انسان کا سفرِ معرفت جس کی انتہائی اور بقائی منزل دید ہے ، نفس کے اندر اللہ تعالیٰ کی پہچان سے شروع ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الذّاریات 21) اس کا نور تمہارے انفس میں موجود ہے پھر کیا تم اس کو دیکھنے کا شوق پروان نہیں چڑھاتے۔ اب سوال یہ ہے کہ نفس میں اْس کا نور کے سے تلاش کیا جائے؟ اِس کا جواب واضح ہے نفس ایک آئینہ ہے اگر اس کو گدلانے اور پرا گندگی سے بچایا جائے :''فَأَلْھَمَھَا فُجُورَھَا وَتَقْوَاھَا * قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّـٰھَا * وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـٰھَا(الشّمس) ترجمہ۔نفس کی قسم کہ ہم نے اس کو استوار کیا ، اس کو شعور اور تقویٰ سے نوازا، بے شک وہ شخص فلاح پاگیا جس نے نفس کو چمکایااور نامراد ہوا وہ جس نے نفس کو گدلا یا۔
انبیاء علیہم السلام بالخصوص ہمارے آقاومولیٰ ﷺ بِعثت کا مقصد ہی نفوسِ انسانی کا تزکیہ ہے تاکہ ان میں معرفت کی استعداد اور دید کی قابلیت پیدا ہوجائے۔
حکیم الامّۃ ؒ نے دید کی قابلیّت کا حصول جاوید نامہ میں ایک جگہ نہایت خوبی سے کیا ہے:
نقش حق اول بجاں انداختن
باز اورا در جہاں انداختن
از جاں تادر جہاں گردد تمام
می شود دیدار حق دیدار عام
ترجمہ ومفہوم۔نقشِ حق پہلے جاں میں فروزاں کردو، پھر جہاں میں اس کا گہرا اثر ملاحظہ کردو،جب جاں سے جہاں تک تصویرِ یار کا نقش ملاحظہ ہوجائے تو دیدارِ محبوبِ حقّانی عام ہوجائےگا۔
عارفِ رومؒ نے تمام اجزائے کائنات ، ذرائع ووسائل اور خود انسان کو پوست کہاہے۔ بلا شبہ یہ پوست ہے لیکن تزکیہ کی کمیابی ، معرفت کی نایابی اور دیدار کے طلب نے ہمیں ان بلند انسانی مقاصد سے محروم کررکھا ہے، ہم پوست پر فریفتہ اور دیدار سے بے بہرہ ہیں۔ پوست کے اندر حد سے زیادہ اشتغال انسان کو ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے پراگندہ کردیتا ہے،غرض، طلبِ بےجا، حسد ، تکبّر، تمرّد ،تترّف ،فساد، خواہش پروری، سفلیّت، یاسیّت، نا انصافی، جبرظلم، استحصال ، خوف، خوشامد، حرص،طمع غفلت بْزدلی، خیانت ،جھوٹ، باطِل۔ رزقِ حرام ، دھوکہ وفریب ،کِتمانِ حق الغرض تمام ظاہری وباطنی امراض اسی پوست گیری سے جنم لیتےہیں۔
اگر انسان دیدِدوست کو اپنا مطمحءِنظر بنالےتو وہ اعلیٰ اقدار سے مزیّن ہوتا ہے، اپنے باطن کو رِجس سے پاک رکھتا ہے اور ظاہر کو سْوءِخْلق سے صاف رکھتا ہے تاکہ دید کی منزل میسّر آجائے اس طرح وہ سیرت وکردار کا منصّہءِشہود بن جاتا ہے جس سے معاشرہ ہر آن فیض یاب ہوتا ہے۔