1۔آیۃِ مباھلہ سورہ ءِاٰل عمران میں اِن چار ہسیتوں (فاطمۃ و علی و حسن و حسین علیھم السلام) کو نفوسِ رسول کہاگیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کا نورِ عصمت ان شخصیات کے نفوس میں منعکس ہو رہا ہے۔
2- آیۃ تطھیر میں ظہور ِ معنوی سے لیکر ظہورِ عنصری تک اِن کو رِجس سے پاک و مُطَھَر قرار دیا گیا ہے۔
3-آیۃِ مودّۃ میں اِن کی لا زوال محبت ہر مسلمان پر فرض کی گئی ہے.
اِن واضح و محکم نصوصیات کے بعد کسیِ کے لئے اضطراب اور مخمصہ کی قطعَا کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
رسول اللہ ؐ کی ارتحال کے بعد گومشاورتی زون میں سیاسی و انتظامی قیادت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان ذی النورین کے پاس رہی لیکن اہلِِِ اسلام کے مولیٰ و امام اہلِ بیت ہی رہے ۔ بر صغیر کے نامور عالم شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ نے "ازالۃ ُ الخفا ء عن خلافۃِالخلفا ء" میں اِس حقیقت کو تسلیم کیا ہے ۔ شاہ صاحب تمام مکاتبِ فکر کے نزدیک معزّز اور معتبر ہیں۔ واقعہ کربلا کا پسِ منظر سمجھنے کی ضرورت ہے۔فتح مکہ شریف کے بعد جو معاندین ِ اسلام سرنگوں اور تسلیم ہوئے تھے۔اُن کا اقتدار ختم ہوگیا تھا لیکن اُن کا مکرو فریب ختم نہیں ہُوا تھا۔اِن اٰل ابن ابی معیط اور شجرہ ءِخبیثہ کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاری رہیں ۔اِن بد بختوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عملِ تالیف ِ قلوب اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حلیمی سے سیاسی فائدے اٹھائے ۔خاص طور پر شام ایسے اہم خطّہ میں اپنی سیاسی اور عسکری ساکھ مضبوط کرلی پھر جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ منصب ِ خلافۃ پر متمکن ہوئے تو آپؑ کے خلاف بغاوت کرکے مسلم معاشرے میں سخت انتشار پیدا کیا۔
اِن تمام مفاتن و مفاسد کا تدارک جاری رکھتے ہوئے سیدنا علی ؑ شہید ہوئے۔
بعد ازاں اِن جفا شعاروں نے امام حسن ؑ کا جینا دو بھر کردیا۔آپؑ نے ان بغاۃ کی اصلاح کی انتہائی کوشش کی لیکن اِن بدبختوں نے آپ کی جان لینے کی کامیاب مگر مذموم سازش کی۔اِس طرح یہ دشمنانِ اسلام اور ننگِ انسانیت شعارِ اسلامیہ پر تیغ زنی کرتے رہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا:اِنِّی ترکت فیکم ثقلان کتاب اللہ واَھل البیتی فَاِن تمسَّکتم بھما فلن یضلکم شیئا۔ ترجمہ۔آپﷺنے فرمایابے شک میں دوقیمتی چیزیں چھوڑکے جارہاہوں پس اگر تم نے اْن دونوں کومضبوطی سے پکڑلیا توکوئی چیز تم کو گْمراہ نہیں کرسکتی۔
چنانچہ یہ لردانِ شیطان اہلِ بیت کیخلاف نبرد آزما رہے تاکہ قرآن اور مسلمانوں کے درمیان واحد اور بڑا واسطہ ختم کردیا جائے۔اِس ناپاک عمل میں اِن لوگوں کو اہلِ نفاق و یہود نصاریٰ کا تعاون حاصل رہا (ثقہ روایات ریکارڈ پر ہیں) سازش کی یہ آندھی اور باطل کا یہ طوفانِ بے امان اس وقت ابراھیمی ایثار و للکار کا باعث بناجب یزید ملعون حکمران ہوا۔اْس نےاپنی کْفر کا اعلان اس طرح کیا۔''کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی یہ عرب کی حکومت حاصل کرنے کےلئےبنوہاشم کاڈھونگ تھا''معاذاللہ
تب وہ شخصیّت میدانِ استقامت وعزیمت میں آئی جن سے رسول اللہ ﷺنے اعلاءِکلمۃ الحق کاعہدلیا تھا۔اس حدیث کےراوی امام حسینؑ خود ہیں۔آپؑ نے عراق کی طرف ؑازمِ سفر ہوتے ہوئے اس عظیم مِشن کی غایت حضرت عبداللہ ابن عبّاس رضی اللہ عنہما اور اپنے بھائی محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ کو بتادی تھی۔''مجھ سے رسول اللہﷺنےایک عہد لیا تھا میں وہ عہد پورا کرکے رہونگا''
آپؑ کا ایثاردین کےاحیاء کا ضامِن ہے۔
بقولِ حکیم الامّۃؒ :
تاقیامت قطعِ استبداد کرد
موجِ خونِ اوچمن ایجاد کرد
ترجمہ۔حضرتِ حسینؑ نے قیامت تک کے لئے ظلم(ہٹ دھرمی)کوختم کردیا۔اْن کے خون کےریلے نے ایک چمن(باغ۔دین کو محفوظ)بنادیا۔
الحمدْ للہ آج ہر مْسلمان اْس چمن میں سانس لے رہاہے اَب کچھ نابکار وہاں گھٹن پیدا کر رہے ہیں ۔جو کچھ وہ پھیلا رہے ہیں وہ بس ایک خلجان (Disturbance)ہے
مثلا دس محرّم شریف کی اعلیٰ و اَولیٰ وارفع نسبت شہادتِ حسینؑ ہے لیکن وہ اس کے ساتھ کچھ اسرائیلی روایات اور آفرینش آمیزروایات ،جن کی سند مضطرب،ضعیف،شاذبلکہ اکثر حوالوں سےتوغیرثابت ہے،منسوب کرتے ہیں تاکہ لوگوں کوباور کرایاجائے کہ دس محرّم الحرام کا اختصاص شہادتِ حسین اور واقعہءِکربلاء نہیں ہے۔تاریخی اور عِلمی لحاظ سے ان کا مؤقف سراب ہےلیکن غیرمطالعاتی اذہان ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں ۔اگر متاثر نہ ہوں تو بے چین ضرور ہوتے ہیں ۔کچھ کہتے ہیں امام کاپانی مسدود(بند)نہیں ہواتھا ،کچھ کہتے ہیں یہ واقعہ مبالغہ آمیز ہے،کچھ نے یہاں تک کہا یہ واقعہ من گھڑت ہے۔دراصل یہ تمام مغلّظات وخرافات اہلِ اسلام کے اجتماعی اور ملّی قدر پر حملہ ہے،حرّیّت کےعظیم الشان شعبہ پر نفاق وناصبیّت وطاغوت کی یلغار ہے۔
امامؑ نےذبحٌ عظیم اور سرِّملّتِ ابراہیم علیہ السلام کامظاہرہ کرکے بِلاشبہ اسلام کو زندہ کردیا۔
بقولِ حکیم الامّۃ فلیسوف اقبال ؒ:
اللہ اللہ بائے بسمِ اللہ پِدر
معنیٰءِذِبحٌ عظیم آمد پسر
سرِّابراہیم واسماعیل بود
یعنی آں اجمال را تفصیل بود
ترجمہ۔اللہ اللہ جس حالت(کیفیت)کی والد نے بسم اللہ کی تھی۔اْس ذبحٌ عظیم (بڑی قربانی)کے مقصدپرپورا اْترا بیٹا۔اسماعیل وابراہیم علیہماالسلام کے راز تھے۔یعنی اْس اجمال کی تفصیل تھے۔
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم