سورت الاخلاص
سورت الاخلاص
اِس سورۂ مبارکہ کو رسولﷺ نے ایک تہائی قرآن قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ قرآنِ مجید میں تین موضوعات بطورِ خاص بیان ہوئے یعنی توحید، رسالت اور معاد (آخرت)! اِن موضوعاتِ ثلاثہ میں سورۃُالاخلاص میں خالصتاً توحید کا ذکر مذکور ہے چنانچہ اِس سورۂ عالیہ کا ایک نام سورۃ التوحید بھی ہے۔
اہلِ علم نے لکھا ہے کہ اھلِ کتاب (یہود) یا اُن کے ایما پر حجازِ مقدس کے کچھ شعراء یا نابغانِ عصر مھبطِ وحی حبیبِ پاکﷺ کے پاس آئے اور اللہ کی توحید یعنی خصوصیاتِ الٰہیہ پر کچھ استفسار کئے۔ وحی ربّانی نے اِس کا جامع جواب مرحمت فرمایا ۔ اِ س جواب نے تمام باطل نظریات کا سدِّباب کیا اور توحید کی عظمت وسطوت کو پورے جلال و کمال کے ساتھ پیش کیا۔ گو تمام ابنیاؐءِ اکرام ورسل عظام علیھم السلام کے ابلاغ و ارشاد و استشہاد کا مرکز و محور توحید رہا لیکن بعد میں ان کی امتوں نے انحراف کا راستہ اپنایا۔
یہود ونصاریٰ و مجوس و ھنود کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اتحاد وحلول کا باطل راستہ اختیار کرکے خالص توحید سے اغماز کیا۔ اتحاد کا مطلب ہے مخلوق کو اللہ کی ذات و صفات میں شریک کرنا اور حلول سے مراد ہے اللہ کی صفات کو نزول دے کر مخلوق میں مدغم گرداننا!
وحدۃ خالص توحیدی نظریہ ہے یعنی کہ اللہ کی ذات و صفات میں قطعاً کوئی شریک نہیں۔ وہ خالق اور واجب الوجود ہے۔ باقی تمام مخلوقات ہیں جو اَمرِ کُن کا فیکون اور اللہ کے ارادے کا ظہور ہے اور مخلوقات کی حیثیت اعتباری اور امکانی ہے ۔
اللہ نے زبانِ اعتبارِ اعظمﷺ کے توسّط سے خلائق سے خطاب فرمایا: وہ صاحب ہویّت وہاہوت ولاہوت یکتا ہے۔ وہاں دوئی کی بُو بھی نہیں ،وہ رحمان و رحیم بہر حال ہے لیکن بے نیاز ہے سب اُس کے نیاز مند ومحتاج و مفتقر ہیں اور وہ خود بے نیاز وغنی ہے باپ بیٹا ہونا محتاجی ہے اور یہ مخلوق کی صفات ہیں وہ خالق و بدیع و فاطر ہے سو اِن صفاتِ خَلقی سے انتہائی بلند اور بےنیاز ہے۔ کوئی اُس کا کفو وہمسر ہرگز نہیں۔ بس وہ خالق و معبود ومسجود و اِلٰہ ہے۔
باقی سب مخلوق و عبد و ساجد و محتاج ہیں وہ سب مخلوق ہیں۔ مخلوق کسی بھی لحاظ اور حوالے سے خالق کی سہیم اور کفو ہرگز نہیں ھو سکتی۔ اس سورہ میں مرکزی نکتہ ھُوَ (ھویت) ہے باقی آیات ھُوَ کی تفسیرِ مزید ہیں۔
عاشق غرق ھووے وِچ وحدت بآھو
تے ویکھ تنہاں دے مجرے ھُو
علامہ زید گل خٹک صاحب