Super User
نِظامت( باطن کا تزکیہ ظاہر کا رویّہ)
تربیتی موضوع میں یہ خاص ہے کہ باطن کا تزکیہ کس طرح کرنا ہے باطن میں سب کچھ موجود ہے مثلًا عقل ہے تو عقل کو راستگی یعنی طالبِ علم کی تربیت ایسے کرنا کہ اس کا عقلی جوہر مائل براستگی ہو جائے۔ عقل ترقی کرکےراست بنتا ہے پھرخرد پھر نہایہ پھر حکمت پھربصیرت
یہ عقل کے پانچ مدارج ہیں جب ایک طالبِ علم ان مدارج سے گزر تا ہے پھر اس کی وہی کیفیت ہوتی ہے جو حکیم الامّت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے:
عطا اسلاف کا جذبِ دُروں کر
شریکِ زمرۂ ’لَا یحْزَنُوْں‘ کر
خرد کی گُتھّیاں سُلجھا چُکا مَیں
مرے مَولا مجھے صاحِب جُنوں کر!
عقل کے بعد نفس ہے نفس کی معرفت حاصل کرنا، نفس کو ہم نے مطلق استعمال کرکے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ نفس بری چیز کا نام ہے لیکن وہ نفسِ امارا ہے جو انسان کی غلطی کی وجہ سے پیدا ہوتا
تراکیبِ حکیم الامتؒ
بندۂ تخمین و ظن! کِرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حِجاب
مفہوم: اس شعر میں حکیم الامتؒ ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو مطالعاتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔آپ فرماتے ہیں " کتابِ الہیٰ پڑھ کر قیاس و گمان میں الجھنے والے اے شخص! کرمِ کتابی بننے کے بجائے جو کچھ پڑھ کر سیکھا ہے اُس پر عمل کر تا کہ عشق کے اسرار کھُل سکیں ۔علم حاصل کرنے کے بعد جب تک اُس پر عمل نہ کیا جائے خدا کی ذات اور بندے کے مابین پردے حائل رہتےہیں اور وہ ربِ کائنات کی ذات کے جلوؤں سے محروم رہتا ہے۔علم کے بعد عمل ہی وہ راستہ ہے جو عشق کی منزل تک پہنچاتا ہے جہاں سے انسان کی بصارت مقصد ِ حیات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
کِرمِ کتابی اور کِرمکِ کتابی دونوں طرح سے اس ترکیب کو پڑھا جا سکتا ہے۔کرمک ایک کیڑا ہے جو کتابوں کو لگتا ہے اور دیگر اشیاء پر بھی۔ہم عام طور پر دیمک کو کرمک سمجھتے ہیں مگر دونوں میں فرق ہے۔فارس کے علماء کرمک اُس کیڑے کو کہتے ہیں جو کتاب کو لگتا ہے۔"کرمکِ کتابی "حکیم الامت ؒکی ترکیب ہے اور یہ ترکیب بہت تادّب لیے ہوئے ہے۔ اس میں اُن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو کتاب سے تعلق رکھتے ہیں، پڑھتے ہیں ، مطالعہ کرتے ہیں اور اُن کے پاس اخبار و آثار و علم کے انبار جمع ہوتے رہتے ہیں۔لیکن وہ آثار و اخبار اُن کے وجود میں تلاطم پیدا نہیں کرتے۔اُ نکے وجود کے تزکیہ کا باعث نہیں بنتے۔اُن کے وجود سے رجس کو خارج نہیں کرتے۔اس لیے آپ فرماتے ہیں کہ" کرمکِ کتابی" نہ بن۔ یہ دراصل قرآن و سنت کا حکم ہے جس کو علامہ نے شعر کے پردے میں مؤدبانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اصل تصور کتابِ الہیٰ کا ہے۔مثلا یہود کے علما کے بارے میں کہا گیا :
"كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا" ترجمہ: ان کی مثال ایسی ہے جس طرح گدھا کتابیں اٹھاتا ہے۔
بے شک اس کے اوپر کتابوں کا انبار ہے لیکن کتابوں کے انبار کو اپنے اوپر لادنے سے گدھے اور خچر کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اسی طرح فرمایا "كَمَثَلِ الْکَلْبِ" ان کی مثال اُس کلب(کُتّے) کی سی ہے کہ
تراکیبِ اقبالؒ
تراکیبِ اقبالؒ کو بالفاظِ دیگر ہم مصطلحات ِ حکیم الامت بھی کہہ سکتے ہیں۔ترکیب قواعد کی رو سے دو الفاظ یعنی مفردات کے مجموعہ کو کہتے ہیں۔تراکیب کی اقسام گو زیادہ ہیں لیکن مرکبِ توصیفی، مرکب عطفی اور مرکبِ اضافی زیادہ معروف اور مستعمل ہیں۔حکیم الامتؒ کی اختیار کردہ تراکیب کو تعلق بیک وقت قواعد ِلسان سے بھی ہے اور مجازِ مرسل و بحور و عروض سے بھی ہے۔
۔۔۔۔
بالِ جبریل
اس مجموعۂ کلام کا پہلا نام حضرت نے "نشانِ منزل" رکھا تھا لیکن مضامین استقرائی ، ارتقائی ہونے کے ساتھ ساتھ عرفانی بھی آ گئے ۔اس لیے عنوان"بالِ جبریل" ٹھہرا۔بال سے "پر" اور "پرواز" دونوں مراد
ہیں۔جبریل رئیس الملائیکہ کا نامِ نامی ہے۔جبریل عبرانی زبان کا لفظ ہے۔جبرا + ایل یعنی اللہ کا قوی بندہ ۔جبرائیل کو اللہ نے قرآن مجید میں اِن القاب سے ذکر فرمایا ہے۔
1) روح ُالامین
2) روح ُ القدس
3) ذی قوۃ عند ذی العرش ِ مکین
4) رسولِِ کریم
5) عَبد ِمُکَرَّم
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: آسمانوں میں میرے دو وزیر ہیں"جبریل و میکال"
تحریر: پروفیسر علامہ زید گل خٹک
خلافت ِ ربّانی
خلافت ارضی کا اصولی تصور صفاتِ الٰہیہ کی پیروی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: "خَلَقَ اللہ اٰدَم علی خُلقہ " ایک اور موقع پر سرورِ کائناتﷺنے بتایا:"خَلَقَ اللہ اٰدَم عَلی صُورَتِہ" کہ اللہ نے ذریتہِ اٰدم ؑ کو اپنی سیرت کی پیروی کرنے کا جبلی، طبعی اور فطری سلیقہ عطا فرمایا ہے۔ حضورِاکرمؐ ارشادفرماتےہیں "تخلقوا باخلاق اللہ " اللہ کے اخلاق اختیار کرو" اَللہُ جَمِیلٌ وَیُحِبُّ الجمالَ" اللہ جمیل ہے اور جمال آفرین رویہ پسند کرتا ہے ۔اللہ الوِترو یُحِبّ الوِتَر" اللہ یکتا ہے اور اتحاد اور یگانگت کو پسند کرتا ہے۔یہ فلسفہ حیات احادیث ِمبارکہ کے ساتھ ساتھ تنزیل میں نہایت اہتمام کے ساتھ بیان ہُوا ہے ۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے" صِبغَۃَ اللہ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَةً "اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ سے حسین رنگ اور کس کا ہے۔حکیم الامّۃنے اس دلآ ویز اور سرمدی فلسفہءِخلافت کو نہایت شِکُوہ کے ساتھ بیان کیا ہے:
خویش را صبغۃ اللہ رنگ دہ
عشق را نا موس ونام وننگ دہ
رسول اللہ ﷺ کے مبارک صفاتی ناموں سے اقدارِ اسوہءِ حسنہ کا استخراج و استنباط
قال علیہ السلام" اللہ معطی و انّما انا محمد قاسم
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے اور میں محمد(ﷺ)اللہ کے اذن سے تقسیم کرنے والا ہوں(اسانید و جوامع)
نوٹ: اساتذہ اور والدین کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے صفاتی ناموں کو خود بھی پڑھیں ،سمجھیں ،ان کے مطابق اپنے اندر یہ اعلیٰ اقدار پیدا کریں اور ساتھ اپنے طلباء اور بچوں میں بھی یہ نمایاں اوصاف کریں۔اگر ہم اسوہِ حسنہ کی ان اوصاف پر ہی عمل پیرا ہوجائیں تو یہی صراطِ مستقیم ہے جس کا ذکر ہم ہر نماز میں دہراتے ہیں
حدیث سند اور متن
سلسلۃ الذھب۔۔حدیث ،متن اور سند۔