اسلامی تصورِ حیات اور موجودہ دور کے تقاضے
انسان کی زندگی برائے زندگی نہیں بلکہ برائے مقصد ہے۔خالقِ کائنات نے انسان کو عظیم مقصد سے نوازا ہے۔کائنات کی یہ ساری بساط اور جملہ ذرائع اُس مدّبرِ حقیقی نے انسان کے لیے پیدا کیے اور انسان کو اعلیٰ ترین اقدار کی پاسداری کے لیے خَلق فرمایا۔
آخری اور حتمی وحی یعنی قرآن ِ مجید میں ربِ جلیل نے انسانی زندگی کے مقصد کو واضح فرمایا اور انسان کو اس مقصد کے حصول کے لیے سعی کرنے کی ترغیب دی ہے۔
قرآن ِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-کیف تکفرون با للہ وکنتم امواتاََ فاحیاکم(البقرہ-28)" تم کیونکر اللہ کا انکار کر سکتے ہو کہ تم ناپید تھے اور اُس نے تم کو زندگی دی"
کوئی بھی چیز اپنی اصل سے بے نیاز ہو کر اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتی ہے۔بدیع الحیات اللہ کی ذات ِ ستودہ صفات ہے۔اگر انسان اللہ کا انکار کرتا ہے تو وہ زندگی کا انکار کرتا ہے۔صرف اللہ کو ماننے کی صورت میں انسان کی زندگی با مقصد ہو سکتی ہے وگرنہ اس کی زندگی بے مقصد ٹھہرے گی۔
اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَـهٝ نُـوْرًا يَّمْشِىْ بِهٖ فِى النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُـهٝ فِى الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْـهَا ۚ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِـرِيْنَ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (لانعام-122)
ترجمہ:-"اور وہ انسان جو ناپید تھا پھر ہم نے اُس کو زندگی کی نعمت سے نوازا ور نورِ ہدایت عطا فرمایا جس کے بل بوتے پر وہ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے کیا اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اُن سے نکل نہیں پاتا"
یہ آیت ِ مبارکہ مقصدِ حیات کو بھر پور طریقے سے بیان کر رہی ہے۔وہ لوگ جو نورِ ہدایت سے بہرہ ور ہو کر زندگی گزار رہے ہیں اور معاشرے میں نورِ ہدایت پھیلا رہے ہیں، انہوں نے زیست کا مقصد پا لیا اور جو اِس نورِ اصلاح و فلاح سے بیگانہ ہیں وہ اندھیروں میں ہیں اور زندگی کے حقائق و اقدار سے ناآشنا ہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل-97)
ترجمہ:-"جو کوئی حالتِ ایمان میں صالح عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا خاتون پس ہم لازماََ اس کو پاک اور عزت مندانہ زندگی عطا فرمائیں گے"
اس آیت میں ربِ کائنات نے زندگی کی فلاح اور کامیابی کو اچھے اعمال سے مشروط کیا ہے۔صالح اعمال ایمان کا حاصل ہیں اور اعتقاد کی زینت ہیں۔تمام مرد و خواتین سے اللہ نے مکرر اور مصمم وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اصلاح یافتہ رویہ اپنائیں گے اور فلاحی کردار کا مظاہرہ کریں گے تو اللہ ان کو بابرکت اور بالیدہ مقصدِ حیات سے ہمکنار کردے گا۔
واللہ یحی و یمیت اللہ بما تعلمون بصیر(آلِ عمران-156)
"اور اللہ زندگی دیتا ہے اور زندگی کے انجام سے ہمکنار کرتا ہے اور وہ کریم ذات ان اعمال کو دیکھ رہا ہے جوتم کرتے ہو"
یہ آیتِ مبارکہ اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ اس ربِ جلیل نے زندگی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس زندگی سے وابستہ مقاصد متعین اور معروف ہیں اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم زندگی کے ان اعلیٰ مقاصد سے انصاف کرتے ہو کہ نہیں
لا الہ الا ھو یحی ویمیت فآمنو ا باللہ ِ و رسولہ(الاعراف-158)
"نہیں ہے کوئی الہ، مگر اللہ اِس ہی نے زندگی دی ہے اور وہ ہی موت دے گا پس تم اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ جب زندگی ابتدا اور انتہا کلیتاََ اللہ کے اختیار میں ہے تو اس کے مقاصد کا تعین بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے یقیناََ کر دیا ہے اور وہ مقاصد اسوہءِ حسنہ میں جلوہ گر ہیں ۔اس لیے مقاصدِ زیست کی بجا آوری کو پیرویءِ رسول ؐ کے ساتھ مربوط کر دیا تا کہ وہ منشاءِ ایزدی کے مطابق پورے ہوتے رہیں۔
ھو یحی و یمیت و الیہ ترجعون(یونس-56)
"وہ زندگی دیتا ہے اور موت دے گا اور اس ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے"
اس آیت میں مقاصد کی تکمیل کو ضروری کر دیا ہے اور غفلت کی گنجائش کی بیخ کنی کر دی گئی ہے اور زور دے کر واضح کردیا گیا ہے کہ زیست کے مقاصد کو تم نے بہر صورت ایفا کرنا ہے وگرنہ کل پلٹ کر اللہ کے دربار میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور سزا کے مستوجب ہو گے
قرآن زندگی کو اعلیٰ اقدار اور انجب مقاصد سے سرشار بتاتا ہے۔ایمان، عملِ صالح، حق بات کی تلقین، صبر کی تاکید زندگی کے خواص ہیں۔زندگی کھانا پینا اور سونے کا نام نہیں بلکہ یہ تو زندگی کے مقاصد بجا لانے کے لیے ذرائع ہیں۔
لھم البشریٰ فی الحیاۃ الدنیا وفی الآخرۃ(یونس-64)
"ان (با مقصد) لوگوں کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہےاور آخرت کے دن بھی خوشخبری ہے"
قرآن اپنے ماننے والوں کو ڈھارس دیتا ہے کہ اگر انہوں نے بامقصد زندگی گزاری تو زندگی کی برکات سے ضرور استفادہ کریں گے اور دنیا و آخرت کی بشارت سے شاد کام ہوں گے۔
یثبت اللہ ُ الذین اٰمنوا بالقول الثابت فی الحیاۃِ الدنیا و فی الآخرہ(ابراہیم-27)
"اللہ اہلِ ایمان کو اچھی بات اور اچھے عمل کے ذریعے دنیا کی زندگی میں بھی ثبات عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی"۔بامقصد زندگی گزارنے والوں کو قرآن خوشخبری سناتا ہے کہ دونوں جہانوں میں کامیابی ان کا مقدر ہے۔
انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیاۃ الدنیا(الفاطر-5)بے شک ہم ضرور مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اورا ن لوگوں کی جو ہمارے رسولوں پر ایمان لائے ۔دنیا کی اس زندگی میں جب انسان دنیا میں سرمدی مقاصد کے تحت زندگی گزارنے کا ارادہ کرتا ہے اور انبیاء و رسلؑ کا اسوہءِ کاملہ بروئے عمل لاتا ہے تو اللہ کی مدد اس کی شاملِ حال ہوتی ہے اور وہ اپنے مقاصد کے حصول میں فائز المرام ٹھہرتا ہے۔
نمونہ کے طور پر اُمّ الکِتٰب سے دس آیات کا حوالہ لے کر مقصدِ زیست کو واضح کرنے کی سعی کی گئی۔ ان آیاتِ مبارکہ میں اس امر کا بھر پور عندیہ دیا گیا ہے کہ زندگی قیمتی ہے۔اس کو فضول مشاغل میں ضائع کرنا بہت بڑی نا سمجھی ہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے
"الحیاۃ کلہٗ متاع"(زندگی کا ہر لمحہ بامقصد ہے)
عشق ِ مصطفیٰﷺ سے اپنے کلام کو مزین کرنے والے حضرتِ اقبالؒ نے سرِّ آدمؑ ہے ضمیر ِ کن فکاں ہے زندگی میں زندگی کی مقصدیت اور افادیت کی طرف بھرپور اشارہ کیا ہے۔جب ہم اس جہانِ فانی میں آنکھ کھولتے ہیں تو اذان کے کلمات ہماری زندگی کا نصب العین متعین کر دیتے ہیں وہ یہ کہ ہم نے ساری زندگی اللہ کی بڑائی کے آگے سر جھکانا ہے۔فساد اور سرکشی نہیں کرنی۔امن و آشتی سے رہنا ہے۔اللہ کی الوھیت کا دَم بھرنا ہے۔اس کی عبادت کو زینت ِ حیات بنانا ہے۔رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو حرزِ جاں بنانا ہے۔اسوہءِ حسنہ کی پیروی کو اپنا وطیرہءِ حیات ٹھہرانا ہے۔نظامِ صلوۃ کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔نظامِ صلوۃ کے تقاضوں کا مطلب معروف کا ابلاغ اور منکرات کا انہدام ہے۔
فلاح عام کرنی ہے۔فلاح کی طرف لوگوں کو بلانا ہے ۔فلاح یافتہ ہونا اور کرنا زندگی کا بار آور مقصد ہے۔بقول حکیم الامت علامہ اقبالؒ:
دور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے
ہرجگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
اللہ تعالی ٰ نے نہ صرف ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہتمام فرمایا ہے بلکہ ہمارے لیے پاک، مکمل، قابلِ عمل اور نتیجہ خیز نظام ِ حیات بھی وضع فرمایا ہے جو احکامِ قرآن اور تعلیمات ِ صاحبِ قرآن پر مشتمل ہے۔اگر قرآن مجید کی تعلیمات کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو پانچ مضامین زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں۔اعتقادات، عبادات، اخلاقیات، معاملات، بصائر و عبائر۔اعتقادات سے مراد توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد ہیں۔عبادات کا مطلب نماز روزہ زکوۃ ، حج ہیں۔اخلاقیات کی تفصیل میں حقو ق العباد ، صدق، اخلاص، ایفائے عہد، تعاون ِ باہم، انسانوں کی خبر گیری، حسنِ سیرت ، سلیقہ مندانہ رویے، سماجی فلاحت وغیرہ شامل ہیں۔
معاملات کا دائرہ میں تجارت، اٰجر اور اجیر کا تعلق، زمیندار اور کاشتکار کا تعلق ، لین دین اور دیگر سب اقتصادی و معاشی و مالی سرگرمیاں داخل ہیں۔
عبائر و بصائر گزشتہ اقوام و ملل کے واقعات و حوادث ہیں جو ہمارے لیے باعثِ عبرت ہیں مثلا سیدنا شیعبؑ کی قوم کا قصہ جو کاروبار میں بددیانتی کرتے تھے، لین دین میں بدمعاملہ تھے، ناپ تول میں کمی کرتے تھے، راہ چلتے لوگوں کو ستاتے تھے۔جب سیدنا شعیب ؑ کی انتہائی کوشش کے باوجود انہوں نے اپنے رویوں کی اصلاح نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نمونہ ء عبرت بنا دیا۔یہ دراصل مخلوقات کے اندر اللہ مدبرِ حقیقی کی کارفرما حکمت ہے۔
تمام عقلاء نے تسلیم کیا ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک وجودِ واحد ہے۔وہ صاحبِ ارادہ اور صاحبِ تدبیر ہے، عظیم قدرت اور شان کا مالک ہے۔کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اُس کا یکتا اور واحد ہونا قطعی الثبوت ہے۔اس کریم ذات نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو سب سے ذیادہ اہمیت، شرف اور اکرام دیا ہے۔اس کو اختیار دیا ہے اور خلافتِ ارضی کے منصب پر فائز کیا ہے۔اللہ نے اس کے وجدان میں ہدایت و ودیعت کی ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ولقد کرمنا بنی اٰدم وحملنھم فی البرِّ والبحر "اور ہم نے اولادِ آدمؑ کو تکریم بخشی اور ان کو خشکی و تری میں اختیار سے نوازا
فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا" اسلام وہ فطرت ہے جس پر ہم نے لوگوں کو تخلیق کیا)
بس اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی چشم ِ بصیرت وا ہو۔اس کی آنکھ حقیقت کا نظارا کر سکتی ہو۔اس کا دل مناظرِ فطرت سے ہدایت کے موتی چن سکتا ہو۔بقول علامہ اقبالؒ:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
ہدایت کا وجدانی سفر خود(جان) سے شروع ہوتا ہے۔انسان جب اپنے وجود میں غور کرتا ہے تو اسے اجزاء کی ترکیب ، ان کے درمیان اعتدال و توازن بدرجہءِ کمال نظر آتا ہے۔پھر اس وجودِ مرکب میں بصورت ِ روح قوتِ حرکیہ(Force of Acceleration) جس کے تحت جسم اپنے تمام افعال نہایت خوبی سے ادا کرتا ہے۔پھر تمیز اور پہچان کا احساس جسے اصطلاح میں نَفسُٗ کہتے ہیں۔اس طرح کے تمام انسانی خواص اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انسانی زندگی نہایت با مقصد ہے اور خلاّق ِ ازل نے انسان کو اپنی خلافت کا تاج پہنانے کے لیے کلی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے
یریکم اللہ اٰیاٰتہٖ فی الآفاق وفی انفسکم حتیٰ یتبیّن انہ الحق
(اللہ کائنات اور تمہارے وجود میں تم کو نشانیاں دکھائے گا حتی کہ تم پر واضح ہو جائے گا کہ وہ حق ہے)
انسان کا وجود بنیادی طور پر دو بڑی چیزوں کا امتزاج ہے جسم اور روح۔جسم میں عالمِ شہادت(Material World) کی تمام چیزوں(Elements) کا جوھر (Essence) شامل ہے۔اس طرح روح میں عالمِ معنوی (Metaphysical World) کے تمام عناصر کا جوھر شامل ہے۔یوں انسان کا وجود خلاصہءِ موجودات ہے۔تب ہی تو اللہ نے اسے اپنی خلافت کے لیے منتخب کیا ہے
"وجعلنا کم خلفاُٗ فی الارض"اور ہم نے زمین میں آپ لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا)
الغرض ہدایت اصولی طور پر تو انسان کی رگ و پے میں سرایت ہے۔اللہ نے ارواح کو ا پنی پہچان اور اپنا دیدار کرایا۔ان سے عہد لیا۔عام انسانوں کو انبیاء و رُسُل ؑ کی پہچان کرائی اور ان سے میثاق لیا۔رسول اللہ ؐ کی پہچان تمام انبیاء اور ان کی امتوں کو کرائی گئی۔اس طرح عالمِ بالا (Spiritual World) میں معرفت کا سارا نصاب مرتب کر کے انسان کی روح میں ڈال دیا گیا۔
سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کو اسماء(Codes) کا علم دیا اور نہایت تکریم کے ساتھ رکھا۔Perfection کے حصول کے لیے اس دنیا میں بھیجا۔یہاں انکی اولاد کا سلسلہ چلا جو اس دنیا کےاختتام(End of Time) تک رہے گا۔
اب جبکہ انسان کے اندر جبلّی طور پر (Naturally) ہدایت موجود ہے تب بھی اللہ نے شرائع کا سلسلہ چلایا۔تمام اقوام اورزمانوں میں انبیاء ؑاور رُسُلؑ تشریف لائے۔سب سے آخر میں حضورﷺ تشریف لائے سب پر اللہ نے اتم شریعت بصورت قرآن و حکمت نازل فرمائی۔سو اللہ نےتمام انسانوں کئے لیے اعلان کیا کہ :الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا
(آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت ِ ہدایت تم پر انتہا تک پہنچا دی اور اسلام کو بطور ضابطۂ حیات تمہارے لیے پسند کیا۔بقول حکیم الامت ؒ
خدا باما شریعت ختم کرد
بر رسولِؐ من رسالت ختم کرد
جب ہم اسلام کو ضابطہءِ حیات کے طور پر قبول کر چکے ہیں تو اس کے کچھ لازمی تقاضے ہیں۔ان میں اہم ترین تقاضہ قرآن و سنۃ سے وابستگی ہے۔صرف اعتقادی نہیں بلکہ عملی وابستگی۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:-میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں یعنی کتاب اللہ اور اللہ کے نبیؐ کی سنت چھوڑے جا رہا ہوں۔جب تک تم ان دو چیزوں سے جڑے رہو گے کوئی بھی تم کو حق سے بھٹکا نہیں سکے گا"
قرآن و سنۃ پر الحمد اللہ ہمارا اعتقادی ایمان تو شک و شبہ سے بالاتر ہے لیکن عملی حوالے سے ہمیں ابھی انتہائی جد و جہد کی ضرورت ہے۔
عقائد کے بعد اگر ہم نظامِ عبادات کی طرف توجہ کرتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنۃ نماز کی صرف عبادات برائے عبادت قرار نہیں دیتے بلکہ دور رس نتائج کا حامل گردانتے ہیں۔
بے شک نماز تمام ناشائستہ باتوں اور منکرات سے روکتی ہے(القرآن)
روزہ اللہ کے نزدیک صرف کھانے پینے سے احتراز کرنے کا نام نہیں بلکہ تقویٰ کے حصول کا سبب ہے اور تقویٰ وہ صفتِ ایمان ہے جو پوری شخصیت کا احاطہ کرتا ہے اور سیرت افروزی کا ضامن ہے۔مثلاََ ایک آفیسر اگر متقی ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ نماز روزے کا پابند ہے بلکہ اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اہلِ ہے۔دیانت دار ہے۔ترقی پسند ہے۔Merit کو یقینی بنانے والا ہے، وغیرہ وغیرہ
نظامِ عبادات کے بعد معاملات میں کھرا ہونا شریعت کا ترجیحی حکم ہے۔قرآن و سنۃ میں اعتقادات و عبادات کو اجمالاََ بیان کیا گیا ہے جبکہ معاملات کو تفصیلاََ بیان کیا گیا ہے۔
معاملہ میں صادق ہونا ، معاملہ کو قابلیت سے ڈیل کرنا اور پختہ کار اور صاحبِ تدبیر ہونا ایک قائدانہ صلاحیتوں کے مالک شخصیت کا جزوِ لا ینفک ہے۔معاملات کے بعد اخلاقیات کا پہلو سب سے زیادہ اہم ہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا:-
انما انی بعثت لِاُتِمَّ مکارم الاخلاق(الحدیث)"مجھے اخلاق سنوارنے کے لیے مبعوث فرمایا گیا"
الا سلام فھو حُسنُ الخُلق(الحدیث)۔حسنُ الخُلق کا نام ہی تو اسلام ہے۔
از روئے نظریہءِ اسلام دوسرے اقوام کے ساتھ ہمارے تعلقات خیر خواہی پر مبنی ہونے چاہیے۔اس لیے کہ وہ رسول اللہ ؐ کی امتِ دعوت ہیں۔تمام انسانوں کے درمیان قدرِ مشترک یہ ہےکہ وہ آدم ؑ کی اولاد ہیں۔اس نسبت سے تمام انسان بلا لحاظ مذہب، رنگ، نسل ، آپس میں بہن بھائی ہیں۔
حضورﷺ محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین ہیں۔اسلام امن اخوت اور خیر خواہی کا دین ہے۔حضورﷺ کا فرمان ہے۔
"الدین النصیحۃ"دین خیر خواہی کا نام ہے
محترم قارئین!
آپ صرف ایک مؤقر ادارے کے ارکان نہیں بلکہ اس امت کے بھی ذمہ دار ہیں۔آپ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمارے اجداد نے یہ ملک بہت سی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔اس ملک کے پسِ منظر میں ایک لمبی تاریخ ہے جو جدوجہد اور ایثار سے عبارت ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے سچ فرمایا تھا:-
"پاکستان اُس دن بن گیا تھا جس دن برِ صغیر کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا"
حضرت علامہ اقبالؒ نے جب 1930 میں الہ آباد میں اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کے خط وخال پیش کیے تو پورے یقین کےساتھ فرمایا:-
"برِ صغیر میں ایک اسلامی ریاست کا قیام اب مقدر ہو چکا ہے"
شروع شروع میں یعنی قیام ِ پاکستان کے بعد عزم جواں تھے۔جذبے مہمیز تھے اور نظم و ضبط کا سماں تھا۔ایمان، اتحاد اور تنظیم کی فضا برقرار تھی۔دیانت کا غلغلہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالت یہ ہوئی
کوئی کارواں سے ٹُوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خُوئے دل نوازی
(علامہ اقبالؒ)
لیکن اب نظریہء پاکستان کو عملی سطح پر اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔یاد رکھیے! اسلام ہی اس ملک کی بنیاد ہےاور اسلام ہی اس کی بقا کا ضامن ہے۔
جب جب اس ملک میں اسلامی اقدار مضبوط ہو ں گے پاکستان از خود مضبوط ہوتا چلا جائےگا۔توحید ہمیں اتحاد کا درست دیتا ہے۔آج ہمارامعاشرہ خلفشار کا شکارہے۔عقیدہءِ توحید کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم اپنےمعاشرہ کو اتحاد سے ہمکنار کریں۔اس وقت قومی اتحاد و اتفاق اور باہمی جڑت ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔بقول اقبالؒ
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلہءِ علمِ کلام
روشن اس ضو سے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
رسالت کا عقیدہ جہاں ہمیں محبت و شفاعت کایقین دلاتا ہے وہاں دیانت، صداقت، اہلیت، تدبیر اور حسنِ عمل کا بھی آئنہ دار ہے۔آج ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں صداقت ، دیانت اور حسنِ عمل کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو جائے اور ہمارے ادارے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائیں۔
تجارت اور کاروبار معاشی میدان کے اہم تگ و تاز ہیں۔جدید تقاضوں نے جہاں ان کو پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے وہاں گوناگوں سہولیات سے بھی نوازا ہے۔آپ ذرائعِ ترسیل(Transportation) ہی دیکھ لیں۔سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ کتنی آسانی اور تیزی کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔قرآن ِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
"اُس کریم ذات نے تمہارے لیے حمیر و بغال پیدا کیے جن پر تم سواری کرتے ہو اور سامانِ رسد ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھائے پھرتے ہو"
اگر یہ سہولتیں میسر نہ ہوتیں تو تمہارے نفوس سخت مشقت میں پڑتے اور خدائے کریم آنے والے وقتوں میں وہ کچھ رونما کر دے گا جس کا آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔
آج ہمارے ماحول میں پہیہ، سفینہ ، طیارہ سب کچھ موجود ہے۔ذرائع پیداوار موجود ہیں۔سامانِ تجارت کی ریل پیل ہے۔دولت کے انبار ہیں لیکن قابلِ غور نکتہءِ فکر ہے ہم کیوں آسودگی ء قلب اور طمانیتِ روح سے محروم ہیں۔خدشات ہروقت ہمارے ذہنوں میں منڈلا رہے ہوتے ہیں۔اعتبار ِ باہم ناپید ہوتا جا رہا ہے۔کیا ہم نے کچھ کھو تو نہیں دیا ہے۔جی ہاں ہم نے وفا ، صدق، امانت ، ایفائے عہد، ایثار، قناعت، شکر، صبر کی معنوی دولت کھو دی ہے جو ہماری متاعِ گم گشتہ ہے۔جس طرح جسم روح کے بغیر غیر متحرک ہے بعینہٖ ان اوصاف و جواہر کے بغیر کاروبارِ معاش و حیات بھی ادھورا ہے۔بقول حکیم الامتؒ
جد ا ہو دیں سیاست تو، تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہ ہیں وہ صفات ِ عالیہ جو معاش و اقتصاد میں روا رکھنے بہت ضروری ہیں وگرنہ آدمی دیداست باقی پوست است والا معاملہ وہ گا۔حرفِ اعتبار کاروبار کی جان ہے۔سیدنا شعیبؑ نے جب سیدنا موسیٰؑ سے معاہدہ کیا ہے تو ضوابط طے کرنے کے بعد فرمایا:-
"آپ مجھے ہمیشہ خیر خواہ پائیں گے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر اللہ نگہبان ہے"
یہ ہے معاملاتی روح، جب ہم دوسروں کی خیر خواہی مطلوب جانیں گے اپنے معاملات کے سلسلہ میں اللہ سریع العقاب کے سامنے جوابدہی کا غالب احساس و استحضار پیدا کر لیں گے تو دولت شفاءِ قلب کا باعث ہو گی۔حکیم الامت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں مُنعِم کو بناتا ہے دولت کا امیں۔یعنی صاحبِ مال، مال کا امین ہے لیکن اگر یہ جذبہ موجزن نہیں ہو تو دولت"نازمی آرد، نیاز از دلِ برد"والی صورتِ حال پیدا کرے گی جو اٰجرو اجیر اور پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو گی۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مُنعِم کی آنکھ جب تک خوفِ خدا سے اشکبار نہیں ہو گی وہ دولت کا اور نعمت کا پھل خود پا سکے گا نہ سماج کے کسی کام آ سکے گا۔ہاں اقبالؒ شکایت کرتے ہیں
مد ّتہا اندر جہاں گردیدہ ام
نم در چشمِ منعماں کم دیدہ ام
زید گل خٹک،