Print this page

کِرمِ کِتابی

30 December 2021
(0 votes)
Author :  

تراکیبِ حکیم الامتؒ
بندۂ تخمین و ظن! کِرمِ کتابی نہ بن

عشق سراپا حضور، علم سراپا حِجاب

مفہوم: اس شعر میں حکیم الامتؒ  ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو مطالعاتی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہیں۔آپ فرماتے ہیں " کتابِ الہیٰ پڑھ کر  قیاس و گمان میں  الجھنے والے اے شخص!  کرمِ کتابی بننے کے بجائے  جو کچھ    پڑھ کر سیکھا ہے  اُس  پر عمل کر تا  کہ عشق کے اسرار کھُل سکیں  ۔علم حاصل کرنے کے بعد جب تک اُس پر عمل نہ کیا جائے خدا  کی ذات اور بندے کے مابین پردے حائل  رہتےہیں اور وہ ربِ کائنات کی ذات کے جلوؤں    سے محروم رہتا ہے۔علم کے بعد عمل ہی وہ راستہ ہے جو عشق کی منزل تک پہنچاتا ہے جہاں سے انسان  کی بصارت مقصد ِ حیات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

کِرمِ کتابی اور کِرمکِ کتابی دونوں طرح سے اس ترکیب کو پڑھا جا سکتا ہے۔کرمک ایک کیڑا ہے    جو کتابوں کو لگتا ہے  اور دیگر اشیاء پر بھی۔ہم عام طور پر دیمک کو کرمک سمجھتے ہیں مگر دونوں میں فرق ہے۔فارس کے علماء کرمک اُس کیڑے کو کہتے ہیں جو کتاب کو لگتا ہے۔"کرمکِ کتابی "حکیم الامت ؒکی ترکیب ہے اور یہ ترکیب بہت تادّب لیے ہوئے ہے۔ اس میں اُن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو کتاب سے تعلق رکھتے ہیں، پڑھتے ہیں ، مطالعہ کرتے ہیں اور اُن کے پاس  اخبار و آثار و علم کے انبار جمع ہوتے رہتے ہیں۔لیکن وہ آثار و اخبار  اُن کے وجود میں تلاطم پیدا نہیں کرتے۔اُ نکے وجود کے تزکیہ کا باعث نہیں بنتے۔اُن کے وجود سے رجس کو خارج نہیں کرتے۔اس لیے آپ فرماتے ہیں کہ" کرمکِ کتابی" نہ بن۔  یہ دراصل قرآن و سنت کا حکم ہے  جس کو علامہ نے شعر کے پردے  میں  مؤدبانہ انداز میں پیش کیا ہے۔اصل تصور کتابِ الہیٰ کا ہے۔مثلا یہود کے علما کے بارے میں کہا گیا :

"كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا" ترجمہ:  ان کی مثال ایسی ہے جس طرح گدھا  کتابیں اٹھاتا ہے۔

بے شک  اس کے اوپر کتابوں کا انبار ہے لیکن کتابوں کے انبار کو اپنے اوپر لادنے سے گدھے اور خچر کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اسی طرح فرمایا    "كَمَثَلِ الْکَلْبِ"  ان کی مثال اُس  کلب(کُتّے) کی سی ہے کہ

اگر اس کو چھوڑا جائے تب بھی ہانپتا ہے اور اگر مارا جائے تب بھی ہانپتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سخت انداز میں گفتگو فرمائی ہے۔یہ ربِ کریم کو حق حاصل ہے کہ نرم گفتگو کرے یا سخت گفتگو کرے۔

اسی طرح  البقرہ آیت 78 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:-

 لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتَابَ اِلَّا اَمَانِىَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ

ترجمہ: وہ کتاب کی تعلیم حاصل کرنے کی کماحقہ کوشش نہیں کرتے ، ہاں مگر تمنائیں پالتے ہیں اور  گمان روا  رکھتے ہیں۔

 تمنا  کتاب کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنے سے  پوری ہو تی ہے۔

البقرہ ، آیت 113 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

"وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ لَيْسَتِ النَّصَارٰى عَلٰى شَيْءٍۖ وَّقَالَتِ النَّصَارٰى لَيْسَتِ الْيَهُوْدُ عَلٰى شَىْءٍ وَّهُـمْ يَتْلُوْنَ الْكِتَابَ ۗ كَذٰلِكَ قَالَ الَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِهِـمْ"

ترجمہ: اور یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ ٹھیک راہ پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی راہِ حق پر نہیں ہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں، ایسی ہی باتیں وہ لوگ بھی کہتے ہیں جو بے علم ہیں۔

ایک دوسرے کی نفی کرنے کے بجائے وہ یہ سوچیں کہ ساری ہدایت تو ایک مرکز سے آئی ہے۔حضرت موسیٰؑ کی کتاب کہاں سے آئی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔حضرت عیسیٰؑ کی کتاب کہاں سے آئی ہے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔مرکزِ  نزول تو ایک ہے۔تو پھر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونا کیسا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کتاب کی ماہیت کو نہیں سمجھا گیا۔کتاب کے تقاضوں کو نہیں سمجھا گیا۔انہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:-

"ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا"

 اس سے مراد یہ ہے کہ اٹھانے کا حق ادا نہیں کیا۔قرآنِ پاک میں تقریبا  پچیس ، چھبیس آیات میں یہ تناظر بیان ہوا ہے۔حکیم الامتؒ نے  اُ ن تمام آیاتِ مبارکہ   کی تاثیر کو ایک ترکیب  میں پرونے کی کوشش کی  اور اُس میں کامیاب ہوئے۔"کرمکِ کتابی نہ بن" مراد یہ ہے کہ اگر  کتاب کے ساتھ ، سنت کے ساتھ ، اسوۂ حسنہ کے ساتھ کرمکِ کتابی والا تعلق ہو گا تو پھر مسلمان  کبھی نفوذ نہیں کر سکیں گے۔کتنے مدرسے ، کتنی جامعات ، کتابیں ، تحریریں  موجود ہیں، درس و تدریس  کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے لیکن  معاشرے پر اثر نہیں  ہو رہا۔اللہ تعالیٰ نے علم کو قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے۔سب سے بڑی آیت ہے" هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ  "چونکہ اس کائنات میں جو  واجب  الاتباع ، عنصرِ جمیل ہے وہ اسوۂ رسولﷺ ہے ۔اس لیے الجمعہ، آیت 2 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 

"هُوَ الَّـذِىْ بَعَثَ فِى الْاُمِّيِّيْنَ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۖ وَاِنْ كَانُـوْا مِنْ قَبْلُ لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ"

مفہوم: وہی ہے  جس نے مکہ شریف میں سارے آفاق کے لیے،   سارے  جہانوں کے لیے ، سارے عالمین کے لیے ایک رسولﷺ مبعوث فرمایا۔  وہ ان پر اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان آیات کی روشنی میں ان کے طبائع ان آیات کے ساتھ مشرباََ اور عملا مانوس کرتا ہے۔جب ان کی طبائع آیات سے مانوس ہو جائیں اورتزکیہ  کی لہر دوڑ جائے تو اب یہ نصاب مکمل ہو جائے گا ۔وہ حبیب انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔یہ کونسی کتاب ہے یہ قرآن کا دستور ہے۔قرآن کے دستور کو کس حکمت کے ساتھ نافذ  کرنا ہے اپنے آپ پر بھی ، اپنے ظاہر پر بھی اپنے باطن پر بھی۔ سارے عالم کے لیے حکمت اسوۂ حسنہ ہے۔ یہ علم اس طرح رو پذیرہوتا رہے ، متفکَر ہوتا رہے، متدبَر ہوتا رہے، عمل ہوتا رہےتو پھر تو اس کا فائدہ ہے ، نہیں تو کرمکِ کتابی والی بات ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔یہ ایک بڑی ترکیب ہے جس کے اندر ایک جہان سمویا ہوا ہے۔

علامہ زیدگُل خٹک صاحب

 

Tag :

1141 Views
Login to post comments
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…