زندہ قُوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلۂ عِلم کلام
روشن اس ضَو سے اگر ظُلمتِ کردار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
رموزِ بیخودی میں حکیم الامّۃؒ نے توحید کی عملیّت اور اثرات پر نہایت حکیمانہ گفتگو کی ہے۔ آپؒ نے نا اْمیدی ، بے یقینی اور غم وحزن کو اْمّْ الاَمراض قرار دیا ہےجو افرادِ ملّت کے لئے انتہائی نقصان دِہ ہیں اور واضح کیا ہے کہ ان تمام امراض کا تریاق اعتقادِتوحید ہے، توحید سے وابستگی ان تمام سفلی احساسات پر قابو پانے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہے اور فردِ ملّت عزمِ صمیم اور یقینِ محکم کے ساتھ کارزارِ حیات میں قدم رکھتا ہے۔
مرا دل، مری رزم گاہِ حیات
گمانوں کے لشکر، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہُوں مَیں امیر
لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ ''ترجمہ ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اور ''لَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ '' ترجمہ۔ اللہ کی مدد سے مایوس نہ ہوں) کے نکتہءِہائےتوحید کی شرح کرتے ہوئے آنجنابؒ فرماتے ہیں: اْمید چھوڑدینا زندگی سے دست بردارہونے کا اعلان ہے ، اللہ کی رحمت سے پْراْمیدہونے ہی سے فردِملّت کواستحکام ِفکری وعملی نصیب ہوتاہے۔
آرزو سے زندگی کو دوام نصیب ہوتا ہےجبکہ نااْمیدی ایک قسم کا شرک ہے، نااْمیدی فرد کو مضمحل کردیتی ہے جس سے فردِ مِلّت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
اللہ تبارک وتعالیٰ کی مطلقیّت اور یکتائیّت پر یقین نہ ہونے سے بےثباتی اور ناتوانی پیدا ہوتی ہے۔توحید سے اگر یقین کی قوّت میسّر نہ آئے تو فردکمزور اور ملّت شکست خوردہ ہوجاتی ہے، نا اْمیدی سے دِل تاریک ہوجاتاہے اور توحید کی روشنی سے منوّرنہیں ہوسکتا، شیطان نا اْمیدی کو افسوں بناکر پھونکتا ہے تاکہ زندگی کے چشمہ ہائےحیات خشک ہوجائیں۔
حکیم الامّۃؒ فرماتے ہیں:اے غم کے اسیر رسول اللہﷺکے فرمان سے استحکام پکڑ: ''لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا '' ترجمہ۔ آپ غمگین نہ ہوں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔آپؒ فرماتے ہیں یہ فرمانِ عالی شان ہمارسرمایہءِحیات ہے جو ہمیں حزن و یاس سے نکال سکتا ہے، جب ہم اس کو اپنے یقین کا جزولاینفک بنادیں گےکہ وہ اللہ واحدالقہّار ہمارے ساتھ ہے جو تمام قدرتوں اور صفات کا مالک ہے تب ہمارا حزن کافور ہوجائےگااور نا اْمیدی اْمید میں بدل جائےگی
حضرت فرماتے ہیں نا اْمیدی سے دِل گرفتہ نہ ہونابھی توحیدکا پرتو ہےچونکہ فالواقعہ یہ تسلیم ورضا ہے،''لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ'' ترجمہ۔ ان پر کوئی غم اور خوف مسلط نہیں ہوتا۔ کا مرتبہ توحید پر کامل یقین سے نصیب ہوتاہے۔ جب موسیٰؑ فرعون کے خلاف نبرد آزما ہوئےتو اْن کا قلب پاک نعرہءِ لاتخف سے مضبوط تھا،اْن کو یقین تھا کہ اللہ واحدالصمدمیرے ساتھ ہے۔''إِنَّنِى مَعَكُمَآ أَسْمَعُ وَأَرَىٰ''ترجمہ۔ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں دیکھتا اور سنتا ہوں۔
آنجناب فرماتے ہیں :
ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست
اصل او بیم است اگر بینی درست
لابہ و مکاری و کین و دروغ
این ہمہ از خوف می گیرد فروغ
ترجمہ۔تیرے قلب کے اندر جوبھی مرض پنہاں ہے، اگر توغور کرے تو اس کی جڑخوف اور طمع سے پھوٹتی ہے۔ خوشامد،مکّاری،کینہ، جھوٹ سب بْرائیاں خوف سے فروغ پذیر ہیں۔
ہرکہ رمزِ مصطفیٰ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمرّ دیدہ است
ترجمہ۔ ہر فردِ ملّت جو رسول اللہ ﷺکے اْسوہءِ حسنہ کی حقیقت کا راز پاچْکاہے وہ گویا شرک کو خوف کے اندر پوشیدہ دیکھ چکاہے۔
علامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم