سورۂ فاتحہ
سورۂ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ہے۔ یہ سورہ اللہ کا خاص عطیہ ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل و توسط سے سارے عباد کے لیے!
اس سورہ کا آغاز حمد سے ہوتا ہے، رب العالمین کی تعریف و توصیف سے! اصلا تعریف تو صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔وہ حقیقی معروف و موصوف ہے۔خالق و مالک صرف وہ ہی ہے۔مخلوق اُس خالقِ حقیقی کے ارادے کا ظہور ہے۔مخلوقات کی حیثیت اعتباری،امکانی، خَلقی اور خُلقی ہے۔وہ عالمین یعنی عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی کا رب ہے۔رب سے مراد خالق و پالن ہار سب کچھ ہے۔مخلوقات میں انسان کو مرکزی و محوری حیثیت حاصل ہے۔وہ اللہ کا خلیفہ اور مخدوم ِ خلائق ہے۔انسان اپنے رب کی معرفت کا مستجب بھی ہے او ر سزاوار بھی!
رب العالمین انسان کو باور کرا رہا ہے کہ اس کو ہر آن اور ہر مکان رب مانواور جانو۔کل محشر کے دن اُس محبوبِ حقانی کے حضور حاضر ہو گے۔انسان کو سلیقہ سکھایا گیا کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرے، اس کی معرفت کا جویاں رہے، اُس کے نور کامتلاشی اور شیدا رہے۔اسی ربِ جلیل سے استمداد و استعانت چاہے۔اُس کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط اور محکم کر لے۔اسی سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگے۔صراطِ مستقیم جو رب العالمین کا مشخص، منتخب اور محبوب راستہ ہے۔یہ راستہ فخرِ موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات، رحمت للعالمین، خاتم الانبیا و المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے ۔تمام انبیاء ِ اکرام و مرسلین ِ عظام علیھم السلام کا ، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے یعنی منعم علیھم کا راستہ ہے۔مغضوب و ضالین کے راستہ سے درکنار رہنا ہے جن کی شقاوت کی وجہ سے وہ اللہ رب العالمین کی رحمت سے محروم ہوئے، مغضوب ٹھہرے اور نتیجتا ضلالت میں مبتلا ہو کر اللہ کی رحمت و ہدایت و معرفت سے محروم ہوئے۔بس یوں سمجھ لیں کہ الفاتحہ دعا ہے اور اس کی قبولیت کا ثمر نسخہء کیمیا قرآنِ مجید ہے۔
علامہ زید گل خٹک
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت از زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے حلق میں زہر انڈیل دیا۔
پھر حضرتِ اقبال تاریخ کی طرف جاتے ہیں ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان اظہار پسند ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال کو سمو کے رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں حزب الشیطان کے ایک سرکش کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے ۔
قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا
فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ