"مومن عشق سے ہے اور عشق مومن سے ہے۔ عشق کے لیے ہر ناممکن ، ممکن ہو جاتا ہے"
مومن از عشق است ۔مومن عشقِ الٰہی سے عبارت ہے اور پھر مومن سے عشق الٰہی عبارت ہے ۔ ایسا جو مومن ہے جو عشق سے عبارت ہو اور عشق اُس سے عبارت ہو ،وہ اللہ سے قوت پکڑتا اور اللہ کا دین اُس سے محفوظ ہو ۔ عشق رانا ممکن ِمام مکن است۔ اگر کوئی عشق یافتہ ہو تو اُس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے ، اُس کے لئے ناممکن ممکن ہے ۔
عقل سفاک است و اُو سفاک تر
پاک تر چالاک تر بیباک تر
"عقل سفاک ہے مگر عشق زیادہ سفاک ہے ۔ زیادہ چالاک اور زیادہ بیباک ہے"
حکیم الامت نے سفاک کو زو معنی الفاظ میں استعمال کیا۔ سفاک کا ایک مطلب غالب بھی ہوتا ہے "عقل سفاک است" عقل ایک حد تک غالب ہے لیکن جبر کے ساتھ Coercively و اُو سفاک تر ۔ اور عشق جو ہے وہ سفاک تر، اُس کو کمال کا غذبہ حاصل ہے وہ عالمِ ناسوت میں بھی کار فرما ہے مثال میں بھی ، میثاق میں بھی ملکوت میں بھی ، جبروت میں بھی فیکون کے تمام مراحل میں عشق کا غلبہ ہے۔ عقل تو اُس کے سامنے ایک جزو ہے۔
پاک تر چالاک تر بیباک تر ، عشق عجب ہے ۔ سب سے پہلے تو وہ پاک ہے وہ عقل کی طرح نہیں ہے کہ عقل اگر ناراستی کی طرف آجائے، ایک تو عقلِ راست ہے، عقلِ راست عشق کا وزیر ہے ۔لیکن ایک عقلِ ناراست ہے وہ عشق سے بغاوت کرتا ہے وہ باغی ہے ۔ وہ جو باغی عقل ہے اس کی سر شت نا پاقی ہے حرص ہے حوص ہے ، دغہ ہے ، منافقت ہے وغیرہ وغیرہ اور عشق کی خصوصیت کیا ہے ، وہ پاک ہے ، وہ طیب ہے ، اُس کے پاس رجس نہیں آسکتا رُجز نہیں آسکتا۔ چالاک تر، باتدبیر ہے۔ بیباک تر۔ بے خوٖ ف ہے ۔
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگان باز میدان عمل
عقل اسباب و علل کے چکر میں پڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدانِ عمل کا کھلاڑی ہے۔
"عقل در پیچاک اسباب و علل"۔ عقلِ ناراست اسباب و علل پر یقین رکھتی ہے ، سبب ہیں ذرائع ہیں ، وسائل ہیں تو پھر سب کچھ کر رہے ہیں ۔ " عشق چوگان باز میدان عمل "۔ عشق اسباب پر بھروسہ نہیں کرتا۔ عشق مسبب السباب سے تعلق رکھتا ہے اور میدان ِ عمل میں سینہ سپر ہوتا ہے ۔
عقل صید از زور بازو افکند
عقل مکار است و دامی میزند
"عقل قوتِ بازو سے شکار کرتا ہے جبکی عقل مکار ہے اور جال بچھاتی ہے "
عقل را سرمایا از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لاینفک است
عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکی عشق کے لیے عزم و یقین لازم و مزوم ہیں۔
عقل کا سرمایا بیم و شک ہے ، گو مگوں کی کیفیت ہے، اسطرار ہے ، اسطراب ہے ، بے یقینی ہے ، خلجان ہے ۔
عقل را سرمایا از بیم و شک است عشق را عزم و یقین لاینفک است ،عشق کا سرمایا عزم و یقین ہے ، لا ینفک، اور وہ ٹوٹنے والا نہیں ہے ، حالات اُس پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ انسان کا حوصلہ ، عشق کا عظم حالات کا دھارا بدل دیتا ہے ۔
آن کند تعمیر تا ویراں کند
این کند ویران کہ آبادان کند
" عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے اور عشق کی ویرانی میں بھی تعمیر چھپی ہوئی ہے "
وہ جو عقل ہے وہ ویرانی پیدا کرتا ہے اور عشق آبادی پیدا کرتا ہے
عقل چوں باد است ارزان در جہان
عشق کمیاب و بہای او گران
" عقل ہواکی طرح دنیا میں ارزاں ہے جبکہ عشق کمیاب اور بیش قیمت ہے ۔
عقل باد کی طرح ہوا کی طرح پورے جہاں میں دستیاب ہے ۔ عشق کمیاب و بہای او گران، عشق کم ہےارزاں ہے ، منفرد ہے ، مخصوص ہے ، خاص ہے ، خاص الخاص ہے اور اُس کی بہا بہت زیادہ ہے ۔
عقل محکم از اساس چون و چند
عشق عریاں از لباس چون و چند
" عقل کیوں اور کتنا کی بنیاد پر محکم ہوتی ہے جبکہ عشق اس لباس سے بے پرواہ ہے۔
عقل محکم از اساس چون و چند ، عقل دلائل سے،تعبیر سے، تاویل سے ، مجادلہ سے ، چون و چند سے، گوں مگوں سے، یہ ہونا چاہئے وہ نہیں ہونا چاہئے۔ عقل کی بنیاد بس اس اظراب پر ہے۔
عشق عریاں از لباس چون و چند عشق چون و چند سے بے نیاز ہے۔ وہ مسبب السباب سے تمسق رکھتا ہے۔
عقل می گوید کہ خود را پیش کن
عشق می گوید امتحان خویش کن
"عقل کہتی ہے کہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھو۔ عشق کہتا ہے کہ خود کو امتحان میں ڈالو۔
عقل کا کہنا ہے کہ خود را پیش کُن کہ اپنے آپ کو پیش کرو، اور اپنی پیشگی کو مظبوط بناؤ ۔ عشق می گوید امتحا ن خویش کن ، عشق کہتا ہے نہیں اپنا امتحان کرو کہ عشق سے با مراد ہو کہ نہیں ہو ۔
عقل باغیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و باخود در حساب
عقل فائدے نقصان کا حساب کتاب کر کے دوسروں سے آشنائی پیدا کرتی ہے اور عشق اللہ کے فضل پر بھروسہ کرتا ہے اور اپنا حساب کتاب خود کرتا ہے۔
عقل با غیر آشنا از اکتساب، عقل اکتساب کے راستے میں ، دریافتوں کے راستے میں ، اپنی ڈسکوری میں ، ایجاد میں کبھی اصل حقیقت سے منحرف بھی ہو جاتی ہے اگر عقلِ راست نہ ہو تو۔
عشق از فضل است و با خود در حساب عشق اللہ کا فضل ہے اور اللہ ذولفضل عظیم ہے اور عشق اپنا احتساب کرتا ہے جو نوالہ میسر ہے عشق اُس کو بھی دیکھتا ہے کہ حلال ہے کہ نہیں ہے۔ جو منصب میسر ہے اُس کو بھی دیکھتا ہے کہ جو منصب کے تقاضے ہیں وہ پورے ہو رہے ہیں کہ نہیں۔
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بندہ شو آزاد شو
عقل کہتی ہے کہ خوش رہو اور آباد رہو۔ عشق کہتا ہے کہ اللہ کی غلامی اختیار کرو اور آزاد ہو جاؤ۔
عقل کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا کی خوشی حاصل کرو اور یہی بس انتہا ہے عشق گوید بندہ شوآزاد شو۔ عشق کا فرمان یہ ہے کہ اللہ کے بندے ہو جاؤ اور حریت اختیار کرو۔
عشق را آرام جان حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است
" عشق کے لئے آزادی میں روح کا سکون ہے ۔ اُس کے ناقہ کی ساربان آزادی ہے۔
عشق را آرام جان حریت است۔ عشق آرام ِ جاں حریت ہے ۔ اللہ کی عبدیت اور عبودیت۔ ناقہ اش را ساربان حریت است۔ یہ قافلے کا ساریبان ہے۔عشق قافلے اسلام کا ساریبان ہے اور اس کی متاع حریت ہے۔