متاع ِ گُم گَشتہ
متاع ِ گُم گَشتہ
ذوقِ حق دِہ ایں خطا اندیش را
ایں کہ نشنا سد متاع ِ خویش را
ترجمہ:اے اللہ اپنے حبیب ﷺکے طفیل ا س خطا کار کو حقّ کا ذوق و شوق عطا فرما ، یہ جو اپنی اصل متاعِ حیات اور مقصد ِ حیات کو نہیں جانتا ۔
یہ زندگی بامقصد ہے ۔قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا(اٰلِ عمران)
ترجمہ:"اے اللہ آپ نے یہ نظام بے مقصد پیدا نہیں کیا ۔" اُس کریم رَبّ نے ساری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کیااور انسان کو بلند ترین مقاصد کےلئے تخلیق فرما کر اپنا خلیفہ بنایا۔انسان کی فطرت میں حقّ کا ذوق پیدا کیا۔ کائنات میں نشانیاں رکھیں۔اپنے بندوں کو شوقِ حقّ دِلانے کے لئےحضرت اٰدم علیہ السّلام سے
لیکر محبوب ِ پاک صاحب ِ لولاک ﷺتک انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے۔اُن میں اکثر پر صحائف اور کتب نازل فرمائے۔آخری مکمل کتاب قرآنِ مجید ہے۔
نفس کے اندر اور باہر کائنات میں ہدایت کا سمندر ِ نور اُمڈا ہوا ہےلیکن غفلت کے زیرِ اثر ہم اِس نور سے فیض یاب نہیں ہوتے۔قرآن وسنۃ میں ہدایت کے نجوم چمک رہے ہیں لیکن ہم ان ہدایات کے اکتساب ِ نور سے بے فیض چلے آرہے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی اٰلہ وبارک وسلم آپؐ کے اھلِ بیت ِ اطہار ؑ، صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اور صالح و کامیاب مسلمانوں کے نقوشِ قدم ہمارے سامنے ہیں لیکن ہماری طبعیّت مچلتی نہیں۔حکیم الامۃ حضرت اقبالؒ جیسی بے چین روح اس پر تڑپتی ہے اور زبانِ حال وقال سے دعا گو ہے کہ اللہ اہلِ دین ِ متین کو خطا ءِغفلت سے آزاد کردے ،اُن کو احساس عطافرما کہ ہماری متاعِ گم گشتہ کیا ہے،اُس کے احیاء اور حصول کا سلیقہ کیا ہے۔
مقصدِ حیات سے بیگانہ پن کس قدر نقصان دہ ہے ۔آج مسلمان صالح معاشرہ کو ترس رہے ہیں،شکوہ و شکایت ہر ایک کی زبان پر ہے،حالات کی بہتری کا ارادہ کہیں بھی نہیں ہے۔اللہ کی سنت تو یہ ہے '' إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ '' ترجمہ: بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
آبروئے ملّت تعلیمی نظام کے آغاز کا ایک مقصد بچوں کو اپنی متاعِ گم گشتہ کا احساس دلاناہے اور اُس کے حصول کا شوق پیدا کرنا ہے۔اس کے لئے معاشرے کی اجتماعی کوشش درکار ہے۔ والدین، اساتذہ،سماجی کارکنان، مخیر حضرات سب نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیرروح فورم