Surahs (4)
Quran Surahs
سورۃ الکوثر
حروف و الفاظ و آیاتِ مبارکہ کے اعتبار سے یہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی سب سے مختصر اور مُجَمَّل سورہ ہے۔ کتاب اللہ کی تفہیم میں ایک تسلسل اور تاَمّل ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید کی تفسیر اوّلًا قرآن کے اندر تلاش کرنا ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ یہ تفسیری کلیہ بابُ العلم سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے بتایا ہے۔ اس کے بعد تبیان یعنی فرموداتِ مہبطِ وحی رسول اللہﷺ میں قرآنِ عظیم کی تفسیر تلاش کرنا چونکہ قرآن کے تبیان کا حق صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہے۔ دیگر کا فرض و حق اتِّباعِ رسولﷺ ہے خواہ وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہی کیوں نہ ہوں۔ تب آثارِ اہل البیت علیہم السلام میں قرآن کی تفسیر سے بہرہ حاصل کرنا بے حد ضروری ہے چونکہ وہ ہی اہل القرآن ہیں اور اُن سے تمسّک کا حکم رسول اللہﷺ نے اہتمام کے ساتھ دیا ہے۔ اعتصام بالکتاب کے لیے تمسّک بالعترۃ لازمی ہے۔ بعد ازاں اقارِبِ رسولﷺ، امّہاتُ المؤمنین علیہم السلام، صحابۂ اکرام رضوان اللہ علیہم اور اخیار و ابرارِاُمّت علیہم الرّحمۃ کے تفسیری افادات سے استفادہ کرنا امّت کےلیے باعثِ رحمت ہے اور تسلسل و تامّل کو انضباط و استحکام فراہم کرتا ہے۔ اس طرح تفرّق کی صورت پیدا نہیں ہوتی اور اتّحادِفکر کو فروغ ملتا ہے، اتّحادِفکر اتّحادِاُمّت کا وسیلہ ہے۔ بایں ہمہ تدبّرِ قرآن اللہ کا حکم بھی ہے، رسول اللہﷺ کی ترغیب بھی ہے اور قرآن کا حق بھی!
اس سورۂ مبارکہ کا پسِ منظر ظاہراً یہ ہے(جس کو تفسیری زبان میں شانِ نزول کہتے ہیں) کہ ایک معاند و حاسد و مخاصمِ اسلام عاص بن وائل نے رسول اللہﷺ کو ابتر کہا، غیرتِ خداوندی کو جلال آگیا اور فرمایا: ہم نے آپﷺ کو الکوثر عطا فرمائی۔ یقینًا الکوثر سے خیرِکثیر، حوضِ کوثر اور حکمت و علم بھی مراد ہیں لیکن اصلًا اس کا مطلب الکوثر الفاطمہ ہے۔ جن کی اپنی اور ان کی عترت کی سیرت نفسِ رسولﷺ کی تجلّی، تطہیر کی آماجگاہ، مودت کا مرکز و محور اور تمسّک کا تقاضا ہے۔ جن کی عترت نے ہر دور میں دینِ متین کی سرپرستی کرکے اعلائے کلمۃ الحق کا عظیم الشّان فریضہ سر انجام دے کر
سورۂ فاتحہ
سورۂ فاتحہ ، فاتحۃ الکتاب ہے۔ یہ سورہ اللہ کا خاص عطیہ ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل و توسط سے سارے عباد کے لیے!
اس سورہ کا آغاز حمد سے ہوتا ہے، رب العالمین کی تعریف و توصیف سے! اصلا تعریف تو صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔وہ حقیقی معروف و موصوف ہے۔خالق و مالک صرف وہ ہی ہے۔مخلوق اُس خالقِ حقیقی کے ارادے کا ظہور ہے۔مخلوقات کی حیثیت اعتباری،امکانی، خَلقی اور خُلقی ہے۔وہ عالمین یعنی عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی کا رب ہے۔رب سے مراد خالق و پالن ہار سب کچھ ہے۔مخلوقات میں انسان کو مرکزی و محوری حیثیت حاصل ہے۔وہ اللہ کا خلیفہ اور مخدوم ِ خلائق ہے۔انسان اپنے رب کی معرفت کا مستجب بھی ہے او ر سزاوار بھی!
رب العالمین انسان کو باور کرا رہا ہے کہ اس کو ہر آن اور ہر مکان رب مانواور جانو۔کل محشر کے دن اُس محبوبِ حقانی کے حضور حاضر ہو گے۔انسان کو سلیقہ سکھایا گیا کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرے، اس کی معرفت کا جویاں رہے، اُس کے نور کامتلاشی اور شیدا رہے۔اسی ربِ جلیل سے استمداد و استعانت چاہے۔اُس کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط اور محکم کر لے۔اسی سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگے۔صراطِ مستقیم جو رب العالمین کا مشخص، منتخب اور محبوب راستہ ہے۔یہ راستہ فخرِ موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات، رحمت للعالمین، خاتم الانبیا و المرسلین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے ۔تمام انبیاء ِ اکرام و مرسلین ِ عظام علیھم السلام کا ، صدیقین، شہداء اور صالحین کا راستہ ہے یعنی منعم علیھم کا راستہ ہے۔مغضوب و ضالین کے راستہ سے درکنار رہنا ہے جن کی شقاوت کی وجہ سے وہ اللہ رب العالمین کی رحمت سے محروم ہوئے، مغضوب ٹھہرے اور نتیجتا ضلالت میں مبتلا ہو کر اللہ کی رحمت و ہدایت و معرفت سے محروم ہوئے۔بس یوں سمجھ لیں کہ الفاتحہ دعا ہے اور اس کی قبولیت کا ثمر نسخہء کیمیا قرآنِ مجید ہے۔
علامہ زید گل خٹک

معراج النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم
by Prof Zaid Gul Khattak Link download by Prof Zaid Gul Khattak Link download
ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان
by Prof Zaid Gul Khattak Link download
From The Blog
-
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت از زہر اندر کام ریخت
جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے حلق میں زہر انڈیل دیا۔
پھر حضرتِ اقبال تاریخ کی طرف جاتے ہیں ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان اظہار پسند ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال کو سمو کے رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں حزب الشیطان کے ایک سرکش کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے ۔
قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا
فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ
-
پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے ح کُن
اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے
Support us to spread the love n light
Your contribution can make the difference - Get involved
Upcoming Events
Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم