کا تقرّر عدل ہے چونکہ نا اہل فرد کا تقرّر ظلم ہے۔

یَعِظکم : اللہ کی شفقت ہے کہ اس کریم نے وعظ کا لفظ  نازل فرمایا ، یہاں وعظ کا مطلب یہ ہے کہ ایچ آر کی ایسی تفویض  و ترتیب  میں تمہارے لئے  فلاح ہے اور تمہارے اداروں کی رفاہ بھی متمکّن ہوگی۔

سمیعًا بصیرًا :  ان صفاتِ عالیہ میں در پردہ احتساب و مؤاخذہ ( Impeachment )کا اشارہ مضمر ہے کہ اپنا احتساب خود کرو، توازن و اعتدال رکھو، دیانت ملحوظِ خاطر  اور خیانت و بدعنوانی  بر طرف  رکھو وگرنہ  ''یومَ یقوم النّاس لرِبِّ العالَمینَ'' کےموقع پر خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب اْن صفاتِ محمودہ ، شمائلِ مسعودہ اور خصائصِ مطلوبہ کا ذکر کرتے ہیں  جو قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے از اوّل تا آخر بیان فرمائے ہیں بلکہ کمالِ ترغیب کے ساتھ نہایت دِل کش انداز سے ذکر فرمائے ہیں  جو بلا شبہ ایچ آر کا اعلیٰ و اولیٰ و افضل اسلوب  ہے  ہم ان محامد و محاسِن کی تعداد 92 رکھتے ہیں تاکہ مزکّیِ اعظم اور مربّیِ اکبرﷺ کے نام مبارک '' محمّد'' کے اعداد کے ساتھ نسبت قائم ہوجائے۔

  • متّقین : عقل و فہم و زہد والے۔
  • اٰمنین : امانت دار ، راز رکھنے والے۔
  • مصلحون : اصلاح کرنے والے، سلجھانے والے۔
  • صادقین : صدق شعار اور صدق بردار۔
  • راکعین : اللہ کے حضور جھکنے والے ظاہری اعتبار سے۔
  • خاشعین : اللہ کے حضور جھکنے والے قلبی اور باطنی اعتبار سے۔
  • شاکرین : شکر گزار، نعمتوں کے ضیاع سے بچنے والے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Page 4 of 11
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…