اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

Super User

امتیازی اسلوبِ تزکیہ و تعلیم

عنوان کا استدراک :  '' یزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ''

توجیحات : دارالارقم، اصحابِ صفّہ، کاتبینِ وحی، الغارمین فی سبیل اللہ، دارالفاطمہ، منبرِسلونی، دارالزّبرۃ، مکتبِ جنیدیہ، دارالارشاد، (دارالارشاد غوثِ پاکؒ کی درس گاہ تھی) حلقات المسجد النبویّہ، نظام الطّوسیہ(امام غزالیؒ کی درس گاہ)، مجلس المصائب والبصائر و العبائر(امام سجادؒ کی درس گاہ)، دارالنّحبۃ الفکر( شیخِ اکبر ؒکا تحقیقی لجنہ)، ترتیب الافراد و تصفیۃ القلوب(نظام الدین اولیاءؒ کا نظامِ تعلیم)، اسفارالاخوان(اخوان الصفا کا وزیٹنگ سکول) ۔

تصریحات : سیّدنا علیؑ، سیّدنا جعفر، سیّدنا زیدبن ثابت، سیدہ طیّبہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام، ام المؤمنین عائشۃ رضوان اللہ علیہا، سیّدنا ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام سجاد زین العابدینؒ، امام غزالیؒ، امام ابنِ غزالیؒ، خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ، حضرت محمّد بن علی مشہدیؒ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔

نوٹ : تاریخِ تزکیہ و تعلیم و تربیّت میں اور کئ ایسی مثالیں مظہر ہیں، چند ایک ذکر کردی ہیں تاکہ واضح ہو کہ یہ نظام طبع زاد نہیں بلکہ متداول ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے مکّہ شریف کے معاشرہ سے مفلوک الحال اور مجبورالمال  افرادِ ملّت  کو اپنی خاص توجّہ کا مرکز بنایا، مدینہ طیّبہ میں آپﷺ کی خصوصی نظرِ التفات کا محور یہی اور ایسے ہی لوگ رہے۔ لطفِ ربّانی نے آنحضور ﷺ کے اس جاں گداز  رویّہ کو صرف نظرِ استحسان سے ہی نہیں دیکھا بلکہ ترغیبِ مزید دی:   وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ '' اور اے حبیب ﷺ آپ اپنے معارف و انوارِ نفس ِ قدسی سے ان لوگوں کو متمتّع فرمائیں۔ ''وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ''(الکہف 28)یا رسول اللہ ! آپ ان لوگوں کو اپنی لطفِ نگاہ کے فیض سے محروم نہ کریں۔

ہم تاریخ کی پیشانی پر انہی ہستیوں کو منصبِ تعلیم و تربیت  اور منصّہءِفلاح  واصلاح  و رفاہ کے حوالے سے متمکن و مؤثر و مفید دیکھتے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے معاشرے سے صرف انسانی بنیادوں پر انتخاب فرمایا اور امتیازی و خصوصی تزکیاتی و تربیّتی و تعلیمی اسلوب سے گزار کر سیّادت، نظامت، ادارت اور قیادت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز کردیا۔

ان حضرات کے پاس ابتداء میں کوئی صلّہ(Return) نہیں تھا  لیکن امتیازی تعلیم و تربیّت نے ان کی ذواتِ مبارکہ کو انسانی معاشرے کے لئے دنیوی و اخروی  صلہ بنادیا اور پھر یہ طریقہءِتعلیم کبھی انقطاع و تعطّل کا شکار نہیں ہوا اور نہ کسی طرح حکومتی سرپرستی سے مطلقًا بے نیاز ، اپنی مدد آپ کے تحت معجِّز و مقوَّم یہ نظام نو آبادیاتی تسلط سے پہلے تک چلتا رہا، صرف یہ نہیں کہ چلتا رہا بلکہ بہترین اثرات کا متحمّل رہا۔ چند ایک کامیاب و کامران سلاسل ہائے تزکیہ و تعلیم کا حوالہ میں نے توجیحات کے ذیلی عنوان کے تحت عرض کردیا ہے وگرنہ عبر و عنبر زلفِ مشکیں دراز ہے۔

اس کا قاعدہ ،تقویم اور  تنظیم (Foundation Sustaining, accomplishment)کے لئے تصریحات میں متذکرہ لجنات و درّاسات لائقِ تقلید اور قابلِ اتّباع ہیں۔ میں صرف ترغیبًا طوس کی مثال سے اپنی ادّعا کو مترشّح کرنا چاہونگا۔

'' حصولِ تعلیم کے بعد اس یتیم شعار معلّم نے کمال کردیا تھا، ان کی والدہءِکریمہ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عینِ جوانی میں اپنی حیاتِ مستعار کی تمام خوشیوں اور آسائشوں کو تج دیا، اپنی ساری توجّہ اپنے دو بچوں  محمّد بن محمّدغزالیؒ اور احمد بن محمد غزالیؒ   کی تعلیم پر مرتکز کردی۔ جب شوہر کا ترکہ اور اپنے اثاثے (زیورات وغیرہ) ختم ہوگئے تو اپنے مرحوم شوہر کے ایک وفادار حضرت رازکانیؒ  (جو متموّل تاجر اور عالم با عمل تھے ) سے اپنے بچوں کی تعلیمی کفالت کی درخواست کی ، موصوف تعلیمی سرپرستی کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، اْن کی مالی ولاء سے امامِ غزالیؒ نے حسبِ ضرورت نہایت قناعت  اور کفایت کے ساتھ استفادہ کیا، تب بغداد، نظامیہ، عبرون، نیشاپور، سلاجقہ کو اپنے علمی برکات  سے نوازتے ہوئے  یہ امتیازی معلّم ، متکلّم ،محدّث، عارف، ناظم، قیّم، فقیہ اور مربِّیءِعلم و تعلّم نے اپنے وطنِ مالوف طوس میں امتیازی  تزکیہ و تعلیم کا ایک عظیم الشّان مرکز بنایا جو سلسلۃ النظامیّہ کی بھی آنکھیں خیرہ کررہا تھا۔

تعمیر تین بڑے کیمپس پر مشتمل تھی:

  • مسجد : جس میں تمام مکاتِبِ فکر کے مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت تھی، فجر کے بعد درسِ قرآنِ مجید اور جمعۃ المبارک کا وعظ حضرت خود فرتے تھے۔
  • درس گاہ : ایک جامعہ (University) جس میں فلسفہ، تاریخ، تفسیر، حدیث،   منطق، کلام، نحو، تعدیل جغرافیہ، ہندسہ، کیمیا، طبعیات ، ریاضی ، نجوم، صنعت، حرفت اور کسب سب علوم و فنون زیرِتدریس تھے۔
  • خانقاہ : جس میں تصوّف بطورِ فلسفہءِحیات و نصاب پڑھایا جاتا تھااور روحانی تربیت و تزکیہ ( انابت، عقیدت، خلق، خدمت، ارادت، مجاہدہ، مراقبہ، مسامرہ، مکالمہ، مشاہدہ، مفاردہ، مجاردہ، فنا، بقا) کا بہترین نظام کار فرما تھا یعنی قال و حال و تمکین یکجا تھے۔
  • نظامت :

دارالتوہیب : اس دفتر میں عطیات، موہبات، تحائف و تصدق( Contributions, Donation, Charities) جمع ہوتے تھے۔

دارالمشاورت : اس میں اعلیٰ سطحی مشورے  ہوتے تھے۔

دارالترغیب : اس میں والدین اور مخیّر حضرات کو تعلیم پروری کی ترغیب دی جاتی تھی۔

دارالاحتشام : اس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے بچوں، والدین، اساتذہ، اور سماجی کارکنوں کو اعزازات دئیے جاتے تھے۔

دارالتّحقیق : یہ تحقیقات کا مرکز( Research center) تھا جس میں حضرت استاذ الغزالیؒ خود رونق افروز ہوتے تھے، یہاں سے ماہرین اطرافِ عالم کی طرف کوچ کرتے تھے تاکہ اور ادارے بنائیں۔

علّامہ زیدگل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

 

عِلم

عِلم

علم اصولی طور پر صفاتِ اِلٰہیہ  میں سے ہے وہ خالقِ کائنات علیم و علّام ہے۔ مطلق، ذاتی اور کلّی علم اْس کے پاس ہےاْس پاک والاصفات نے جدّْنا سیّدنا اٰدم علیہ السلام کو علم الاسماء عطا فرمایا۔ سیّدنا داوٗد  و سیّدنا سلیمان علیہماالسلام کو منطق الطّیر کا علم دیا۔ جنابِ مہتر خضر و الیاس علیہماالسلام کو اسرارِکائنات کا عِلم عنایت کیا اور ہمارے آقا و مولیٰﷺ کو عِلمِ تفصیل عطا فرمایا۔

اْس علّامْ الغیوب نے انسان کو خبر،وجدان،مشاہدہ،تجربہ، عقل ،نقل  اور قلم کے ذریعےعِلم  سکھایا۔ وْحوش و بہائم اور عنادل و طیور حتّٰی کہ انامل و حشرات الارض کو بھی ان کی قدر کے مطابق علم دیا۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں ہدہد اور چیونٹی کی سیّدناسلیمانؑ سے گفتگو پاسِ ادب  اور کمالِ شعور  اْس فاطِرِحقیقی کے الطاف و عنایات کا پتہ دیتی ہے۔

ہمارے آقا و مولیﷺ کو چونکہ اللہ ذوالمنن نے عِلمِ تفصیل عطا فرمایا ہے لہٰذا آپ کریم و حبیبﷺ سے شجر و حجر نے بھی کلام کرنے کی عزّت پائی۔ ہوا، دخان، آب اور نوالہءِطعام نے بھی آپﷺ سے بات کرنے کا شرف پایا اور اْس علمِ طبعی و وہبی کا ثبوت دیا جو اللہ جلّ مجدہٗ نے ان کو ودیعت فرمایا ہے۔

عِلم کئی انواع واقسام  پر مشتمل ہے اور پھر ہر نوع کے بہت سے ابساط(Expansions) ہیں۔ مثلًا :

  • عِلمِ فطری و طبعی : شہد کی مکھی کا علم وغیرہ۔
  • عِلمِ وہبی و عطائی : ہر وہ عِلم جو اللہ نے خلائق کو دیا ہے تاکہ وہ اپنی زیست کریں۔
  • علمِ منطقی : وہ علم جو انسان کو عقل و شعور و وجدان کے تحت میسّر آتا ہے۔
  • علمِ لدنّی : وہ علم جو اللہ تبارک و تعالیٰ کسی عظیم روحانی ہستی کو بطورِ خاص عطا فرماتا ہے۔
  • علمِ کسبی : وہ علم جو انسان اپنی ودعی استطاعت و استعداد کے مطابق سیکھتا ہے۔
  • علمِ عین : جس کا سیکھنا ہر شخص کے لئے لازم ہے جیسے تکلّفاتِ شرعیہ کا علم۔
  • علمِ کفایہ : جس عِلم کا حصول کسی متعیّن و متمکّن گروہ میں ایک شخص کے لئے ضروری ہے۔
  • علمِ تکفل : روزی کمانے کے لئے کسب ،ہنر، صنعت ، حرفت اور تجارت کا علم۔
  • علمِ فلاحت : کھیتی باڑی، زراعت اور زمین کی آبادکاری کا عِلم۔
  • علمِ معدن : جبال و سہول سے ذخائر و خزائن نکالنے کا علم۔
  • علمِ ارتقاء : دریافت شدہ اشیاء کے خواص معلوم کر کے ان کو قابِلِ استعمال بنانے کا ہنر اور عِلم۔
  • علمِ استقراری : سکونت اور تعمیر کا عِلم۔
  • علمِ ذوقی : ادبی ، عمرانی اور دیگر معاشرت۔
  • علمِ لطفی : فنونِ لطیفہ، موسیقی اور فلسفہ کا عِلم۔
  • علمِ روحانی و سرّی : قلب ، روح اور سرّ و اسرار و الطاف معلوم کرنا اور پروان چڑھانا۔
  • علمِ طبّی : علاج و معالجہ۔
  • علمِ نباتی و ترکیبی : بیالوجی اور کیمیا کا علم۔
  • علمِ طبعی و غیر طبعی : ساز، آواز، ہوا، توانائی، رفتار اور مابعدالطبعیّات کا عِلم۔
  • علمِ زمانی و مکانی : وقت اور جغرافیہ کا علم! اس میں علمِ تاریخ بھی شامِل ہے۔
  • علمِ تجربی: سائنس و ایجاد کا علم۔
  • علمِ دینی : دین و شریعت کا علم۔

بڑے بڑے علماء نے عِلم کے 92 اقسام بیان کئے ہیں اور پھر ہر قسم کے 92 انواع اور پھر ہر نوع کے 92 ابساط بیان کئے ہیں۔

اسی طرح تمام اشیاء اور تمام علوم عددی اعتبار سے لفظِ محمّدؐ کی طرف رجعت کرتے ہیں بقولِ حکیم  الامّۃؒ:

لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

علم کے باب میں تعلیماتِ اقبالؒ میں اعلیٰ، اہم مؤثر اور مفید ترغیب موجود ہے ۔ جس سے عِلم کے حصول کا ولولہ پیدا ہوتا ہےاور علم کی برکات عام ہونے کی سبیل نکلتی ہے۔
کھُلا جب چمن میں کتب خانۂ گُل
نہ کام آیا مُلّا کو علمِ کتابی

حکیم الامّۃؒ عِلمِ نافع و راسخ کے قائل ہیں آپؒ علمِ حاضر و ظاہر کو دین کے لئے زار و زبوں سمجھتے ہیں۔ کتابِ ہدیٰ اور سنّتِ مصطفیٰﷺ میں علمِ راسخ اور علمِ نافع کی ترغیب ہے۔ ملائیت عِلمِ حاضر و ظاہر کی ترجمان ہے جس سے مِلّی اتّحاد اور قومی وحدت منتشر ہوتی ہےتفرقہ سازی اور فرقہ بازی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جو ملّی وجود کو پارہ پارہ کردیتا ہے۔ صرف اظہار و بیان، استدلال و تعبیر ایک ریا اور عجب تو لئے ہوئے ہوتے ہیں ، نافع اور مثبت اثر پذیری سے بے فطرت ہوتے ہیں۔ چنانچہ حکیم الامّۃؒ فطرت کے اشارات کی طرف توجّہ دِلاتے ہیں۔

پھول فطرت کا حسین غماز ہے ۔ عالمِ مثال کے روح و ریحان نسیمِ سحرگاہی کے دوش پر سوار ہوکر برگِ گل پر شبنم کا موتی سجا دیتے ہیں اور اہلِ عالم کو لطافت کی تعلیم دیتے ہیں۔ پشتو کے عظیم فلسفی اور عارف شاعر کہتے ہیں:

ما پہ گْل کی اْولید چہ تہ اے نہ مومے کتاب کی

اے ملا صاحبہ ستا نیم کتاب مے واورید پہ رباب کی

ترجمہ: میں نے وہ کچھ پھول میں پا لیا جو آپ کتاب میں نہیں ڈھونڈ سکتے۔اے ملّا صاحب میں نے آپ کی کتاب کا آدھا علم تو رباب کے نغمہ سے حاصل کیا۔

نسیم،شبنم،گل اور عندلیب کے استعارے اور تشابیب  حضرت کے کلام میں کثرت سے ملتے ہیں۔ دراصل یہ فاطرِحقیقی کے جمال کے حسین پرتوات ہیں اور اْس وجودِمطلق اور حسنِ ازل کی رحمت اور محبّت کا پتہ دیتے ہیں ان نزاکتوں اور فطری محاسن میں رحم و کرم، نفاست و متانت، شیفتگی و محبّت کی تعلیم ہے۔ طبائع پر اِن فطری جمالیات کا سحر انگیز اثر ایک ذوق و شوق اور وارفتگی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک کیف اور شادمانی پیدا ہوتی ہے اور اْمید کی فضا جنم لیتی ہے۔

حسنِ ازل کے یہ اشارات روحانی ذوق پیدا کرتے ہیں اور یہدِی اللہْ لنورہٖ من یّشاءْ کی سماں بنادیتے ہیں۔ میرزاد اسداللہ غالبؒ نے کیا خوب فرمایاہے        ؎

                                                        پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک

حیات کا مقصد ہی معرفتِ محبوبِ حقّانی ہے۔ علم معرفت کا پروانہ ہی تو ہے۔ فنا کی تعلیم الطافِ فطرت سے میسّر آتی ہے کہ متلاشی اور طالِب پرتواتِ حسن و جمالِ فطرت میں انواراتِ اِلٰہیہ کا رنگ ڈھونڈتا رہے۔ انوارات میں تجلّیات کا جلال محسوس کرے، تجلّیات میں صفات کی محبّت و ہیبت اور شکوہ و سطوت کا باطنی مشاہدہ کرے اور صفات میں ذاتِ مطلق اور حسنِ ازل کی خلافت کا ولولہ اور جوش پیدا ہو۔

بس یہی ہے نافع اور راسخ علم جس کی طرف حکیم الامّۃؒ اشارتِ فطرت اور پردہءِگْل میں ترغیب دیتے ہیں۔

اللہ جمیل و یحبّ الجمال، اللہ الوتر و یحب الوتر، اللہ نظیف و یحب النّظافۃ، تخلقوا باَخلاق اللہ، الفناء فی اللہِ، البقا مع اللہ  کے باب اس علم سے کھلتے ہیں اور ابنِ آدمؑ مقامِ خلافت کے تقاضے پورے کرسکتا ہے۔

یہ عِلم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے، وہ ہے فکرِ مُلوکانہ کی ایجاد

حکیم الامّۃؒ اس تخریبی رویّہ کی طرف توجّہ دلا رہے ہیں جو بد انتظامی اور حریصانہ کشمکش کی وجہ سے عِلم و حکمت اور سیاست و تجارت پر بری طرح اثرانداز ہوا ۔ عِلم کے دِل زنی سے محروم کرکے تن زنی سے مملو کردیا، حکمت و فلسفہ کو تعمیرِ آب وگِل اور حیاتِ انسانی کے تزئین و آرائش کے بجائے مناقشہ ومجادلہ کی راہ پر ڈال دیا۔

سیاست کو فلاحِ خَلق کے اسلوب سے بر گشتہ کرکے حرص و ہوس کی آماجگاہ بنادیا، تجارت سے برکت چھین کر نفع اندوزی اور خیانت کے بھینٹ چڑھا دیا۔ اصلاحِ تعلیم و تعلّم کا لازمی تقاضا ہے کہ اِن تمام معاشرتی ستونوں کو ان کے حقیقی نہج پر استوار کیا جائے اس مہتم بالشّان اصلاح و احیاء کا امکان تعلیم کے زور سے روشن ہوگا، تعلیم تزکیہ کا روادار ہے اور تزکیہ اصلاح کا پیشِ خیمہ۔

وحشت نہ سمجھ اس کو اے مَردکِ میدانی!
کُہسار کی خلوَت ہے تعلیمِ خود آگاہی

پہاڑ کا استعارہ خلافت کی امانت، تجلّی کا ظہور، عزلت نشینی، مراقبہ اور عرفانِ ذات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اپنے من کی دنیا میں ڈوب کر سراغِ زندگی پا جانے کا عمل ہے۔ پہاڑ اللہ کی ہئیبت و جلال سے کانپتے ہیں جو خشوع و ورع کی تمہیدِ طولانی ہے ، پہاڑ نے امانتِ خلافت کی سطوت دیکھی ہے اور تجلّی کا جمال بھی دیکھا ہے۔ پہاڑ میں ہادیءِعالَمﷺ مراقب و فروکش بھی رہے  اور پھر انوار سے معمور قلب لیکر چاروانگ عالم کو نورِہدایت سے جگمگادیا۔

خود آگاہی کی تعلیم ہمارے ہاں ناپید ہےاس لئے سیرت کی ضیاءمتجلّیٰ نہیں ، کردار کی ضوفشانی عرفانِ ذات سے پھوٹتی ہے، جب تک باطن درخشاں نہ ہوجائے، ظاہری محاسِن محض ریا و عجب ہیں۔ حکیم الامّۃؒ عرفانِ ذات کو تعلیم کا لازمی عنوان گردانتے ہیں۔

عِلم و عشق

حکیم الامّۃعلّامہ اقبالؒ کی یہ نظم عِلم و عِشق کے درمیان ایک مکالمہ  ومحاکمہ بھی ہےاور راسخ و نافع اور عشق کے امتیاز پر ایک خوبصورت استدلال بھی! عِلم اگر خام ہو اور ظاہربین ہو تو اْس کو عِشق دیوانہ پن نظر آتاہے، اس لئے قرآن مجید نے عِلمِ راسخ اور صاحبِ قرآنؐ نے عِلمِ نافع کی بات کی ہے تاکہ تضاد کی نوبت نہ آئے اور صاحبِ عِلم حقیقتِ اشیاء سے روشناس ہو۔ اس علمِ خام و ظاہربین کو عشق نے تخمین و ظن قرار دیااس لئے کہ اس کے حصے میں گمان و اندازہ ہے جو تذبذب  اور غیر یقینی صورتِ حال میں گرفتار رکھتا ہے۔

علم دلیل کی وادیوں میں سفر کرتا ہے اس لئے حجاب در حجاب کی منزلیں مارتا ہے اور عِشق یقین کے تخت پر براجمان ہوکر حضوری پاتا ہے اور دیدار کے لطف سے شاد کام ہوتا ہے۔عشق اشیاء کی حقیقت جان چکا ہے اس لئے اشیاء و حوادث کو تسخیر کرنے کا معرکہ سَر کرتا ہے۔

عِلم ذاتِ مطلق اور حسنِ ازل کی صفات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، بس عِلم کی آخری حد ہی یہی ہے کہ وہ صفات میں غور کرے بشرطیکہ وہ عِلمِ راسخ و نافع ہو جبکہ عشق وجودِعنصری،مظاہرِکائنات اور مشربِ دیدار میں ذات کا نظارا کرتا ہے ۔ عشق مقامِ حقیقت پر جا بسیرا کرتا ہے اور سکون و ثبات سے ہمکنار ہوتا ہے، طمانیّت کی منزل پاتا ہے، نفسِ مطمئنّہ  ہے اور رضا سے باریاب ہے۔ رؤيتِ خلیلؑ ہے، مشاہدہ اور یقین سے خلعت یافتہ ہے ۔

عِشق کو حیات کا راز معلوم ہے اور موت کی حقیقت سے بھی مانوس ہے۔ عِلم کے تمام سوالوں کا شافی جواب عشق کے پاس ہے ، عِلم جہاں حیران ہے عشق وہاں شادمان ہے۔ عشق عرفانِ ذات سے سرمایہ دار ہوکر سلطنت کو بھی ہیبت زدہ کردیتا ہے ۔ فقر کے ہجوم کا شمع بردار التمش  فتنہءِمغول پر بھی قابو پالیتا ہے ، عشق زماں و مکاں کو تسخیر کرلیتا ہے اس لئے اِن کے قید اور شدّت سے بے نیاز ہے۔ عشق یقین کے تیغ سے بابِ فتح پر دستک دیتا ہے ۔

عشق کا رأس المال محبّت ہے اس لئے اِس کی منزل ابدی ہے۔ حرکت اس کا شیوہ  ہے اور یہ پڑاؤ سے بے نیاز ہے اس کا پسندیدہ مشغلہ ابتلا ہے اور پاکر کھودینا اس کی عادت ہے۔ عشق جلال کی تجلّی سہہ سکتا ہے اور اس کو حصول سے نہیں ایثار سے سروکار ہے۔عِلم کتاب سے پھوٹتا ہے اور عشق سے کتاب پھوٹتی ہے۔

علّامہ زیدگل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

 

 

لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

 

اس شعر میں مبالغہ ہے اور نہ ہی مغالطہ بلکہ حقیقت  کی منظوم  اور دلکش ترجمانی ہے اس حقیقت سے روشناس اور مانوس ہونے کے لئے اس بیت کے علمی، خبری اور اثری پسِ منظر میں جانا لازمی ہے؛ اور وہ یہ کہ خالِقِ کل ، فاطرِ حقیقی، بدیع السّمٰوات والارض  اور وجودِ مطلق و حسنِ ازل اپنی شانِ یکتائیّت و الوہیّت  و صمدیّت و علویّت میں موجود ہے، تھا اور رہے گا(یاد رہے کہ الفاظ حقیقت سے ابعدالبعید ہیں) اْس ذات ِ بحت، ذاتِ مطلق، ذاتِ واجب کے ساتھ  دوسری شے/ چیز ماسوائے اْس کی صفات ، اسماء ، اختیارات، تصرفات، تجلیات اور انوارات کے قطعًا موجود نہیں تھی، تب اْس  کریم محب و مکون نے کمالِ لطف وعنایت سے ااپنے اکنون ( قدرت، محبّت، تدبیر، تقدیر، ارادہ) کو ظہورِ اعتباری و امکانی عطا فرمایا۔

کلامِ سرّیّت و  شریعت  میں جوہر و الطاف و اوامر و معانی  و امثال و عناصر ( جبروت و ملکوت و مثال و ناسوت) میں صرف اور صرف امکانات و اعتبارات و برکات و ظلّیّات و بروزات و پرتوات ہیں۔ اعیانِ خارجہ  میں تعیّنِ اوّل حقیقتِ محمّدیہ ہے ، باقی تمام تعینات اس تعیّن، اوّل کے اجزاء  و تفاصیل اور تنوّعات  و ینابیعات ہیں۔

Mawaddat

By Prof Zaid Gul Khattak

Ibn e Arabi (ra) says do not say Allah is here and there because that is disrespectful to The Almighty Rabb.

Instead, say Allah is with us everywhere. This is more appropriate. Allah is Rafi ud Darajaat and Rafi us Samawat. He is above all. And creator of everything. His might, His Power and His Bulundi is beyond our comprehension and understanding. Allahu Akbar. Subhanallhul azeem.

Beloved Rasoolallah (s) said, I am with my Rabb and He feeds me.

We may also say Allah is with us but we should never say He is here.

In the Qur'an it says Allah is with the Sabireen. And with the Mutaqeen.

If an Arif or a Salik is blessed with mushahida and Marifat, then they must keep quiet and not tell anyone these secrets. Observe adab strictly like you do in prayers. And never tell anyone. It is not the protocol.

Beloved Rasoolallah (s) said, keep the secret a secret that is the best. Or you will be left behind.

Data Sab (ra) said, when I knew not, I would talk. Now that I know, I am quiet.

When a secret is disclosed, one must keep it to themselves and observe silence and strict adab. If you do, you will be blessed.

The one who is given this blessing is sadatmand. And every saeed has Allah's pleasure.

Anyone who gives pain to Ahl ul Inaya, pain to Sahaba e Ikram, pain to Awliyah Allah, pain to Wali Allah, pain to Ahl ul Bayt - these people with burn in Hell for it.

The ignorant people did not realise that saadat cannot be achieved without the love and muaddat of the Ahl ul Bayt.

By Prof Zaid Gul Khattak

Ibn e Arabi (ra) says the direction of your focus and attention should always be Allah (face).

All creation is the manifestation of Allah's irada. All creation is from Allah and their focus and attention is also towards Allah. Thus wherever you look, you look at Allah's Face. Whether you apparently are looking at mountains, rivers, trees, rain, flowers, parents, children, birds the sky, sea world under the sea etc. In actuality you are looking at its Creator, Allah.

According to Ibn e Arabi (ra) and the philosophy of Sufism - we call this itibar, imkaan and majaaz.

Creation is physical and metaphysical. We cannot see the metaphysical world, like ruh, thoughts, emotions, alam e misaal, alam e misaak, alam e malakoot, angels. Angels can be seen as humans, like were seen by Beloved Rasoolallah's (s) wives, daughter and companions. We cannot see the metaphysical world with our dunya or zahiri eyes. However, we can see it with our Batini eyes.

Our world is itibar o imkaan o majaaz. Allah has created it.

Maratib

By Prof Zaid Gul Khattak

Ibn e Arabi (ra) says Real Maratib (status) is what is determined according to Qur'anic ilm. For example the first few lines of Surah Baqarah mention the Mutaqeen. It means that Aqeeleen are those who gain Hidayah from the Qur'an. If we consider anyone Aqalmand, we must see, has he obtained Hidayah from the Qur'an? If he has, only then can he be considered Aqalmand.

Qur'an mentions Sabireen. Mutaqaleen. Saeymeen. Saeymaat. Muslaymeen. Muslaymaat. Momayneen. Momaynaat. Mohsayneen. Mohsaynaat. Thus we see that Ilmillah has different status. Ilmillah is also ilm e Rasool (s) because Allah says my Nabi (s) doesn't even speak from his own desires. It is his tongue but Allah's words.

Therefore whoever follows Beloved Rasoolallah (s) follows Allah.

Ibn e Arabi (ra) says Status Martaba is in direct accordance with Marifat, in front of Allah, Rasoolallah (s), in Akhibat and in Spirituality Ruhaniyat.

The Ainiyat of these Maratib on the day of Rueeyat will be disclosed. Rueeyat is Allah's deedar, which is in Batin.

A salik seeker does Mujahida, Muraqaba and eventually Mushahida. Mushahida is to see Rabb's Husn in your Batin. This is not possible in Khaarij. Only in Batin.

The second possibility is if a person reaches Allah in the Afterlife as a reward deserving person. These are the ones that will have radiant and shinning faces on that day and they will be looking towards their Rabb.

Marifat

By Prof Zaid Gul Khattak

Ibn e Arabi (ra) says if there is anything against Haq, one should stand against it. And if there is anything that is Haq or in line with Haq, then one should accept it and support it. One should hold it in high esteem.

There are two types of "seeing". One is with the bodily eye. The other seeing is with the Qalb's spiritual eyes. Ambiya alayhis salaam and other enlightened people have tasted and enjoyed this type of Qalbi "seeing". These people are Arif.

Then there are people who see only with the eyes of the body, the Nafs. Ibn e Arabi (ra) says these people's relationship with Allah is based only on their wants and needs and they are not enlightened people. They can be muslim and even momin but they are not Arif.

And those who have not seen their Rabb with their nafsi eyes nor their qalbi eyes - they may be muslim but they are jaahil.

Makhdoom

Every single thing that exists in this Universe is Allah's creation. Man and his actions are all Maklook. Man is distinguished amongst other creations. All other creation is for Mankind's khidmaat. Man is Makhdoom.

Allah blessed every creation with Nutkh, the ability to speak and communicate. Allah tells us in the Qur'an that everything does namaz and zikr but Man cannot understand them.

Sulayman alayhis salaam spoke with mountains, insects, birds...
Stones said salaam to Beloved Rasoolallah (s) and trees prostrated before him.

So we see that everything has Nutkh, expression and speech which Allah has blessed them with. But the most beautiful and eloquent speech, Allah gave to man. The speaker and the speech is His makhlook.

Ibn e Arabi (ra) says Haq is only haq when you speak the Truth. What is better in Allah's Eyes is surely better for Mankind.

Man has been granted exclusive (taufeeqi) decision making power. No other creation has this power. They have (takveeni) limitations. Man can speak the truth, tell lies, say half truths, speak deceptively, speak for other people's benefit, speak to guide others, speak to confuse others, speak to bewilder others, speak to worry others etc etc.

This decision power will end with Man's worldly life. Everyone will be presented before Rabb taala. Those who chose Haq will be rewarded and those that chose Ghayr e Haq will face His wrath.

Ibn e Arabi (ra) says we should realise our lofty state (martaba) and live in accordance with Allah's set boundaries. For example He has ordered us to earn halal money. If we do that we will be successful. We should relinquish all our ill desires. We must leave our wishes and adopt Allah's wishes.

Ambiya alayhis salaam and foremost Beloved Rasoolallah (s) have delivered to us the boundaries that Rabb taala has set for us. They have delivered to us Allah's amanat, wahi, ayats, mansha, shariat and tariqat. Ambiya's haqayaat, talkinaat, naseehatain, irshaadaat and farmudaat help us determine our boundaries. We know our limits on how to eat, dress, use authority, worship, behave etc etc.

If Man decides to adopt Haq in his life he has to follow Beloved Rasoolallah (s). By doing this Man will be on the straight path. If not, Man will get lost in the chaos of this World.

May Allah keep us steadfast on the right path.
Ameen.

By Prof Zaid Gul Khattak

Page 5 of 11
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…