Print this page

نوائے صُبح‌گاہی

18 January 2022
(0 votes)
Author :  

نوائے صُبح‌گاہی نے جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے، وہ خطا کیا ہے!

یہ حکیم الامۃ علّامہ اقبالؒ  کا غزلیہ شعر ہے ۔ اصنافِ نظم(نظم کی قسموں)میں غزل کو یہ امتیاز(رتبہ)حاصل ہے کہ اس کا ہرایک  شعر منفرد ہوتا ہےاور جدا و مکمّل مفہوم کا متحمّل ہوتا ہے۔

اردو غزل میں عارفانہ ذوق کا اظہار خواجہ میر دردؒ اور غالبؒ کے دور سے چلا آرہا تھا، لیکن حکیم الامۃؒ نے اردو غزل کو غسلِ تصوّف دے کر بالکل مشربی رنگ دے دیا۔یہ کمالِ ذوق یہاں تک محدود نہیں بلکہ حضرتؒ نے اپنے غزلیاتی اشعارکا پسِ منظر قرآنی آیات و تلمیحات اور احادیث  و آثار سے گْلِ رنگ کردیااور اپنے اشعار میں نہایت گِہرے معانی و مطالب کو سمودیا۔

شعرِموضوع میں خطا کا لفظ فی الوقعہ اصطلاحِ سرّیّت ہے ، جب سالک(چلنے والا) عرفانِ ذات اور سلوک کے سفر پر روانہ ہوتا ہے، محبوبِ حقّانی اور جلوہءِربّانی کی طرف انابت کرتا ہے تو اسے اپنی کم مائیگی(تنگ حالی)، بے کسی، بے بسی، فروتنی، عاجزی وانکساری اور بے بضاعتی(ناداری) کا احساس ہوتا ہے۔

ایسی بے سروسامانی میں اْس حسنِ ازل کی محبّت کا دعویٰ ایک طرح کی بے ادبی اور خطا ہے ، لیکن یہ اْس نورالسّمٰوات والارض کی توفیق سے ہی ممکن ہے ، یہاں اپنا کچھ نہیں سب کچھ اْسی کا ہے۔''یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ

مَنۡ یَّشَآءُ'' (النور)اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اپنے نور میں سے جس کو چاہتا ہے۔

سزا سے مراد ابتلائے عشق ہے، ونَبلوکم( اور ہم تم کو آزماینگے)، ولَنَبلوَنَّکم(اور ہم تم کو ضروربالضرور آزماینگے)، لیبلوَکم(تاکہ ہم تم کو لازمًا آزمائیں)، سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست بنایا اور تمام انسانوں کا امام بنایاتو پہلے ابتلائے عشق میں رکھا :''وَاِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰھِیمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ0البقرہ'' (اور جب ابراہیمؑ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے معاملات میں ابتلائے عشق رکھا تو وہ بحدِّکمال پورے اْترے ان تمام مراحِلِ ابتلا میں)

نوائے صبح گاہی کی ترکیب بہت بڑے پسِ منظر سے مملو(پْر) ہے:''ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ''(غافر)(تم مجھےندا دو میں جواب دوں گا) ''نِدَآءً خَفِیًّا(مجھے آہستہ سے رازداری سے پکارو)، ''تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً''(اہ و زاری اور رازداری سے پکارو)  ''أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ''(بقرہ)جب ندا دینے والا مجھے ندا دیتا ہے تو اْسکی آہ کی لاج رکھتا ہوں)۔

رسول اللہﷺفرماتے ہیں رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہےاور ندا دیتا ہے کوئی ہے جو مجھے پکارےاور میں اس کی پکار قبول کروں ''

قرآنِ عظیم نے آخری وقتِ شب کو لطائفِ عشقِ اِلٰہی کے حوالے سے خاص طور پر اْجاگر کیا ہے ،

إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا''(مزمّل)بے شک آہِ صبح گاہی سے نفسِ امّارہ کْچلا جاتا ہے، عرفان و تزکیہ حاصل ہوتا ہے اور بات اقوم و مؤثر ہوتی ہے''

إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا''(الاسراء)بے شک وقتِ صبح آگاہی تلاوت کرنے سے حضورِ ربّانی اور شہودِعرفانی میسّر آتا ہے''

بس حضرت کا یہ شعر ان تمام عوارف و اسرار و الطاف سے لبریز ہے۔

علّامہ زید گل خٹک صاحب

مشیر روح فورم و آبروئے ملّت

2973 Views
Tag :

Latest article from  Super User

Login to post comments
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…