اگر اس کو چھوڑا جائے تب بھی ہانپتا ہے اور اگر مارا جائے تب بھی ہانپتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سخت انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔یہ ربِ کریم کو حق حاصل ہے کہ نرم گفتگو کرے یا سخت گفتگو کرے۔
اسی طرح البقرہ آیت 78 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-
لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتَابَ اِلَّا اَمَانِىَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ
ترجمہ: وہ کتاب کی تعلیم حاصل کرنے کی کماحقہ کوشش نہیں کرتے ، ہاں مگر تمنائیں پالتے ہیں اور گمان روا رکھتے ہیں۔
تمنا کتاب کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنے سے پوری ہو تی ہے۔
البقرہ ، آیت 113 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
"وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصَارٰى عَلٰى شَيْءٍۖ وَّقَالَتِ النَّصَارٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰى شَىْءٍ وَّهُـمْ يَتْلُوْنَ الْكِتَابَ ۗ كَذٰلِكَ قَالَ الَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِـمْ"
ترجمہ: اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ ٹھیک راہ پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی راہِ حق پر نہیں ہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں، ایسی ہی باتیں وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو بے علم ہیں۔
ایک دوسرے کی نفی کرنے کے بجائے وہ یہ سوچیں کہ ساری ہدایت تو ایک مرکز سے آئی ہے۔حضرت موسیٰؑ کی کتاب کہاں سے آئی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔حضرت عیسیٰؑ کی کتاب کہاں سے آئی ہے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔مرکزِ نزول تو ایک ہے۔تو پھر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونا کیسا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کتاب کی ماہیت کو نہیں سمجھا گیا۔کتاب کے تقاضوں کو نہیں سمجھا گیا۔انہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-
"ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا"
اس سے مراد یہ ہے کہ اٹھانے کا حق ادا نہیں کیا۔قرآنِ پاک میں تقریبا پچیس ، چھبیس آیات میں یہ تناظر بیان ہوا ہے۔حکیم الامتؒ نے اُ ن تمام آیاتِ مبارکہ کی تاثیر کو ایک ترکیب میں پرونے کی کوشش کی اور اُس میں کامیاب ہوئے۔"کرمکِ کتابی نہ بن" مراد یہ ہے کہ اگر کتاب کے ساتھ ، سنت کے ساتھ ، اسوۂ حسنہ کے ساتھ کرمکِ کتابی والا تعلق ہو گا تو پھر مسلمان کبھی نفوذ نہیں کر سکیں گے۔کتنے مدرسے ، کتنی جامعات ، کتابیں ، تحریریں موجود ہیں، درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لیکن معاشرے پر اثر نہیں ہو رہا۔اللہ تعالیٰ نے علم کو قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے۔سب سے بڑی آیت ہے" هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ "چونکہ اس کائنات میں جو واجب الاتباع ، عنصرِ جمیل ہے وہ اسوۂ رسولﷺ ہے ۔اس لیے الجمعہ، آیت 2 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
"هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ"
مفہوم: وہی ہے جس نے مکہ شریف میں سارے آفاق کے لیے، سارے جہانوں کے لیے ، سارے عالمین کے لیے ایک رسولﷺ مبعوث فرمایا۔ وہ ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان آیات کی روشنی میں ان کے طبائع ان آیات کے ساتھ مشرباََ اور عملا مانوس کرتا ہے۔جب ان کی طبائع آیات سے مانوس ہو جائیں اورتزکیہ کی لہر دوڑ جائے تو اب یہ نصاب مکمل ہو جائے گا ۔وہ حبیب انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔یہ کونسی کتاب ہے یہ قرآن کا دستور ہے۔قرآن کے دستور کو کس حکمت کے ساتھ نافذ کرنا ہے اپنے آپ پر بھی ، اپنے ظاہر پر بھی اپنے باطن پر بھی۔ سارے عالم کے لیے حکمت اسوۂ حسنہ ہے۔ یہ علم اس طرح رو پذیرہوتا رہے ، متفکَر ہوتا رہے، متدبَر ہوتا رہے، عمل ہوتا رہےتو پھر تو اس کا فائدہ ہے ، نہیں تو کرمکِ کتابی والی بات ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔یہ ایک بڑی ترکیب ہے جس کے اندر ایک جہان سمویا ہوا ہے۔
علامہ زیدگُل خٹک صاحب