Super User
تعلیم و تربیّت
روح فورم کے اصلاحی، فلاحی اور رفاہی پروگرامز میں ترجیحی توجہ فروغِ تعلیم اور منہجِ تربیت کو حاصل ہے۔انسانی تعمیر و ترقی میں تعلیم وتربیت کا کردار خاص توجہ کا متقاضی ہے۔قرآن و سنۃ ، آثار ِ انبیاءِؑ اکرامؑ، وثائقِ اہلِ بیت علیہم السلام، بصائرِ امہات المومنین علیہن السلام نظائرِ اصحابہءِ اکرام رضی اللہ عنہم، رشحاتِ اسلافؒ و اخلافؒ اور مشاہیرِ عالم کے افکار ِ جلیلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی و تربیتی جادہ کچھ اس طور مدوّن و مترتب ہونا چاہیے۔
الف) ترغیبی طریقہءِ تعلیم و تربیت
اس طریقہء تعلیمی و تربیت کو جماعت اول سے جماعت ہشتم تک زیرِ تدریس رکھنا چاہیے۔اس طریقہ میں امام غزالیؒ، ابنِ رشدؒ، ابن طینؒ، ابن ِ زجارؒ الماوردیؒ، الفرابیؒ، سقراط اور شیکسپئر و ورڈز ورتھ (Shakespeare and Wordsworth) ایسے مشاہیرِ عالم کے افکار و ترغیبات سے استفادہ کر کے بچوں کو جبلّی اوصاف کو اثباتی طور پر نشونما دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ودعی جذبہء خیر پروان چڑھے اور شر کے احساسات فنا ہوتے چلے جائیں۔اس منطقہءِ تدریس میں ہم بچوں کے طبائع میں تعلیم و تربیت کے مفید اثرات کی پرورش کر سکتے ہیں ۔یوں ایک مضبوط بنیادِ تعلیم آگے کےمراحل میں ہمارے لیے نہایت افادیت پرور ہو گی۔
ذوقی طریقہء تعلیم و رتربیت:-
اس طریقہ کو جماعت نہم سے جماعت د و دہم(Fa, fSC)تک مروج و متداول(IN PRACTICE) رکھنا ہے۔اس میں جندیؒ، عطارؒ، قونویؒ، رومیؒ، سنائیؒ، خاقانیؒ، نظیریؒ، سعدیؒ، شیرازیؒ، بیدلؒ، غالبؒ، حکیم الامت علامہ اقبالؒ، برگساں، فیثا غورث، نطشے، المانوی(گوئٹے) ، ٹیگور ایسے جبالِ فکر و نظر کے اظہارات و رشحات سے (EXTRACTUATION) کر کے بچوں کے فطری قابلیتوں کا اثباتی تنوع(POSITIVE GROUTH) دی جا سکتی ہے تا کہ اُن کا ذوقی رجحان اور وجدانی حظ(iNTUITIONAL tALENT) بیدار ہو جائے۔وہ اپنا تشخص پا لیں۔کائنات میں اُن کو انسان کے محوری و جوھری مقام (CENTRAL & ESSENTIAL STATUS) سے روشناسی ہو جائے۔اس طرح معرفت ِ نفس کا باب کھلے گا۔یہ وہ منزل ِ تعلیم و تربیت ہے جہاں انسان ترغیبی و ترہیبی سطح سے بہت آگے بڑھ کر ذوقی طور پر اقدار (VALUES) سے مانوس ہو جاتا ہے ۔اب وہ خیر کو با تکلف(FORCE FULLY) نہیں بلکہ بے تکلف اخیتار کرتا ہے چونکہ اُس نے ترغیبی اور ذوقی طور پر حق کو دریافت کر لیا ہوتا ہے۔
ج) علوی طریقہء تعلیم وتربیت
اس اختصاصی (CLASSIFIED) طریقہ کو ڈگری، تعلیقی اور تحقیقی مدارج(BA, MA, MPHIL, PHD) میں بروئے تدریس رکھا جائے۔یہاں پر مزکورہ مراحل سے گزر کر ایک مُتَرَغَّب (MOTIVATED & INSPIRED) اور مُتَزَوَّق (NATURALIZED QUALIFIED) جماعتِ طلباء میسر ہو گی جو ایک طبیعت ِ جاذبہ ، نفسِ ناطقہ اور شعورِ باصرہ رکھتے ہونگے۔اس لیول پر ہم اُن کو اعلی افق کی طرف گامزن کریں گے اور حکیم الامت ؒ کا وہ نعرہ جلوہ گر ہو گا جو انہوں نے بہت یقین سے لگایا:
جہاں اگرچہ دگر گوں ہے قم باذن اللہ
وہی زمیں، وہی گردوں ہے قم باذن اللہ
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
غمیں نہ ہو کہ پراگندہ ہے شعور ترا
فرنگیوں کا یہ افسوں ہے قم باذن اللہ
علامہ زید گل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت
اہلِ علم نے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوّا ؑ کا طریقہء تربیت لکھا ہے جس کو انھوں نے استعمال کیا۔سیدنا شیث ؑ کی کفالت میں اس کے کچھ نکات اہلِ علم نے لکھے ہیں یہ بہت بڑے ماہرِ تعلیم ابنِ نجّا ر کی تقویم ہے۔
خَلق ، خُلق ، جبلّت ، فطرت ، طبیعت ، نفس
- خَلق سے مراد حضرت آدمؑ ہیں۔جتنی خَلقی خوبیاں ہیں اعداء ، اثماء وغیرہ ۔اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو عطا فرمائی ہیں۔اب آدمؑ کا طریقہء تربیت اپنے فرزند کے لیے کیا تھا۔
- خُلق کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ نے حضرت شیث ؑ کو کریمانہ اخلاق سکھائے۔اقدار کی تعلیم دی۔سچ بولنا ہے، حُسنِ خُلق سے پیش آنا ہے، مکارمِ اخلاق اختیار کرنے ہیں۔یہ خُلقی، تعلیم و تدریس اور تربیت ہے۔
- جبلت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت رکھی ہے۔اِ سکی حفاظت بہت ضروری ہے۔یہ انسان کے پاس خزانہ ہے۔اِ س خزانے پر چور مسلط ہوتے ہیں اور وہ ہیں وسوسہ، خطوہ اور شہوہ۔جب شیطان وسوسے کے ذریعے انسان کی جبلت میں اپنا سفارت خانہ بنا لیتا ہے تو اِ س صورت حال کو خطوہ کہتے ہیں۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے "ولا تتبع خطوات الشیطن"اور شیطان کے خطوات کے پیچھے نہ چلو"یہ خطوہ جب اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو شہوہ کہلاتا ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے"جو شہوہ سے بچ گیا ، وہ فلاح پا گیا"
- جبلت ایک طاقت ہے ، استعداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمائی ہے۔اسے ان تینوں چوروں سے بچانا ہے۔فرمانِ الہیٰ ہے
"اے بنی آدم! شیطان کی پیروی نہ کرو۔میرے عبادت کرو، میرے احکام کی پیروی کرو۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اِس شیطان نے تم میں سے کتنوں کی جبلت بگاڑ دی"
جبلت کی حفاظت آبروئے ملت تعلیمی نظام میں ضروری ہے۔ - جس طرح جبلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خارجی دنیا میں ایک ودیعت فرمائی ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔اسے جبلت کے ساتھ خاص ارتباط حاصل ہے۔سورج ، چاند، ستارے وغیرہ یہ سب فطری مناظر میں شامل ہیں۔اس سے جبلت مضبوط ہوتی ہے چونکہ یہ ہدایت کی نشانی ہوتی ہے۔قرآ ن دو طرح کے ہیں۔ایک وہ جو حضورؐ کےقلبِ اطہر پر نازل ہوا۔ایک قرآن اَثَری ہے۔جس میں تمام فطری مناظر شامل ہیں۔یہ فطرت کو ہدایت پر استوار کرتے ہیں اور فطرت کو ہدایت پر ا ستحکام و انضباط بخشتے ہیں۔ابنِ نجارؒ فرماتے ہیں کہ بچوں کو فطرت آگیں بنائیں تا کہ یہ مناظر اُن کی طبیعت پر اس طرح اثرانداز ہوں جس طرح قرآن نے ان کی افادیت بتائی ہے۔جیسے ستارے سے یہ ملتا ہے ، چاند سے یہ ملتا ہے وغیرہ ۔یہ سب ایک لحاظ سے خدمات ہیں، ہدایت کی آیات ہیں۔
- طبیعت
جب انسان فطری مناظر کو ہدایت پانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو طبیعت کے اندر ایک روحانی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔طبیعت اِن چیزوں سے مانوس ہو کر ہدایت پر جم جاتی ہے - طبیعت کے بعد نفس ہے۔نفس جسم و روح کے ملاپ کے بعد پیدا ہوتا ہے۔یہ قوت و استعداد اور باطنی طاقت ہے۔نفس معرفت کا محل ہے۔جب انسان خُلقی سطح پر، جبلی سطح پر، فطری سطح پر، طبعی سطح پر صحیح راستے پر گامزن ہوتا ہے تو نفس کے اندر خود بخود معرفت پیدا ہوتی ہے۔اس طرح انسان کا سلوک، فلاح ، رفاع کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔یہ بہترین طریقہء تعلیم ہے جو ابنِ نجار نے اپنے رسالوں میں بیان کیا ہے۔
آیات:
"وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ" ((المجادلۃ11)
ترجمہ: اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء113)
ترجمہ: اورآپؐ کو وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے۔
عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ﴿النجم۵﴾
ترجمہ: اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔
عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ (الرحمٰن 4)
ترجمہ: اسی نے اس کو بولنا سکھایا۔
احادیث:
"یَاعَلِیّ اَلَا اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ"۔
ترجمہ: اے علی کیا میں نے آپ کو سارے رموز و اسرار تالیق نہیں فرمادئیے۔
"یَؤُمُّ القَومَ اَقْرَاُھُمْ لِکِتَابِ اللہِ تعالی'۔
ترجمہ: کتاب اللہ کی قرءت و تعلیم کےلیے افراد کو تالیق کرو۔(حضرت ابوہریرۃرضی اللہ عنہ)
حکمتِ اقبال:
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
اتالیق پر آیاتِ اِلٰہیہ سے استناد
اتالیق ترکی زبان کا لفظ ہے، اردو ادب میں سرپرست ،سردار ،بزرگ، معلم ،استاد ،آخوند، طالب اور آموزگار کے معنوں میں برتا گیا ہے ۔انگریزی میں Tutor, Mentor, preceptor. اس کے کسی حد تک ممکنہ متبادل ہو سکتے ہیں۔ یہ اشرافیہ، سلاطین،ملوک اور امراء کے ہاں تعلیم و تربیت کی سہولت کا سامان تھا اور اس میں ایک شخص کا ایک بچے یا چند بچوں کو تعلیم وسدھانت کا رواج ہوا کرتا تھا ۔یہ انتظام مکتب و مدرسہ کے بجائے مستقر ومحل میں مہیا ہوتا تھا۔ اتالیق کا ایک ترجمہ معلم ،شیخ اور مربی ہے سو ان معانی کے تحت آیاتِ الٰہیہ کا استدراک و انتصار پیشِ خدمت ہے۔
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا(الاسراء24)
ترجمہ: اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما۔
وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (اٰلِ عمران146)
ترجمہ: اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل الله (خدا کے دشمنوں سے) لڑے ہیں تو جو مصبتیں ان پر راہِ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور خدا استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
ان آیات میں والدین ادبی لحاظ سے اتا لیق اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مل کر قتال کرنے والے عسکری طور پر اتالیق کہلائے جا سکتے ہیں ۔
وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ (القصص23)
ترجمہ: اور جب مدین کے پانی (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے (اور اپنے چارپایوں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان کے ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے کھڑی ہیں۔ موسٰی نے (اُن سے) کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے (اپنے چارپایوں کو) لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔
قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ (ھود72)
ترجمہ: اس نے کہا اے ہے میرے بچہ ہوگا؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (یوسف78)
ترجمہ:وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں) تو (اس کو چھوڑ دیجیےاور) اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں۔
ان آیات میں شیخ کا لفظ بزرگ اور کفیل کے معنوں میں بمنزلِ اتالیق منصور و منقول ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ"(المجادلۃ11)
ترجمہ: مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل بیٹھا کرو۔ خدا تم کو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اُٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہوا کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (البقرۃ31)
ترجمہ: اور آدم علیہ السلام کو سب کے سب نام سکھلا دیے، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا،پھر فرمایا مجھے ان کے نام بتائو اگر تم سچے ہو ۔
اَلرَّحْمٰنُۙ(۱)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲الرحمٰن)
ترجمہ: (اللہ تعالیٰ) نہایت مہربان،اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔
الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵العلق)
ترجمہ: جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ، اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا (الکہف65)
ترجمہ: (وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا ۔
وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ (المائدۃ 110)
ترجمہ: اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی۔
وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(الانعام91)
ترجمہ: اور تمھیں وہ علم دیا گیا جو نہ تم نے جانا اور نہ تمھارے باپ دادا نے۔
قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (32البقرۃ)
ترجمہ: انھوں نے کہا تو پاک ہے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر جو تونے ہمیں سکھایا، بے شک تو ہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ (یوسف101)
ترجمہ: اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ دیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے (دنیا سے) اپنی اطاعت (کی حالت) میں اٹھائیو اور (آخرت میں) اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو۔
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (116المائدۃ)
ترجمہ: اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے! عؑیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں، اگر میں نے کہا ہوگا تو تجھ کو اس کا علم ہوگا۔ تو، تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے واﻻ تو ہی ہے۔
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ (النساء113)
ترجمہ: اورآپؐ کو وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے۔
فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (239البقرۃ)
ترجمہ: تو اللہ کو یاد کرو جیسے اس نے تمھیں سکھایا ہے، جو تم نہیں جانتے تھے۔
تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ (المائدۃ4)
ترجمہ: انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے۔
وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِن كُلِّ شَيْءٍ (النمل 16)
ترجمہ: اور کہنے لگے کہ لوگو! ہمیں (خدا کی طرف سے) جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہر چیز عنایت فرمائی گئی ہے۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا (الکہف65)
ترجمہ: (وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا۔
وَعَلَّمْنٰـہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ (الانبیاء80)
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک (طرح) کا لباس(زرہ) بنانا بھی سکھا دیا۔
ذَلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ (یوسف37)
ترجمہ: یہ ان (باتوں) میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے اور روز آخرت سے انکار کرتے ہیں میں ان کا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں۔
وَاٰتٰىہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہ مِمَّا یَشَآءُ (البقرۃ251)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔
عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ﴿النجم۵﴾
ترجمہ: اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔
عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ (الرحمٰن 4)
ترجمہ: اسی نے اس کو بولنا سکھایا۔
علامہ زید گل خٹک صاحب
سورۃ الکوثر
حروف و الفاظ و آیاتِ مبارکہ کے اعتبار سے یہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سب سے مختصر اور مُجَمَّل سورہ ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم میں ایک تسلسل اور تاَمّل ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید کی تفسیر اوّلًا قرآن کے اندر تلاش کرنا ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ یہ تفسیری کلیہ بابُ العلم سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے بتایا ہے۔ اس کے بعد تبیان یعنی فرموداتِ مہبطِ وحی رسول اللہﷺ میں قرآنِ عظیم کی تفسیر تلاش کرنا چونکہ قرآن کے تبیان کا حق صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہے۔ دیگر کا فرض و حق اتِّباعِ رسولﷺ ہے خواہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہی کیوں نہ ہوں۔ تب آثارِ اہل البیت علیہم السلام میں قرآن کی تفسیر سے بہرہ حاصل کرنا بے حد ضروری ہے چونکہ وہ ہی اہل القرآن ہیں اور اُن سے تمسّک کا حکم رسول اللہﷺ نے اہتمام کے ساتھ دیا ہے۔ اعتصام بالکتاب کے لیے تمسّک بالعترۃ لازمی ہے۔ بعد ازاں اقارِبِ رسولﷺ، امّہاتُ المؤمنین علیہم السلام، صحابۂ اکرام رضوان اللہ علیہم اور اخیار و ابرارِاُمّت علیہم الرّحمۃ کے تفسیری افادات سے استفادہ کرنا امّت کےلیے باعثِ رحمت ہے اور تسلسل و تامّل کو انضباط و استحکام فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تفرّق کی صورت پیدا نہیں ہوتی اور اتّحادِفکر کو فروغ ملتا ہے، اتّحادِفکر اتّحادِاُمّت کا وسیلہ ہے۔ بایں ہمہ تدبّرِ قرآن اللہ کا حکم بھی ہے، رسول اللہﷺ کی ترغیب بھی ہے اور قرآن کا حق بھی!
اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر ظاہراً یہ ہے(جس کو تفسیری زبان میں شانِ نزول کہتے ہیں) کہ ایک معاند و حاسد و مخاصمِ اسلام عاص بن وائل نے رسول اللہﷺ کو ابتر کہا، غیرتِ خداوندی کو جلال آگیا اور فرمایا: ہم نے آپﷺ کو الکوثر عطا فرمائی۔ یقینًا الکوثر سے خیرِکثیر، حوضِ کوثر اور حکمت و علم بھی مراد ہیں لیکن اصلًا اس کا مطلب الکوثر الفاطمہ ہے۔ جن کی اپنی اور ان کی عترت کی سیرت نفسِ رسولﷺ کی تجلّی، تطہیر کی آماجگاہ، مودت کا مرکز و محور اور تمسّک کا تقاضا ہے۔ جن کی عترت نے ہر دور میں دینِ متین کی سرپرستی کرکے اعلائے کلمۃ الحق کا عظیم الشّان فریضہ سر انجام دے کر
ضربِ کلیم
حکیم الامتؒ کا اردو مجموعہ کلام ہے۔اس میں رزم اور قیام کے انداز میں دورِ تجدُّد اور دورِ حاضر کے حرص و ظلم ، استحصال و استعمار اور مذموم و نامساعد حالات کے خلاف ملتِ اسلام دنیا کے بیدار مغز لوگوں اور نژادِ نو کو استقامت و عزیمت کی ولولہ انگیز دعوت دی گئی ہے۔اس دعوتِ فکر و عمل کا تناظر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تحریک سے لیا گیا ہے یعنی تلمیح و ترغیبی تمثیل کلیم اللہ کے منظر نامہ سے اٹھائی گئی۔اس تلمیح کی متعدد وجوہات ہیں۔نابغۂ فکریاتِ اسلامی حضرت اقبالؒ جانتے ہیں کہ دورِ حاضر اور موسی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور کے حالات میں کیا مماثلت ہے۔وہاں بھی غلامی درپیش تھی ۔فرعون نے انسانوں کو مشارق و مغارب الارض میں غلام بنا رکھا تھا۔ظلم اور استحصال کا بازار گرم تھا۔دورِ حاضر میں بھی انسانیت استعمار کے پنجۂ خونیں میں سسک رہی ہے۔وہاں بھی حکیمی کام نہیں آئی، کلیمی کام آئی:-
ایں کارے حکیمے نیست دامانِ کلیمےگیر
صد بندۂ ساحل مست یک بندۂ دریا مست
دوسری علت یہ ہے کہ موسیٰؑ کو اہلِ مذاہب مانتے ہیں۔دورِ حاضر میں استعماری روپ دھارنے والے یہود و نصاری بھی ان کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور بے بس امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو اللہ کا اولی العزم رسول مانتی ہے۔گو یہود و نصاری شرک کی آلائش سے آلودہ ہیں اور اہلِ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شیوہ تمام تر خرابیوں کے باوجود آج بھی توحید ہے۔
نکتہ سنج خاوراں ، پیر اشراق حضرت اقبالؒ ایسا عبقری اور قرآن کا تلمیذ عمیق فکر جانتا ہے کہ قرآن میں سب سے زیادہ ذکر موسیٰ کی قوم بنو اسرائیل کا ہوا ہے۔قوم وملت کو سخت حالات سے نکل کر ابھرنے میں ان تفصیلات میں نجات اورحریت و خوشحالی کا راز پنہاں ہے۔
ضربِ کلیم حضرتِ والاتبار اقبالؒ کی طبع زاد ترکیب ہے۔اس سے پہلے فارسی ادب میں عصائے موسوی کی ترکیب استعمال ہوتی تھی ۔عصائے موسوی میں معجزہ کا تصور تو آ جاتا ہے لیکن عمل اورتحریک کا نہیں۔لہذا جدید اصطلاح کی ضرورت تھی اور اس مجددِ عصر نے وہ اصطلاح فراہم کر دی:
ضرب ِکلیم
چنانچہ یہ اصطلاح بتا رہی ہے کہ دنیا کی سعادت ارشادِ نبوت، حکمت، عصا، کلیمی اور باطل پر ضربت میں پوشیدہ ہے۔اس طرح نہایت قابلِ توجہ اور وسیع تناظر کےجلو میں یہ مجموعۂ کلام شہود کرتا ہے۔
علامہ زید گل خٹک