ترجمہ:-شام کی شوکت(اٰلِ اْمیّہ کی حکومت)اور بغداد کا کرّوفر(بنوعباس کی حکومت)چلی گئی،غرناطہ(اندلس میں امویّوں کی حکومت)کے نقوش بھی اب یادکاحصّہ نہیں رہے،لیکن میرے دل کا تار اْن کے مضراب سے لرز رہاہے، آج بھی حسینی تکبیر سے ایماں زندہ ہے۔
ملوکیّت کے دوران اہلِ بیتِ اطہارؑ،صوفیاءِکرامؒ،شیوخِ عظّامؒ،محدّثین،متکلّمین،فقہاءاورمصلحین اسوہءِحسنہ کے چراغ کواپنے خونِ جگر سے فروزاں رکھتے رہے۔الغرض انقطاعِ فکروعمل اورفترتِ اسوہءِحسنہ ایک لمحہ کے لئے بھی پیش نہیں آیا۔اندھیری رات میں بھی نفوسِ قدسیہ کی شعلہ باریوں اور حمیّتِ ایمانی سے چمن جگ مگ جگ مگ کرتے رہے۔سیاسی اْفق پر بھی جلال الدین خوارزم شاہؒ،ملک العادلؒ،نورالدین زنگیؒ،صلاح الدین ایّوبیؒ، ملک رکن الدین الظاہرالبیبرسؒ،الپ ارسلان سلجوقیؒ،سنجرسلجوقیؒ،غیاث الدین غوریؒ،قطب الدین ایبکؒ،التمشؒ، فیروزتغلقؒ، سکندرلودھیؒ، شیرشاہ سوریؒ ایسے جانباز سرکشی اور طاغوت کے پڑاؤ میں ہڑبونگ مچاتے رہے۔
اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے اہلِ تثلیث غالب رہے، صنعتی انقلاب نے دنیا کی ترجیحات بدل دیں،عالم کا جغرافیہ اب کسی اور طرز پراستوار ہوگیا،سائینسی ارتقا اور جدید آلات نے مزاجِ انسانی اور ثقافتِ عمرانی کے تیور بدل دئیے۔
عظیم مدبّرحکیم الامّۃ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:اب شانِ جمالی کے ظہور کاوقت ہے،مادی دنیاحرص وطمع وشحہءِنفس و خوف سے عبارت ہے،وسائلِ ارض جبر وفریب سے لوٹے جارہے ہیں اور حرص وہوس کے تحت تقسیم ہورہے ہیں۔
خَلق خْلق سے عاری ہے،اٰجر کا رویّہ اجیر کا پسینہ نکال رہاہے اْجرت نہیں دے رہا،اقوام کے درمیان نفاق کا تعلق پروان چڑھ رہاہے، اب شانِ جمالی کے ظہور کا زمانہ آن پٌہنچا ہے، مؤاخات کا فطری نظام وقت کی آواز ہے۔
اسوہءِحسنہ کا نور ہر قلبِ حزین کےلئے آبِ حیات کاکام دےگا، اب معمارِ حرم کے بیدار ہونے کالمحہ آگیاہے۔
آبروئے ملّت نظامِ تربیّت شانِ جمالی کےظہور کاایک عمدہ بندوبست ہے۔