امتیازی اسلوبِ تزکیہ و تعلیم
عنوان کا استدراک : '' یزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ''
توجیحات : دارالارقم، اصحابِ صفّہ، کاتبینِ وحی، الغارمین فی سبیل اللہ، دارالفاطمہ، منبرِسلونی، دارالزّبرۃ، مکتبِ جنیدیہ، دارالارشاد، (دارالارشاد غوثِ پاکؒ کی درس گاہ تھی) حلقات المسجد النبویّہ، نظام الطّوسیہ(امام غزالیؒ کی درس گاہ)، مجلس المصائب والبصائر و العبائر(امام سجادؒ کی درس گاہ)، دارالنّحبۃ الفکر( شیخِ اکبر ؒکا تحقیقی لجنہ)، ترتیب الافراد و تصفیۃ القلوب(نظام الدین اولیاءؒ کا نظامِ تعلیم)، اسفارالاخوان(اخوان الصفا کا وزیٹنگ سکول) ۔
تصریحات : سیّدنا علیؑ، سیّدنا جعفر، سیّدنا زیدبن ثابت، سیدہ طیّبہ فاطمۃ الزہرا علیہا السلام، ام المؤمنین عائشۃ رضوان اللہ علیہا، سیّدنا ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام سجاد زین العابدینؒ، امام غزالیؒ، امام ابنِ غزالیؒ، خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ، حضرت محمّد بن علی مشہدیؒ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔
نوٹ : تاریخِ تزکیہ و تعلیم و تربیّت میں اور کئ ایسی مثالیں مظہر ہیں، چند ایک ذکر کردی ہیں تاکہ واضح ہو کہ یہ نظام طبع زاد نہیں بلکہ متداول ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے مکّہ شریف کے معاشرہ سے مفلوک الحال اور مجبورالمال افرادِ ملّت کو اپنی خاص توجّہ کا مرکز بنایا، مدینہ طیّبہ میں آپﷺ کی خصوصی نظرِ التفات کا محور یہی اور ایسے ہی لوگ رہے۔ لطفِ ربّانی نے آنحضور ﷺ کے اس جاں گداز رویّہ کو صرف نظرِ استحسان سے ہی نہیں دیکھا بلکہ ترغیبِ مزید دی: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ '' اور اے حبیب ﷺ آپ اپنے معارف و انوارِ نفس ِ قدسی سے ان لوگوں کو متمتّع فرمائیں۔ ''وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ ''(الکہف 28)یا رسول اللہ ! آپ ان لوگوں کو اپنی لطفِ نگاہ کے فیض سے محروم نہ کریں۔
ہم تاریخ کی پیشانی پر انہی ہستیوں کو منصبِ تعلیم و تربیت اور منصّہءِفلاح واصلاح و رفاہ کے حوالے سے متمکن و مؤثر و مفید دیکھتے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے معاشرے سے صرف انسانی بنیادوں پر انتخاب فرمایا اور امتیازی و خصوصی تزکیاتی و تربیّتی و تعلیمی اسلوب سے گزار کر سیّادت، نظامت، ادارت اور قیادت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز کردیا۔
ان حضرات کے پاس ابتداء میں کوئی صلّہ(Return) نہیں تھا لیکن امتیازی تعلیم و تربیّت نے ان کی ذواتِ مبارکہ کو انسانی معاشرے کے لئے دنیوی و اخروی صلہ بنادیا اور پھر یہ طریقہءِتعلیم کبھی انقطاع و تعطّل کا شکار نہیں ہوا اور نہ کسی طرح حکومتی سرپرستی سے مطلقًا بے نیاز ، اپنی مدد آپ کے تحت معجِّز و مقوَّم یہ نظام نو آبادیاتی تسلط سے پہلے تک چلتا رہا، صرف یہ نہیں کہ چلتا رہا بلکہ بہترین اثرات کا متحمّل رہا۔ چند ایک کامیاب و کامران سلاسل ہائے تزکیہ و تعلیم کا حوالہ میں نے توجیحات کے ذیلی عنوان کے تحت عرض کردیا ہے وگرنہ عبر و عنبر زلفِ مشکیں دراز ہے۔
اس کا قاعدہ ،تقویم اور تنظیم (Foundation Sustaining, accomplishment)کے لئے تصریحات میں متذکرہ لجنات و درّاسات لائقِ تقلید اور قابلِ اتّباع ہیں۔ میں صرف ترغیبًا طوس کی مثال سے اپنی ادّعا کو مترشّح کرنا چاہونگا۔
'' حصولِ تعلیم کے بعد اس یتیم شعار معلّم نے کمال کردیا تھا، ان کی والدہءِکریمہ نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عینِ جوانی میں اپنی حیاتِ مستعار کی تمام خوشیوں اور آسائشوں کو تج دیا، اپنی ساری توجّہ اپنے دو بچوں محمّد بن محمّدغزالیؒ اور احمد بن محمد غزالیؒ کی تعلیم پر مرتکز کردی۔ جب شوہر کا ترکہ اور اپنے اثاثے (زیورات وغیرہ) ختم ہوگئے تو اپنے مرحوم شوہر کے ایک وفادار حضرت رازکانیؒ (جو متموّل تاجر اور عالم با عمل تھے ) سے اپنے بچوں کی تعلیمی کفالت کی درخواست کی ، موصوف تعلیمی سرپرستی کے لئے ہمہ وقت آمادہ رہتے تھے، اْن کی مالی ولاء سے امامِ غزالیؒ نے حسبِ ضرورت نہایت قناعت اور کفایت کے ساتھ استفادہ کیا، تب بغداد، نظامیہ، عبرون، نیشاپور، سلاجقہ کو اپنے علمی برکات سے نوازتے ہوئے یہ امتیازی معلّم ، متکلّم ،محدّث، عارف، ناظم، قیّم، فقیہ اور مربِّیءِعلم و تعلّم نے اپنے وطنِ مالوف طوس میں امتیازی تزکیہ و تعلیم کا ایک عظیم الشّان مرکز بنایا جو سلسلۃ النظامیّہ کی بھی آنکھیں خیرہ کررہا تھا۔
تعمیر تین بڑے کیمپس پر مشتمل تھی:
- مسجد : جس میں تمام مکاتِبِ فکر کے مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت تھی، فجر کے بعد درسِ قرآنِ مجید اور جمعۃ المبارک کا وعظ حضرت خود فرتے تھے۔
- درس گاہ : ایک جامعہ (University) جس میں فلسفہ، تاریخ، تفسیر، حدیث، منطق، کلام، نحو، تعدیل جغرافیہ، ہندسہ، کیمیا، طبعیات ، ریاضی ، نجوم، صنعت، حرفت اور کسب سب علوم و فنون زیرِتدریس تھے۔
- خانقاہ : جس میں تصوّف بطورِ فلسفہءِحیات و نصاب پڑھایا جاتا تھااور روحانی تربیت و تزکیہ ( انابت، عقیدت، خلق، خدمت، ارادت، مجاہدہ، مراقبہ، مسامرہ، مکالمہ، مشاہدہ، مفاردہ، مجاردہ، فنا، بقا) کا بہترین نظام کار فرما تھا یعنی قال و حال و تمکین یکجا تھے۔
- نظامت :
دارالتوہیب : اس دفتر میں عطیات، موہبات، تحائف و تصدق( Contributions, Donation, Charities) جمع ہوتے تھے۔
دارالمشاورت : اس میں اعلیٰ سطحی مشورے ہوتے تھے۔
دارالترغیب : اس میں والدین اور مخیّر حضرات کو تعلیم پروری کی ترغیب دی جاتی تھی۔
دارالاحتشام : اس میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے بچوں، والدین، اساتذہ، اور سماجی کارکنوں کو اعزازات دئیے جاتے تھے۔
دارالتّحقیق : یہ تحقیقات کا مرکز( Research center) تھا جس میں حضرت استاذ الغزالیؒ خود رونق افروز ہوتے تھے، یہاں سے ماہرین اطرافِ عالم کی طرف کوچ کرتے تھے تاکہ اور ادارے بنائیں۔
علّامہ زیدگل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت