اسماء ، ذات اور صفا ت
اللہ کے اسماءِ حُسنی میں مَجمعُ البحار اسمِ رحمان ہے۔ تمام صفات واسماءِالہٰیہ رحمان کی وسعتوں میں یکجا اور جلوہ فرما
خْلقِ محمدی
مخلوقات میں خلقتِ انسانی  کو اللہ  تبارک و تعالی نے خْلق کی وجہ سے امتیاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔ خْلق  چند ایک افعال 
فردِملّت -١١
فردِملّت -11 تحریر : پروفیسر علامہ زید گل خٹک بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے حکیم

مومن از عشق است و عشق از مومن است
Featured

27 December 2021
(0 votes)
Author :  

 

ہر کہ پیمان با ھو الموجود  بست

             گردنش از بند ہر معبود رست

ہر وہ شخص جو ھوالموجود  سے پیمان باند چکا ہو  ۔ بڑا ضروری جملہ ہے،  ھوالموجود  سے پیماں ۔ ایک تو ھوالموجود رب جلیل نے خود پیمان باندھا ہے ۔ عالم میثاق میں ہم سے عہد لئے ہیں۔ عالمِ مثال میں اپنا دیدار کرایا ہے  ۔ پیمان باندھے ہیں۔ ایک یہ تو اللہ کی طرف سے ہے  ۔ ایک بندے کی طرف سے ہے  کہ وہ بندا  جو اللہ کو موجود سمجھے  یعنی جو زندگی  کی حقیقت پر نظر رکھے۔ زندگی  کی حقیقت،  کہ دنیا میں کتنا کچھ ہے یہ فنا آشنہ ہے اور دنیا میں کتنا کچھ ہے یہ اعتبار ہے ، یہ امکان ہے  ، یہ مجاز ہے یہ کبھی نہیں تھا  ۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارادے کا ظہور ہے ۔ یہ کن  کے بعد فیکون کا عمل ہے  جو معنوی تراتیب  میں مترتب  ہوتا رہا  اور پھر اس نے ما دہ میں بھی ظہور کیا  ۔ ان تمام اعترابات، امکانات و مجازات  میں محوری  جو اعتبار ہے  وہ اعتبارِ انسانی ہے  ، حضرتِ انسان جو اللہ کا خلیفہ ہے  جس کو رب جلیل نے توفیقی اختیار سے نوازہ  ہے۔ اس کے وجود میں ہدایت  ۔ اس کے خارج میں ہدایت  ۔پھر اتمام ِ  حجت  ، رسالت و نبوت کی صورت میں  نزولِ صحائف و کتب کی صورت میں اس پر اتماِ م ِ حجت ۔ یہ  انسان ان تما م اعتبارات و  مجازات و  امکانات  یعنی مخلوقات  میں محور  ی حیثیت رکھتا ہے  لیکن  یہ تمام کا تمام  اعتبار ہے، کبھی یہ نہیں تھا  ۔ تو الموجود صرف وہ ہے، ھوالموجود  ، وہ موجود ہے  ۔ اب وہ ہستی جو  ھوالموجود  سے پیمان باندھ چکا ہے اور  باقی چیزوں کو  اعتبار و امکان سمجھتا ہے وہ زندگی کا حقیقی شعور  رکھتا ہے لہذا وہ کبھی شرک کا شکار نہیں ہوتا۔ کبھی اس پر خوف مثلت نہیں ہوتا۔ کبھی اُس پر غیر مثلت نہیں ہوتا چونکہ وہ غیر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ گردنش از بنِد ہر معبود رست۔ وہ کسی اور کو معبود کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ اور کسی اور کے آگے اُس کی گردن  نہیں جہک سکتی  چونکہ وہ جانتا ہے  کہ لا اله الا الله کا مطلب ہے  لا موجود ُ الا الله۔ بہت ہی جاندار آغاز کیا ہے  حضرتِ اقبال نے  اپنی اس نظم کا  اور  اسلامی اعتقاد کا گہرا شعور دیا ہے۔

مومن از عشق است و عشق از مومن است

عشق رانا ممکن ما مکن است

"مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہر ناممکن ، ممکن ہو جاتا ہے"

مومن از عشق است ۔مومن عشقِ الٰہی سے عبارت ہے  اور پھر مومن سے عشق الٰہی عبارت ہے ۔ ایسا جو مومن ہے جو عشق سے عبارت ہو اور عشق اُس سے عبارت ہو ،وہ اللہ سے قوت پکڑتا  اور اللہ کا دین اُس سے محفوظ ہو  ۔ عشق رانا ممکن ِمام مکن است۔ اگر کوئی عشق یافتہ ہو تو  اُس کے لئے  کوئی  چیز ناممکن  نہیں ہے  ، اُس کے لئے ناممکن ممکن ہے  ۔

عقل سفاک است و اُو سفاک تر 

پاک تر چالاک تر بیباک تر

"عقل سفاک ہے مگر عشق زیادہ سفاک ہے ۔ زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے"

حکیم الامت نے سفاک کو زو معنی  الفاظ میں استعمال کیا۔ سفاک کا ایک مطلب غالب بھی ہوتا ہے   "عقل سفاک است" عقل ایک حد تک غالب ہے لیکن جبر کے ساتھ     Coercively و اُو سفاک تر ۔ اور عشق جو ہے وہ سفاک تر، اُس کو کمال کا غذبہ حاصل ہے  وہ عالمِ ناسوت میں بھی کار فرما ہے  مثال میں بھی  ، میثاق میں بھی ملکوت میں بھی ، جبروت میں بھی فیکون کے تمام مراحل میں عشق کا غلبہ ہے۔ عقل تو اُس کے سامنے ایک جزو ہے۔

پاک تر چالاک تر بیباک تر ، عشق عجب ہے ۔ سب سے پہلے تو وہ پاک ہے  وہ عقل کی طرح نہیں ہے  کہ عقل اگر ناراستی کی طرف آجائے،   ایک تو عقلِ راست ہے، عقلِ راست عشق کا وزیر ہے ۔لیکن ایک عقلِ ناراست ہے وہ عشق سے بغاوت کرتا ہے وہ باغی ہے ۔ وہ جو باغی عقل ہے  اس کی سر شت نا پاقی ہے  حرص ہے حوص ہے ، دغہ ہے ، منافقت ہے  وغیرہ وغیرہ اور عشق کی خصوصیت کیا ہے ، وہ پاک ہے ، وہ طیب ہے ، اُس کے پاس رجس نہیں آسکتا رُجز نہیں آسکتا۔ چالاک تر، باتدبیر ہے۔ بیباک تر۔ بے خوٖ ف ہے ۔

عقل در پیچاک اسباب و علل

عشق چوگان باز میدان عمل

عقل اسباب و علل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدانِ عمل کا  کھلاڑی ہے۔

"عقل در پیچاک اسباب و علل"۔  عقلِ ناراست  اسباب و علل پر یقین رکھتی ہے ، سبب ہیں ذرائع ہیں  ، وسائل ہیں  تو پھر سب کچھ کر رہے ہیں  ۔ " عشق چوگان باز میدان عمل  "۔ عشق اسباب پر بھروسہ نہیں کرتا۔ عشق مسبب السباب سے تعلق رکھتا ہے اور میدان ِ عمل میں سینہ سپر ہوتا ہے  ۔

عقل صید از زور بازو افکند

عقل مکار است و دامی میزند

"عقل قوتِ بازو سے شکار کرتا ہے جبکی عقل مکار ہے اور جال بچھاتی ہے "

عقل را سرمایا از بیم و شک است 

عشق را عزم و یقین لاینفک است                                 

عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکی عشق کے لیے  عزم و یقین لازم و مزوم ہیں۔

عقل کا سرمایا بیم و شک ہے ، گو مگوں کی کیفیت ہے، اسطرار ہے ، اسطراب ہے ، بے یقینی ہے ، خلجان ہے ۔

عقل را سرمایا از بیم و شک است    عشق را عزم و یقین لاینفک است   ،عشق  کا سرمایا  عزم و یقین ہے ، لا ینفک، اور وہ ٹوٹنے والا نہیں ہے ، حالات اُس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ انسان کا حوصلہ  ، عشق کا عظم  حالات کا دھارا بدل دیتا ہے ۔

آن کند تعمیر تا ویراں کند 

این کند ویران کہ آبادان کند

"  عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں بھی تعمیر چھپی ہوئی ہے "

وہ جو عقل ہے وہ ویرانی پیدا کرتا ہے اور عشق آبادی پیدا کرتا ہے  

عقل چوں باد است ارزان در جہان 
عشق کمیاب و بہای او گران

" عقل ہواکی طرح دنیا میں ارزاں ہے جبکہ عشق کمیاب اور بیش قیمت ہے ۔

عقل باد کی طرح ہوا کی طرح پورے جہاں میں دستیاب ہے  ۔ عشق کمیاب و بہای او گران، عشق کم ہےارزاں ہے ، منفرد ہے  ، مخصوص ہے ، خاص ہے ، خاص الخاص ہے  اور اُس کی بہا بہت زیادہ ہے  ۔

عقل محکم  از اساس چون و چند

عشق عریاں  از لباس چون و چند

" عقل  کیوں اور کتنا کی بنیاد پر محکم ہوتی ہے جبکہ عشق اس لباس سے بے پرواہ ہے۔

عقل محکم  از اساس چون و چند  ، عقل دلائل سے،تعبیر  سے، تاویل سے ، مجادلہ سے ، چون و چند سے، گوں مگوں سے، یہ ہونا چاہئے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ عقل کی بنیاد بس اس اظراب  پر ہے۔

عشق عریاں  از لباس چون و چند    عشق چون و چند سے بے نیاز ہے۔ وہ مسبب السباب سے  تمسق رکھتا ہے۔

عقل می گوید کہ خود را پیش کن 

عشق می گوید امتحان خویش کن

"عقل کہتی ہے کہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھو۔ عشق کہتا ہے کہ خود کو امتحان میں ڈالو۔

عقل کا کہنا ہے کہ خود را پیش کُن  کہ اپنے آپ کو پیش کرو، اور اپنی پیشگی کو مظبوط بناؤ ۔ عشق می گوید امتحا ن خویش کن ، عشق کہتا ہے نہیں اپنا امتحان کرو  کہ عشق سے با مراد ہو کہ نہیں ہو  ۔

عقل باغیر آشنا از اکتساب

 عشق از فضل است و باخود در حساب

عقل فائدے نقصان کا حساب کتاب کر کے دوسروں  سے آشنائی  پیدا کرتی ہے اور عشق اللہ کے فضل پر بھروسہ  کرتا ہے اور اپنا حساب کتاب خود کرتا ہے۔

عقل با غیر آشنا از اکتساب، عقل اکتساب کے راستے میں ، دریافتوں کے راستے میں ، اپنی ڈسکوری میں  ، ایجاد میں  کبھی اصل حقیقت سے منحرف بھی ہو جاتی ہے اگر عقلِ راست نہ ہو تو۔

عشق از فضل است و با خود در حساب عشق اللہ کا فضل  ہے اور  اللہ ذولفضل عظیم ہے اور عشق اپنا احتساب کرتا ہے  جو نوالہ میسر ہے عشق اُس کو بھی دیکھتا ہے کہ حلال ہے کہ نہیں ہے۔ جو منصب میسر ہے اُس کو بھی دیکھتا ہے کہ جو منصب کے تقاضے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں کہ نہیں۔

عقل گوید شاد شو آباد شو

عشق گوید بندہ شو آزاد شو

عقل کہتی ہے کہ خوش رہو اور آباد رہو۔ عشق کہتا ہے کہ اللہ کی غلامی اختیار کرو اور آزاد ہو جاؤ۔

عقل کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا کی خوشی حاصل کرو اور یہی بس انتہا ہے عشق گوید بندہ شوآزاد شو۔ عشق کا فرمان یہ ہے کہ اللہ کے بندے ہو جاؤ اور حریت اختیار کرو۔

عشق را آرام جان حریت است

ناقہ اش را ساربان حریت است

" عشق کے لئے آزادی میں  روح کا سکون ہے ۔ اُس کے ناقہ کی  ساربان آزادی ہے۔

عشق را آرام جان حریت است۔ عشق آرام ِ جاں حریت ہے  ۔ اللہ کی عبدیت اور عبودیت۔ ناقہ اش را ساربان حریت است۔ یہ قافلے کا ساریبان ہے۔عشق قافلے اسلام کا ساریبان ہے اور اس کی متاع حریت ہے۔

 

3186 Views
Login to post comments
 Professor Allama Zaid Gul Khattak is a renowned Islamic scholar from Pakistan. He has been associated with Voice of America’s (VOA) program Dewa Radio for about ten years where most of the topics with respect to Tasawuf were debated including the life history of about five hundred Sufis from the
Professor Zaid Gul Khattak gave lectures on  VoA ( Urdu) Voice of America Channel for 12 years on subjects like seerat, Hadith , Tassawuf , Poetry and Iqbaliyat 
  • Prev
حکیم الامتؒ کا اظہاریہ اور بیانیہ شعر ہے لیکن خبریہ اور انشائیہ بہت عالمانہ اور محققانہ ہے۔ آپؒ الہامی اور کسبی تاریخ کا بےپناہ مطالعہ اور عبقری مشاہدہ رکھتے ہیں۔ اللہ جلّ شانہ کا ارادہ پہلے تعیّنِ
  • Prev

                                                      
 






معراج  النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم 

 

by Prof Zaid Gul Khattak  Link download                           by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

ولادت حضرت عیسی ' ابن مریم علیہ السلام اور مسلمان


by Prof Zaid Gul Khattak  Link download

From The Blog

  • چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت

    حریت از زہر اندر کام ریخت

    جب خلافت نے قرآن سے اپنا رشتہ توڑ لیا تو اس نے آزادی کے  حلق میں زہر انڈیل دیا۔

    پھر حضرتِ اقبال  تاریخ کی طرف جاتے ہیں  ۔ امتدادِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں  مرور ِ زمانہ کی طرف جاتے ہیں یہ عظیم الشان  اظہار پسند  ایک شعر میں تاریخ کے حال و ماضی و استقبال  کو سمو کے  رکھ دیتا ہے۔ کہ وہ جو حق تھا  بظاہر قلت کے ساتھ رونما ہوا تھا  و قلیل من عبادی الشکور یہی تو حق کی پہچان ہے حضرت ِ طالوت ؑ کی قیادت میں  حزب الشیطان کے ایک سرکش  کے مقابلے میں جب حق آراستہ ہوا تو قرآن میں کیا آتا ہے  ۔

    قرآن ِ عظیم میں رب جلیل کا ارشاد ہے  کہ اُن میں سے کچھ نے فرمایا

    فِئَةٍ قَلِيْلَـةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْـرَةً بِاِذْنِ اللّـٰهِ

  • پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد
    پیشِ پیغمبر چو کعبِ پاک زاد


    کعب بن زہیرہ عرب کا مشہور شاعر تھا۔ لُردانِ کفر کے حرص آمیز بہکاوے میں آکر کعب ہجویہ شاعری کرتا تھا اور آقا و مولیٰ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں شتم کا ارتکاب کرتا تھا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر موہوم خوف کے تحت طائف کی طرف فرار اختیار کر رہا تھا کہ راستے  ح کُن
    اقدس بخشش فرمائی۔امر پیش آیا۔ ناقہ کا رُخ موڑ کر کعب بن زہیر دربارِ عفوِ بے کنار کی طرف واپس پلٹا۔ واپسی کے سفرِ ندامت میں قصیدہ بانت سعاد منظوم کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت کی۔ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف معاف کیا بلکہ بطورِ خلعتِ فاخرہ اپنی ردائے 

Support us to spread the love n light

Your contribution can make the difference - Get involved

Upcoming Events

Coming soon فصوص الحکم و خصوص الکلم

Top
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…