اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

Explore

ملتِ ابراہیمی کا جامع تصور

 ملتِ ابراہیمی کا جامع تصور

ربِ جلیل نے سیدنا ابراہیمؑ کو  امۃََ قانِتہ کے لقب سے نوازا ہے۔ اس لیے کہ آپ  شخصی طور پر اُن تمام اقدار سے مالا مال تھے جو ملتِ حنیف کا خاصا ہونے چاہییں۔اعلی خصائل و شمائیل اور ارفع نظریات و اعتقادات کو اگر ایک لفظ میں جمع کیا جائے تو وہ لفظ بلا تامُّل حنیف ہے۔اللہ ذوالمنن نے آپ کو حنیف کہا بلکہ حنفّیت کو ایک طریقہءِ مقبول اور ضابطہءِ محمود قرار دے کر اِس کو بصورت قانون رسول اللہ کو تفویض  فرما دیا

"قُل بَل ملَتہُ ابراہیم حنیفا"

ایک مقام پر فرمایا

"ملۃ ابیکم ابراہیم"

کتنے اعزاز اور شرف کی بات ہے کہ اللہ نے خُلقِ ابراہیمؑ اور قدرِ ابراہیمؑ کو منتخب کر دیا ۔آپؑ کے طریقہءِ حیات(Conduct in Life)  کو ملۃ قرار دیا اور اولادِ ابراہیمؑ قرار دیا۔حتی کہ باعثِ تخلیقِ کائنات  البنی الخاتم الرسول لآخر  کو بھی  طبعی عالم میں آپؑ کی ذریتہ میں مولود و مبعوث فرمایا حالانکہ وہ رازِ کن فکاں عالمِ حقیقی میں آپؑ اور سیدنا وجدّنا آدمؑ سے مقدم ہیں ۔بقول حکیم الامت ؒ

یعنی آں شمع ِ شبستانِ وجود

بود در دنیا و از  دنیا نبود

جلوہء او قدسیاں را سینہ سوز

بود اندر  آب و گِل آدمؑ ہنوز

یعنی عالمِ کون و مکاں و زماں کی وہ شمعِ فروزاں اور سراجِ منیر دنیا میں  ضرور رونق افزاء ہوئے  لیکن اِ س عالم ِدوں سے  اقدم ہیں۔آپ کا جلوہ عالمِ ملکوت و

سورت الاخلاص

سورت الاخلاص

اِس سورۂ مبارکہ کو رسولﷺ نے ایک تہائی قرآن قرار دیا ہے۔ اس لئے کہ قرآنِ مجید میں تین موضوعات بطورِ خاص بیان ہوئے یعنی توحید، رسالت اور معاد (آخرت)! اِن موضوعاتِ ثلاثہ میں سورۃُالاخلاص میں خالصتاً توحید کا ذکر مذکور ہے چنانچہ اِس سورۂ عالیہ کا ایک نام سورۃ التوحید بھی ہے۔
اہلِ علم نے لکھا ہے کہ اھلِ کتاب (یہود) یا اُن کے ایما پر حجازِ مقدس کے کچھ شعراء یا نابغانِ عصر مھبطِ وحی حبیبِ پاکﷺ کے پاس آئے اور اللہ کی توحید یعنی خصوصیاتِ الٰہیہ پر کچھ استفسار کئے۔ وحی ربّانی نے اِس کا جامع جواب مرحمت فرمایا ۔ اِ س جواب نے تمام باطل نظریات کا سدِّباب کیا اور توحید کی عظمت وسطوت کو پورے جلال و کمال کے ساتھ پیش کیا۔ گو تمام ابنیاؐءِ اکرام ورسل عظام علیھم السلام کے ابلاغ و ارشاد و استشہاد کا مرکز و محور توحید رہا لیکن بعد میں ان کی امتوں نے انحراف کا راستہ اپنایا۔
یہود ونصاریٰ و مجوس و ھنود کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اتحاد وحلول کا باطل راستہ اختیار کرکے خالص توحید سے اغماز کیا۔ اتحاد کا مطلب ہے مخلوق کو اللہ کی ذات و صفات میں شریک کرنا اور حلول سے مراد ہے اللہ کی صفات کو نزول دے کر مخلوق میں مدغم گرداننا!
وحدۃ خالص توحیدی نظریہ ہے یعنی کہ اللہ کی ذات و صفات میں قطعاً کوئی شریک نہیں۔ وہ خالق اور واجب الوجود ہے۔ باقی تمام مخلوقات ہیں جو اَمرِ کُن کا فیکون اور اللہ کے ارادے کا ظہور ہے اور مخلوقات کی حیثیت اعتباری اور امکانی ہے ۔
اللہ نے زبانِ اعتبارِ اعظمﷺ کے توسّط سے خلائق سے خطاب فرمایا: وہ صاحب ہویّت وہاہوت ولاہوت یکتا ہے۔ وہاں دوئی کی بُو بھی نہیں ،وہ رحمان و رحیم بہر حال ہے لیکن بے نیاز ہے سب اُس کے نیاز مند ومحتاج و مفتقر ہیں اور وہ خود بے نیاز وغنی ہے باپ بیٹا ہونا محتاجی ہے اور یہ مخلوق کی صفات ہیں وہ خالق و بدیع و فاطر ہے سو اِن صفاتِ خَلقی سے انتہائی بلند اور بےنیاز ہے۔ کوئی اُس کا کفو وہمسر ہرگز نہیں۔ بس وہ خالق و معبود ومسجود و اِلٰہ ہے۔
باقی سب مخلوق و عبد و ساجد و محتاج ہیں وہ سب مخلوق ہیں۔ مخلوق کسی بھی لحاظ اور حوالے سے خالق کی سہیم اور کفو ہرگز نہیں ھو سکتی۔ اس سورہ میں مرکزی نکتہ ھُوَ (ھویت) ہے باقی آیات ھُوَ کی تفسیرِ مزید ہیں۔
عاشق غرق ھووے وِچ وحدت بآھو
تے ویکھ تنہاں دے مجرے ھُو
علامہ زید گل خٹک صاحب

متاع ِ گُم گَشتہ

متاع ِ گُم گَشتہ

ذوقِ حق دِہ ایں خطا اندیش را

ایں کہ نشنا سد متاع ِ خویش را

ترجمہ:اے اللہ اپنے حبیب ﷺکے طفیل ا س خطا کار کو حقّ کا ذوق و شوق  عطا فرما ،  یہ جو اپنی اصل متاعِ حیات اور مقصد ِ حیات کو نہیں جانتا ۔

یہ زندگی  بامقصد ہے ۔قرآنِ مجید  میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(اٰلِ عمران)

ترجمہ:"اے اللہ آپ نے یہ نظام بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔" اُس کریم رَبّ نے ساری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیااور انسان کو بلند ترین مقاصد کےلئے تخلیق فرما کر اپنا خلیفہ  بنایا۔انسان کی فطرت میں حقّ کا ذوق پیدا کیا۔ کائنات میں نشانیاں رکھیں۔اپنے بندوں کو شوقِ  حقّ دِلانے کے لئےحضرت اٰدم علیہ السّلام سے

اسلامی تصورِ حیات اور موجودہ دور کے تقاضے

            اسلامی تصورِ حیات اور موجودہ دور کے تقاضے

انسان کی زندگی برائے زندگی نہیں بلکہ برائے مقصد ہے۔خالقِ کائنات نے انسان کو عظیم مقصد سے نوازا ہے۔کائنات کی یہ ساری بساط اور جملہ ذرائع اُس مدّبرِ حقیقی نے انسان کے لیے پیدا کیے اور انسان کو اعلیٰ ترین اقدار کی پاسداری کے لیے خَلق فرمایا۔

آخری اور حتمی وحی یعنی قرآن ِ مجید میں ربِ جلیل نے انسانی زندگی کے مقصد کو واضح فرمایا اور انسان کو اس مقصد کے حصول کے لیے سعی کرنے کی ترغیب دی ہے۔

قرآن ِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-کیف تکفرون با للہ وکنتم امواتاََ فاحیاکم(البقرہ-28)" تم کیونکر اللہ کا انکار کر سکتے ہو کہ تم ناپید تھے اور اُس نے تم کو زندگی دی"

کوئی بھی چیز اپنی اصل سے بے نیاز ہو کر اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتی ہے۔بدیع الحیات اللہ کی ذات ِ ستودہ صفات ہے۔اگر انسان اللہ کا انکار کرتا ہے تو وہ زندگی کا انکار کرتا ہے۔صرف اللہ کو ماننے کی صورت میں انسان کی زندگی با مقصد ہو سکتی ہے وگرنہ اس کی زندگی بے مقصد ٹھہرے گی۔

اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَـهٝ نُـوْرًا يَّمْشِىْ بِهٖ فِى النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُـهٝ فِى الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْـهَا ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِـرِيْنَ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ  (لانعام-122)

ترجمہ:-"اور وہ انسان جو ناپید تھا پھر ہم نے اُس کو زندگی کی نعمت سے نوازا ور نورِ ہدایت عطا فرمایا جس کے بل بوتے پر وہ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے کیا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اُن سے نکل نہیں پاتا"

یہ آیت ِ مبارکہ مقصدِ حیات کو بھر پور طریقے سے بیان کر رہی ہے۔وہ لوگ جو نورِ ہدایت سے بہرہ ور ہو کر زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے میں نورِ ہدایت پھیلا رہے ہیں، انہوں نے زیست کا مقصد پا لیا اور جو اِس نورِ اصلاح و فلاح سے بیگانہ ہیں وہ اندھیروں میں ہیں اور زندگی کے حقائق و اقدار سے ناآشنا ہیں۔

 مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل-97)

ترجمہ:-"جو کوئی حالتِ ایمان میں صالح عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا خاتون پس ہم لازماََ اس کو پاک اور عزت مندانہ زندگی عطا فرمائیں گے"

اس آیت میں ربِ کائنات نے زندگی کی فلاح اور کامیابی کو اچھے اعمال سے مشروط کیا ہے۔صالح اعمال ایمان کا حاصل ہیں اور اعتقاد کی زینت ہیں۔تمام مرد و خواتین سے اللہ  نے مکرر اور مصمم وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اصلاح یافتہ رویہ اپنائیں گے اور فلاحی کردار کا مظاہرہ کریں گے تو اللہ ان کو بابرکت اور بالیدہ مقصدِ حیات سے ہمکنار کردے گا۔

واللہ یحی و یمیت اللہ بما تعلمون بصیر(آلِ عمران-156)

"اور اللہ زندگی دیتا ہے اور زندگی کے انجام سے ہمکنار کرتا ہے اور وہ کریم ذات ان اعمال کو دیکھ رہا ہے جوتم کرتے ہو"

یہ آیتِ مبارکہ اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ اس ربِ جلیل نے زندگی بے مقصد پیدا  نہیں کی۔اس زندگی سے وابستہ مقاصد متعین اور معروف ہیں اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم زندگی کے ان اعلیٰ مقاصد سے انصاف کرتے ہو کہ نہیں

لا الہ الا ھو یحی ویمیت فآمنو ا باللہ ِ و رسولہ(الاعراف-158)

"نہیں ہے کوئی الہ، مگر اللہ  اِس ہی نے زندگی دی ہے اور وہ ہی موت دے گا پس تم اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ جب زندگی ابتدا اور انتہا کلیتاََ اللہ کے اختیار میں ہے تو اس کے مقاصد کا تعین بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے یقیناََ کر دیا ہے اور  وہ مقاصد اسوہءِ حسنہ میں جلوہ گر ہیں ۔اس لیے مقاصدِ زیست کی بجا آوری کو پیرویءِ رسول ؐ کے ساتھ مربوط کر دیا  تا کہ وہ منشاءِ ایزدی کے مطابق    پورے ہوتے رہیں۔

ھو یحی و یمیت و الیہ ترجعون(یونس-56)

"وہ زندگی دیتا  ہے اور موت دے گا اور اس ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"

اس آیت میں مقاصد کی تکمیل کو ضروری کر دیا ہے اور غفلت کی گنجائش کی بیخ کنی کر دی گئی ہے اور زور دے کر واضح کردیا گیا ہے کہ زیست کے مقاصد کو تم نے بہر صورت ایفا کرنا ہے وگرنہ کل پلٹ کر اللہ کے دربار میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور سزا کے مستوجب ہو گے

 قرآن زندگی کو اعلیٰ اقدار اور انجب مقاصد سے سرشار بتاتا ہے۔ایمان، عملِ صالح، حق بات کی تلقین، صبر کی تاکید زندگی کے خواص ہیں۔زندگی  کھانا  پینا اور سونے کا نام نہیں بلکہ  یہ تو زندگی کے مقاصد بجا لانے کے لیے ذرائع ہیں۔

لھم البشریٰ فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ(یونس-64)

"ان (با مقصد) لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہےاور آخرت کے دن بھی خوشخبری ہے"

قرآن اپنے ماننے والوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اگر انہوں نے بامقصد زندگی گزاری تو زندگی کی برکات سے ضرور استفادہ کریں گے اور دنیا و آخرت کی بشارت سے شاد کام ہوں گے۔

یثبت اللہ ُ الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیاۃِ الدنیا و فی الآخرہ(ابراہیم-27)

"اللہ اہلِ ایمان کو اچھی بات اور اچھے عمل کے ذریعے دنیا کی زندگی میں بھی ثبات عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی"۔بامقصد زندگی گزارنے والوں کو قرآن  خوشخبری سناتا ہے کہ دونوں جہانوں میں کامیابی ان کا مقدر ہے۔

انا  لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیاۃ الدنیا(الفاطر-5)بے شک ہم ضرور مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اورا ن لوگوں کی جو ہمارے رسولوں پر ایمان لائے ۔دنیا کی اس زندگی میں  جب انسان دنیا میں سرمدی مقاصد کے تحت زندگی گزارنے کا ارادہ کرتا ہے اور انبیاء و رسلؑ کا اسوہءِ کاملہ بروئے عمل لاتا ہے تو اللہ کی مدد اس کی شاملِ حال ہوتی ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں فائز المرام ٹھہرتا ہے۔

نمونہ کے طور پر اُمّ الکِتٰب سے دس آیات کا حوالہ لے کر مقصدِ زیست کو واضح کرنے کی سعی کی گئی۔ ان آیاتِ مبارکہ میں اس امر کا بھر پور عندیہ دیا گیا ہے کہ زندگی قیمتی ہے۔اس کو فضول مشاغل میں ضائع کرنا بہت بڑی نا سمجھی ہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے

"الحیاۃ کلہٗ متاع"(زندگی کا ہر لمحہ بامقصد ہے)

عشق ِ مصطفیٰﷺ سے اپنے کلام کو مزین کرنے والے حضرتِ اقبالؒ نے سرِّ آدمؑ ہے ضمیر ِ کن فکاں ہے زندگی میں زندگی کی مقصدیت اور افادیت کی طرف بھرپور اشارہ کیا ہے۔جب ہم اس جہانِ فانی میں آنکھ کھولتے ہیں تو اذان کے کلمات ہماری زندگی کا نصب العین متعین کر دیتے ہیں وہ یہ کہ ہم نے ساری زندگی اللہ کی بڑائی کے آگے سر جھکانا ہے۔فساد اور سرکشی نہیں کرنی۔امن و آشتی سے رہنا ہے۔اللہ کی الوھیت کا دَم بھرنا ہے۔اس کی عبادت کو زینت ِ حیات بنانا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو حرزِ جاں بنانا ہے۔اسوہءِ حسنہ کی پیروی کو اپنا وطیرہءِ حیات ٹھہرانا ہے۔نظامِ صلوۃ کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔نظامِ صلوۃ کے تقاضوں کا مطلب معروف کا ابلاغ اور منکرات کا انہدام ہے۔

فلاح  عام کرنی ہے۔فلاح کی طرف لوگوں کو بلانا ہے ۔فلاح یافتہ ہونا اور کرنا زندگی کا بار آور مقصد ہے۔بقول حکیم الامت  علامہ اقبالؒ:

دور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے

ہرجگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

اللہ تعالی ٰ نے نہ صرف ہماری  ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہتمام فرمایا ہے بلکہ ہمارے لیے پاک، مکمل، قابلِ عمل اور نتیجہ خیز نظام ِ حیات بھی وضع فرمایا ہے جو احکامِ قرآن اور تعلیمات ِ صاحبِ قرآن پر مشتمل ہے۔اگر قرآن مجید کی تعلیمات کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو پانچ مضامین زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔اعتقادات، عبادات، اخلاقیات، معاملات، بصائر و عبائر۔اعتقادات سے مراد توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد ہیں۔عبادات کا مطلب نماز روزہ زکوۃ  ، حج ہیں۔اخلاقیات کی تفصیل میں حقو ق العباد ، صدق، اخلاص، ایفائے عہد، تعاون ِ باہم، انسانوں کی خبر گیری، حسنِ سیرت ، سلیقہ مندانہ رویے، سماجی فلاحت وغیرہ شامل ہیں۔

معاملات کا دائرہ میں تجارت، اٰجر اور اجیر کا تعلق، زمیندار اور کاشتکار کا تعلق ، لین دین اور دیگر سب اقتصادی و معاشی و مالی سرگرمیاں داخل ہیں۔

عبائر و بصائر گزشتہ اقوام و ملل کے واقعات و حوادث ہیں جو ہمارے لیے باعثِ عبرت ہیں مثلا سیدنا شیعبؑ کی قوم کا قصہ جو کاروبار  میں بددیانتی کرتے تھے، لین دین میں بدمعاملہ تھے، ناپ تول میں کمی کرتے تھے، راہ چلتے لوگوں کو ستاتے تھے۔جب سیدنا شعیب ؑ کی انتہائی کوشش کے باوجود انہوں نے اپنے رویوں کی اصلاح نہیں کی تو اللہ تعالیٰ  نے ان کو نمونہ ء عبرت بنا دیا۔یہ دراصل مخلوقات کے اندر اللہ مدبرِ حقیقی کی کارفرما حکمت ہے۔

تمام عقلاء نے تسلیم کیا ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک وجودِ واحد ہے۔وہ صاحبِ ارادہ اور صاحبِ تدبیر ہے، عظیم قدرت اور شان کا مالک ہے۔کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اُس کا یکتا اور واحد ہونا قطعی الثبوت ہے۔اس کریم ذات نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو سب سے ذیادہ اہمیت، شرف اور اکرام دیا ہے۔اس کو اختیار دیا ہے اور خلافتِ ارضی کے منصب پر فائز کیا ہے۔اللہ نے اس کے وجدان میں ہدایت و ودیعت کی ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے

ولقد کرمنا بنی اٰدم وحملنھم فی البرِّ  والبحر "اور ہم نے اولادِ آدمؑ کو تکریم بخشی اور ان کو خشکی و تری میں اختیار سے نوازا

فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا" اسلام وہ فطرت ہے جس پر ہم نے لوگوں کو تخلیق کیا)

بس اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی چشم ِ بصیرت وا ہو۔اس کی آنکھ حقیقت کا نظارا کر سکتی ہو۔اس کا دل مناظرِ فطرت سے ہدایت کے موتی چن سکتا ہو۔بقول علامہ اقبالؒ:

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو

سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر

ہدایت کا وجدانی سفر خود(جان) سے شروع ہوتا ہے۔انسان جب اپنے وجود  میں غور کرتا ہے تو اسے اجزاء کی ترکیب ، ان کے درمیان اعتدال و توازن بدرجہءِ کمال نظر آتا ہے۔پھر اس وجودِ مرکب میں بصورت ِ روح قوتِ حرکیہ(Force of Acceleration)  جس کے تحت جسم اپنے تمام افعال نہایت خوبی سے ادا کرتا ہے۔پھر تمیز اور پہچان کا احساس جسے  اصطلاح میں نَفسُٗ کہتے ہیں۔اس طرح کے تمام انسانی خواص اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انسانی زندگی نہایت با مقصد ہے اور خلاّق ِ ازل نے انسان کو اپنی خلافت کا تاج پہنانے کے لیے کلی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے

یریکم اللہ اٰیاٰتہٖ  فی الآفاق وفی انفسکم حتیٰ یتبیّن انہ الحق

(اللہ کائنات اور تمہارے وجود میں تم کو نشانیاں دکھائے گا حتی کہ تم پر واضح ہو جائے گا کہ وہ حق ہے)

انسان کا وجود بنیادی طور پر دو بڑی چیزوں کا امتزاج ہے جسم اور روح۔جسم میں عالمِ شہادت(Material World)  کی تمام چیزوں(Elements)  کا جوھر (Essence)  شامل ہے۔اس طرح روح میں عالمِ معنوی (Metaphysical World) کے تمام عناصر کا جوھر شامل ہے۔یوں انسان کا وجود خلاصہءِ موجودات ہے۔تب ہی تو اللہ نے اسے اپنی خلافت کے لیے منتخب کیا ہے

"وجعلنا کم خلفاُٗ فی الارض"اور ہم نے زمین میں آپ لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا)

الغرض ہدایت اصولی طور پر تو انسان کی رگ و پے میں سرایت ہے۔اللہ نے ارواح کو ا پنی پہچان اور اپنا دیدار کرایا۔ان سے عہد لیا۔عام انسانوں کو انبیاء و رُسُل ؑ کی پہچان کرائی اور ان سے میثاق لیا۔رسول اللہ ؐ کی پہچان تمام انبیاء اور ان کی امتوں کو کرائی گئی۔اس طرح عالمِ بالا (Spiritual World)  میں معرفت کا سارا نصاب مرتب کر کے انسان کی روح میں ڈال دیا گیا۔

سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کو اسماء(Codes)  کا علم دیا اور نہایت تکریم کے ساتھ رکھا۔Perfection  کے حصول کے لیے اس دنیا میں بھیجا۔یہاں انکی اولاد کا سلسلہ چلا جو اس دنیا کےاختتام(End of Time)  تک رہے گا۔

اب جبکہ انسان کے اندر جبلّی طور پر (Naturally) ہدایت موجود ہے تب بھی اللہ نے شرائع کا سلسلہ چلایا۔تمام اقوام اورزمانوں میں انبیاء ؑاور رُسُلؑ  تشریف لائے۔سب سے آخر میں حضورﷺ تشریف لائے سب پر اللہ نے اتم شریعت بصورت قرآن و حکمت نازل فرمائی۔سو اللہ نےتمام انسانوں کئے لیے اعلان کیا کہ :الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا

(آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت ِ ہدایت تم پر انتہا تک پہنچا دی اور اسلام کو بطور ضابطۂ حیات  تمہارے لیے پسند کیا۔بقول حکیم الامت ؒ

خدا باما شریعت ختم کرد

بر رسولِؐ من رسالت ختم  کرد

جب ہم اسلام کو ضابطہءِ حیات کے طور پر قبول کر چکے ہیں تو اس کے کچھ لازمی تقاضے ہیں۔ان میں اہم ترین تقاضہ قرآن و سنۃ سے وابستگی ہے۔صرف اعتقادی نہیں بلکہ عملی وابستگی۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:-میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں یعنی کتاب اللہ اور اللہ کے نبیؐ کی سنت چھوڑے جا رہا ہوں۔جب تک تم ان دو چیزوں سے جڑے رہو گے کوئی بھی تم کو حق سے بھٹکا نہیں سکے گا"

قرآن و سنۃ پر الحمد اللہ ہمارا اعتقادی ایمان تو شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن عملی حوالے سے ہمیں ابھی انتہائی جد و جہد کی ضرورت ہے۔

عقائد کے بعد اگر ہم نظامِ عبادات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنۃ نماز کی صرف  عبادات برائے عبادت قرار نہیں دیتے بلکہ دور رس نتائج کا حامل گردانتے ہیں۔

بے شک نماز تمام ناشائستہ باتوں  اور منکرات سے روکتی ہے(القرآن)

روزہ اللہ کے نزدیک صرف کھانے  پینے سے احتراز کرنے کا نام نہیں بلکہ تقویٰ کے حصول کا سبب ہے اور تقویٰ وہ صفتِ ایمان ہے جو پوری شخصیت کا احاطہ کرتا ہے اور سیرت افروزی کا ضامن ہے۔مثلاََ ایک آفیسر اگر متقی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ  نماز  روزے کا پابند ہے بلکہ اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ ہے۔دیانت دار ہے۔ترقی پسند ہے۔Merit  کو یقینی بنانے والا ہے، وغیرہ وغیرہ

نظامِ عبادات کے بعد معاملات میں کھرا ہونا شریعت کا ترجیحی حکم ہے۔قرآن و سنۃ میں اعتقادات و عبادات  کو اجمالاََ  بیان کیا گیا ہے جبکہ  معاملات کو تفصیلاََ بیان کیا گیا ہے۔

معاملہ میں صادق ہونا ، معاملہ کو قابلیت سے ڈیل کرنا اور پختہ کار اور صاحبِ تدبیر ہونا ایک قائدانہ صلاحیتوں کے مالک شخصیت کا جزوِ لا ینفک ہے۔معاملات کے بعد اخلاقیات کا پہلو سب سے زیادہ اہم ہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا:-

انما انی بعثت لِاُتِمَّ مکارم الاخلاق(الحدیث)"مجھے اخلاق سنوارنے کے لیے مبعوث فرمایا گیا"

الا سلام فھو حُسنُ الخُلق(الحدیث)۔حسنُ الخُلق  کا نام ہی تو اسلام ہے۔

از روئے نظریہءِ اسلام دوسرے اقوام کے ساتھ ہمارے تعلقات خیر خواہی پر مبنی ہونے چاہیے۔اس لیے  کہ وہ رسول اللہ ؐ کی امتِ دعوت ہیں۔تمام انسانوں کے درمیان قدرِ مشترک یہ ہےکہ وہ  آدم ؑ کی اولاد ہیں۔اس نسبت سے تمام انسان بلا لحاظ مذہب، رنگ، نسل ، آپس میں بہن بھائی ہیں۔

حضورﷺ محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین ہیں۔اسلام امن اخوت اور خیر خواہی کا دین ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے۔

"الدین النصیحۃ"دین خیر خواہی کا نام ہے

محترم قارئین!

آپ صرف ایک مؤقر ادارے کے ارکان نہیں بلکہ اس امت کے بھی ذمہ دار ہیں۔آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارے  اجداد نے یہ ملک بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔اس ملک کے پسِ منظر  میں ایک لمبی تاریخ ہے جو جدوجہد اور ایثار سے عبارت ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے سچ فرمایا تھا:-

"پاکستان اُس دن بن گیا تھا  جس دن برِ صغیر کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا"

حضرت علامہ اقبالؒ نے جب 1930 میں الہ آباد میں اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کے خط وخال پیش کیے تو پورے یقین کےساتھ فرمایا:-

"برِ صغیر میں ایک اسلامی ریاست کا قیام اب مقدر ہو چکا ہے"

شروع شروع میں یعنی قیام ِ پاکستان کے بعد عزم جواں تھے۔جذبے مہمیز تھے اور نظم و ضبط کا سماں تھا۔ایمان، اتحاد اور تنظیم کی فضا برقرار تھی۔دیانت کا غلغلہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالت یہ ہوئی

کوئی کارواں سے ٹُوٹا، کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دل نوازی

(علامہ اقبالؒ)

لیکن اب نظریہء پاکستان کو عملی سطح پر اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔یاد رکھیے! اسلام ہی اس  ملک کی بنیاد ہےاور اسلام ہی اس کی بقا کا ضامن ہے۔

جب جب اس ملک میں اسلامی اقدار مضبوط ہو ں گے پاکستان از خود  مضبوط ہوتا چلا جائےگا۔توحید ہمیں اتحاد کا درست دیتا ہے۔آج ہمارامعاشرہ خلفشار کا شکارہے۔عقیدہءِ توحید کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم اپنےمعاشرہ کو اتحاد سے ہمکنار  کریں۔اس وقت قومی اتحاد و اتفاق اور باہمی جڑت ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔بقول اقبالؒ

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی

آج کیا ہے، فقط اک مسئلہءِ علمِ کلام

روشن اس ضو سے اگر ظلمتِ کردار  نہ ہو

خود  مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام

رسالت کا عقیدہ جہاں ہمیں محبت و شفاعت کایقین دلاتا ہے وہاں دیانت، صداقت، اہلیت، تدبیر اور حسنِ عمل کا بھی   آئنہ دار  ہے۔آج ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں صداقت ، دیانت اور حسنِ عمل کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو جائے اور ہمارے ادارے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائیں۔

تجارت اور کاروبار معاشی میدان کے اہم تگ و تاز ہیں۔جدید تقاضوں نے جہاں ان کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے وہاں گوناگوں سہولیات سے بھی نوازا ہے۔آپ ذرائعِ ترسیل(Transportation) ہی دیکھ لیں۔سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ کتنی آسانی اور تیزی کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔قرآن ِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-

"اُس کریم ذات نے تمہارے لیے حمیر و بغال پیدا کیے جن پر تم سواری کرتے  ہو اور سامانِ رسد ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھائے پھرتے ہو"

اگر یہ سہولتیں میسر نہ ہوتیں تو تمہارے نفوس سخت مشقت میں پڑتے اور خدائے کریم آنے والے وقتوں میں وہ کچھ رونما کر دے گا جس کا آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔

آج ہمارے ماحول میں پہیہ، سفینہ ، طیارہ سب کچھ موجود ہے۔ذرائع پیداوار موجود ہیں۔سامانِ تجارت کی ریل پیل ہے۔دولت کے انبار ہیں لیکن قابلِ غور نکتہءِ فکر ہے ہم کیوں آسودگی ء قلب اور طمانیتِ روح سے محروم ہیں۔خدشات ہروقت ہمارے ذہنوں میں منڈلا رہے ہوتے ہیں۔اعتبار ِ باہم ناپید ہوتا جا رہا ہے۔کیا ہم نے کچھ کھو تو نہیں دیا ہے۔جی ہاں ہم نے وفا ، صدق، امانت ، ایفائے عہد، ایثار، قناعت، شکر، صبر کی معنوی دولت کھو دی ہے جو ہماری  متاعِ گم گشتہ ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر غیر متحرک ہے  بعینہٖ  ان اوصاف و جواہر کے بغیر کاروبارِ معاش و حیات بھی ادھورا ہے۔بقول حکیم الامتؒ

جد ا ہو دیں سیاست تو، تو رہ جاتی ہے چنگیزی

یہ ہیں وہ صفات ِ عالیہ جو معاش و اقتصاد میں روا رکھنے بہت ضروری ہیں وگرنہ آدمی دیداست باقی پوست است والا معاملہ وہ گا۔حرفِ اعتبار کاروبار کی جان ہے۔سیدنا شعیبؑ نے جب سیدنا موسیٰؑ سے معاہدہ کیا ہے تو ضوابط طے کرنے کے بعد فرمایا:-

"آپ مجھے ہمیشہ خیر خواہ پائیں گے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر اللہ نگہبان ہے"

یہ ہے معاملاتی روح، جب ہم دوسروں کی خیر خواہی مطلوب جانیں گے اپنے معاملات کے سلسلہ میں اللہ سریع العقاب کے سامنے جوابدہی کا غالب احساس و استحضار پیدا کر لیں گے تو دولت شفاءِ قلب کا باعث ہو گی۔حکیم الامت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں مُنعِم کو بناتا ہے دولت کا امیں۔یعنی صاحبِ مال، مال کا امین ہے لیکن اگر یہ جذبہ موجزن نہیں ہو تو دولت"نازمی آرد، نیاز از دلِ برد"والی صورتِ حال پیدا کرے گی جو اٰجرو اجیر اور پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو گی۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مُنعِم کی آنکھ جب تک خوفِ خدا سے اشکبار نہیں ہو گی وہ دولت کا اور نعمت کا پھل خود پا سکے گا نہ سماج کے کسی کام آ سکے گا۔ہاں اقبالؒ شکایت کرتے ہیں

مد ّتہا اندر جہاں گردیدہ ام

نم در چشمِ منعماں کم دیدہ ام

 زید گل خٹک،

Positions

This Joomla! template supports a wide variety of module positions which can be archived automatically by the system.The module positions are fully collapsible mean that if there are no modules published in particular position, this module position will disappear and the other modules with take this place. Also you can have 2-Columns layout (content, left or right)

 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

Recent News

cache/resized/b15a70d8f5547f99286ef34082cb3ae3.jpg 11
January 2022

عِلم

عِلم علم اصولی طور پر صفاتِ اِلٰہیہ  میں سے ہے وہ خالقِ کائنات علیم و علّام ہے۔ مطلق، ذاتی اور کلّی علم اْس کے پاس ہےاْس پاک والاصفات نے جدّْنا ...

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…