اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

شہادت ِ حُسین ؑ شعارِ اسلام

18 January 2022
(0 votes)
Author :  

تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک

شہادت ِ حُسین ؑ شعارِ اسلام

ایک عرصہ سے  ذرائعِ اشاعت  و ابلاغ کی سطح پر واقعہ َ کربلا کے حوالے سے مذموم باتیں منظم طریقہ سے پھیلائی  جا رہی ہیں۔اِس مکروہ مُہم  کے کار پردازوں  کے عقب  میں طاغوت  و شیطان کی  کار فرمائی ضرور ہوگی۔مسلمانوں کی صفوف میں ذہنی بے  چینی  اور انار کی  پھیلانے  والے  یہ بَدنما زرخرید  اور حرص  اندوز عناصر  ہر مکتبہ ءِفکر میں  ہیں۔عامۃ المسلمین کو چاہیے  کہ اِ ن لوگوں سےخبردار رہیں، ان کا تدارک  عمدہ تدبیر،باہمی  اتحاد  اور بصیرت  افروز دلیل سے کریں۔ہم سب اِس با ت سے واقف ہیں کہ پاکستان  کا قیام عظیم مِلی مصالح سے وابستہ  ہے۔باقی مسلم ممالک سیاسی مرکزیت  کے انہدام  کے بعد جغرافیائی تقسیم  کے مرھونِ منت ہیں جبکہ پاکستان  واحد اسلامی نظریاتی  مملکت ہے۔اِس  تقویم سے اسلام مخالف مادی قوتوں کو تکلیف ضرور ہوگی  چنانچہ وہ ہمارے ہی صفوں  سے کچھ نابکار  چُن کن ہمارے  مشترکہ اقدار  کو گزند پہنچانے کی کوشش کرتے  ہیں۔

شہادت ِحسین ؑ تمام مسلمانوں کی مشترکہ  قدر اور مِلی شعار  ہے۔آپ ؑ رسول اللہ ﷺ کے سبطِ جلیل  ہیں۔ قرآنِ عظیم میں جابجا   اسباط کا ذکر ہُوا  ہے ۔اسباط سے مُراد انبیاءعلیھم السلام کی اولاد ہیں،رسول اللہؐ نے اِن تمام اسباط  کا سردار امام حسینؑ کو قرار  دیا۔"قال ؑ الحسین سبط الاسباط " یہ حَسَن روایت اِس اَمَر کا بیّن ثبوت  ہے کہ امام عالی مقام صرف  امّۃ     ِ محمدیہ کے نہیں بلکہ تمام امم اور ملل کے قائد ہیں۔

  رسول اللہ ؐنے آپ  ؑ کے بار ےمیں فرمایا تھا : "حسین منِّی وَاَنِّی من الحسین" اس  روایت  میں احیاءِ اقدار ِ دینیہ کے اُس عمل کیطرف  بلیغ اشارہ ہے جو کربلا کے ریگزاروں میں شہود پزیر    ہوا۔اس    کے علاوہ رسول اللہ ؐ نے آپؑ کو قسیم کوثر، سید الشباب الجنۃ اور محبوبِ خُدا ایسے القاب سے نوازا ۔ آپؑ  اہلِ بیت ِ اطہار   اور عترتِ رسول  کے خاتم  ہیں۔(فاطمۃ ؑ،علیؑ، حسن ؑ اور حسینؑ)     اہلِ بیت قرآن  و سنۃ میں ممیّز، مُشَخَص اور مُخَصص ہیں۔اِس خصوصیت  سے مجالِ انکار  نہ صحابہ ءِ اکرام رضی اللہ عنھم کو تھا،نہ خلفاءِ ثلاثہ رضی اللہ عنھم  کو تھا اور نہ ہی آج کسی کو ہونا چاہیے۔

1۔آیۃِ مباھلہ سورہ ءِاٰل عمران میں اِن  چار ہسیتوں (فاطمۃ و علی و حسن  و حسین علیھم السلام) کو نفوسِ  رسول کہاگیا اِس کا مطلب  یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کا نورِ   عصمت ان شخصیات  کے نفوس میں منعکس   ہو رہا ہے۔

 2- آیۃ تطھیر میں  ظہور ِ معنوی سے لیکر ظہورِ  عنصری تک اِن کو  رِجس سے پاک و مُطَھَر قرار دیا گیا  ہے۔

3-آیۃِ مودّۃ میں اِن کی لا زوال محبت ہر مسلمان پر فرض کی گئی ہے.

     اِن واضح و محکم نصوصیات  کے بعد کسیِ کے لئے  اضطراب اور مخمصہ کی قطعَا  کوئی گنجائش باقی  نہیں رہتی ۔

رسول اللہ  ؐ کی ارتحال کے بعد گومشاورتی زون میں سیاسی و انتظامی قیادت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر  فاروق  رضی اللہ عنہ اور حضرت  عثمان ذی النورین کے پاس رہی لیکن اہلِِِ     اسلام کے مولیٰ و امام اہلِ بیت ہی رہے ۔ بر صغیر کے نامور عالم شاہ ولی اللہ دھلوی رحمہ اللہ  نے "ازالۃ ُ الخفا ء عن خلافۃِالخلفا ء" میں اِس حقیقت کو تسلیم کیا ہے ۔ شاہ صاحب  تمام  مکاتبِ فکر کے نزدیک معزّز اور معتبر  ہیں۔ واقعہ کربلا کا پسِ  منظر  سمجھنے  کی ضرورت ہے۔فتح مکہ شریف کے بعد جو  معاندین ِ اسلام سرنگوں اور تسلیم ہوئے  تھے۔اُن کا اقتدار ختم ہوگیا  تھا لیکن اُن کا مکرو فریب ختم نہیں ہُوا تھا۔اِن اٰل ابن  ابی  معیط اور شجرہ ءِخبیثہ کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاری رہیں  ۔اِن بد  بختوں نے حضرت ابو بکر رضی    اللہ عنہ کے عملِ تالیف ِ قلوب اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کی حلیمی سے سیاسی فائدے اٹھائے ۔خاص طور پر شام ایسے اہم خطّہ میں اپنی سیاسی اور عسکری ساکھ مضبوط کرلی پھر جب سیدنا علی کرم اللہ  وجہہ منصب ِ خلافۃ پر متمکن ہوئے تو آپؑ کے خلاف  بغاوت کرکے مسلم معاشرے میں سخت انتشار پیدا کیا۔

اِن تمام مفاتن و مفاسد کا تدارک جاری  رکھتے  ہوئے سیدنا علی ؑ   شہید ہوئے۔

بعد ازاں اِن جفا شعاروں نے امام حسن ؑ کا جینا دو بھر  کردیا۔آپؑ نے ان بغاۃ کی اصلاح کی انتہائی کوشش کی لیکن اِن بدبختوں  نے آپ کی جان لینے کی کامیاب مگر مذموم سازش کی۔اِس طرح یہ دشمنانِ اسلام اور ننگِ انسانیت شعارِ اسلامیہ پر تیغ زنی  کرتے رہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا:اِنِّی ترکت فیکم ثقلان کتاب اللہ واَھل البیتی فَاِن تمسَّکتم بھما فلن یضلکم شیئا۔ ترجمہ۔آپﷺنے فرمایابے شک میں دوقیمتی چیزیں چھوڑکے جارہاہوں پس اگر تم نے اْن دونوں کومضبوطی سے پکڑلیا توکوئی چیز تم کو گْمراہ نہیں کرسکتی۔

چنانچہ یہ لردانِ شیطان اہلِ بیت کیخلاف  نبرد آزما  رہے تاکہ قرآن اور مسلمانوں کے درمیان واحد اور بڑا واسطہ  ختم کردیا  جائے۔اِس ناپاک عمل میں اِن لوگوں کو اہلِ نفاق  و یہود نصاریٰ کا تعاون  حاصل رہا (ثقہ روایات  ریکارڈ پر ہیں) سازش کی یہ آندھی اور باطل کا یہ طوفانِ بے امان اس وقت ابراھیمی ایثار و للکار  کا باعث بناجب یزید ملعون حکمران ہوا۔اْس نےاپنی کْفر کا اعلان اس طرح کیا۔''کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی یہ عرب کی  حکومت حاصل کرنے کےلئےبنوہاشم کاڈھونگ تھا''معاذاللہ

تب وہ شخصیّت میدانِ استقامت وعزیمت میں آئی جن سے رسول اللہ ﷺنے اعلاءِکلمۃ الحق کاعہدلیا تھا۔اس حدیث کےراوی امام حسینؑ خود ہیں۔آپؑ نے عراق کی طرف ؑازمِ سفر ہوتے ہوئے اس عظیم مِشن کی غایت حضرت عبداللہ ابن عبّاس رضی اللہ عنہما اور اپنے بھائی محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ کو بتادی تھی۔''مجھ سے رسول اللہﷺنےایک عہد لیا تھا میں وہ عہد پورا کرکے رہونگا''

آپؑ کا ایثاردین کےاحیاء کا ضامِن ہے۔

بقولِ حکیم الامّۃؒ :

تاقیامت قطعِ استبداد کرد

موجِ خونِ اوچمن ایجاد کرد

ترجمہ۔حضرتِ حسینؑ نے قیامت تک کے لئے ظلم(ہٹ دھرمی)کوختم کردیا۔اْن کے خون کےریلے نے ایک چمن(باغ۔دین کو محفوظ)بنادیا۔

الحمدْ للہ آج ہر مْسلمان اْس چمن میں سانس لے رہاہے اَب کچھ نابکار وہاں گھٹن پیدا کر رہے ہیں ۔جو کچھ وہ پھیلا رہے ہیں وہ بس ایک خلجان (Disturbance)ہے

مثلا دس محرّم شریف کی اعلیٰ و اَولیٰ وارفع نسبت شہادتِ حسینؑ ہے لیکن وہ اس کے ساتھ کچھ اسرائیلی روایات اور آفرینش آمیزروایات ،جن کی سند مضطرب،ضعیف،شاذبلکہ اکثر حوالوں سےتوغیرثابت ہے،منسوب کرتے ہیں تاکہ لوگوں کوباور کرایاجائے کہ دس محرّم الحرام کا اختصاص شہادتِ حسین اور واقعہءِکربلاء نہیں ہے۔تاریخی اور عِلمی لحاظ سے ان کا مؤقف سراب ہےلیکن غیرمطالعاتی اذہان ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں ۔اگر متاثر نہ ہوں تو بے چین ضرور ہوتے ہیں ۔کچھ کہتے ہیں امام کاپانی مسدود(بند)نہیں ہواتھا ،کچھ کہتے ہیں یہ واقعہ مبالغہ آمیز ہے،کچھ نے یہاں تک کہا یہ واقعہ من گھڑت ہے۔دراصل یہ تمام مغلّظات  وخرافات اہلِ اسلام کے اجتماعی اور ملّی قدر پر حملہ ہے،حرّیّت کےعظیم الشان شعبہ پر نفاق وناصبیّت وطاغوت کی یلغار ہے۔

امامؑ نےذبحٌ عظیم اور سرِّملّتِ ابراہیم علیہ السلام کامظاہرہ کرکے بِلاشبہ اسلام کو زندہ کردیا۔

بقولِ حکیم الامّۃ فلیسوف اقبال ؒ:

اللہ اللہ بائے بسمِ اللہ پِدر

معنیٰءِذِبحٌ عظیم آمد پسر

سرِّابراہیم واسماعیل بود

یعنی آں اجمال را تفصیل بود

ترجمہ۔اللہ اللہ جس حالت(کیفیت)کی والد نے بسم اللہ کی تھی۔اْس ذبحٌ عظیم (بڑی قربانی)کے مقصدپرپورا اْترا بیٹا۔اسماعیل وابراہیم علیہماالسلام کے راز تھے۔یعنی اْس اجمال کی تفصیل تھے۔

علّامہ زیدگل خٹک صاحب

مشیر روح فورم

 

 

Tag :

Login to post comments
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

Recent News

cache/resized/b15a70d8f5547f99286ef34082cb3ae3.jpg 11
January 2022

عِلم

عِلم علم اصولی طور پر صفاتِ اِلٰہیہ  میں سے ہے وہ خالقِ کائنات علیم و علّام ہے۔ مطلق، ذاتی اور کلّی علم اْس کے پاس ہےاْس پاک والاصفات نے جدّْنا ...

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…