خودی کا نشیمن
خودی کا نشیمن
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(سورۃ الذّاریات21)
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
آبروئے قرآن نظامِ تربیّت کے تحت طلباء و طالبات میں عرفانِ ذات (خودی) کا تصوّر و تعمُّل (Concept & Capacity) پیدا کرنا ہمارے تعلیمی رجحان کا منہاج (Path) ہے۔بنی آدم و حوّا علیھما السلام کو اُن خدا داد صلاحیّتوں کا احساس و اعتبار دِلانا تعلیم کا لازمی جزو ہے اور ہونا چاہیے۔ تمام علوم اور اُن کے نتائج و اثرات نفسِ انسانی سے وابستہ ہیں۔ اگر نفسِ نے تمام متعلّقاتِ حیات کو جُزوی طور پر اور انسان کو کُلّی طور پر بیان فرمایا ہے ۔
نفسِ انسانی کے اندر معرفت کا پورا ماحول ودیعت ہے۔ معنوی لطائف، قلبِ حقیقی، روح، سِر،عقل، وجدان وغیرہ میسّر ہیں۔ انسانی نفس مرتبۂ جامعہ پرہے۔ یہ بیک وقت عالَمِ مادہ(Materialistic World) عالَمِ ماویٰ (Metaphysical World) اور ہاہوت و لاہوت (لامکان) سے تعلق و ربط میں ہے۔ یہ اوّل و آخر و ظاہر و باطن سے وا بستہ ہے۔ یہ خاکی ہے مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند کے مصداق ہے۔ حکیم الامّتؒ نے اس بڑے اور بھر پور نظام کا نام خودی رکھا ہے جس کو باقی عرفاء بشمولِ عارفِ رومؒ نے عرفانِ ذات سے موسوم کیا ہےانسانی تزکیہ کے منہج پر ہے تو یہ نتائج و اثرات مثبت ہوں گے وگرنہ مُضِر ہوں گے۔ قرآن کا مخاطب انسان ہے اس لیے قرآن