آپ نہایت سریع النفوز اور بلند پرواز ہیں۔آپؑ انبیاء و رُسُل ؑ تک اللہ کی رسالت پہنچاتے ہیں۔آپ سرکش اقوام پر اللہ کے اذن سے تعذیب کا سوطہ برساتے ہیں۔آپؑ اہلِ عرفان کے قلوب پر اللہ کے اذن سے طمانیت اتارتے ہیں۔آپؑ سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کی پشت بانی فرماتے ہیں۔آپ لیلۃ القدر کو "لواءِ شفاعت" لے کر پہلے حرم کعبہ اور تب حرمِ نبویﷺ میں تشریف لاتے ہیں۔آپؑ ستّارِ کعبہ پر ملائیکہ کی امامت فرماتے ہیں۔آپ درود وسلام کے لیے مواجۂ اقدس پر حاضر ہوتے ہیں۔آپؑ معرکۂ حق و باطل میں عساکرِ اسلام کی نصرت کرتے ہیں۔شیطان آپ سے بے حد خوفزدہ رہتا ہے۔آپؑ کے مناقب زیادہ ہیں۔ایک دوسطور میں احاطہ ممکن نہیں۔
اب آپ اس ترکیب پر غور کریں۔جبریلؑ رسول اللہ ﷺ کے وزیرِ اوّل ہیں اور مومن رسول اللہﷺ کا شاہین ہے۔شاہین کو وزیرِ اوّل سے کیا نسبت ہو نی چاہے۔ظاہر و باھر ہے۔
ترکیب کا مفہوم یہ ہے کہ مومن کو نفسِ جبریل اور بال و پر ِ روح ُا لامین کی ضرورت ہے۔بالِ جبریل اس ضرورت کو پورا کرنے کے سامان سے لبریز ہے؛
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفسِ جبرئیلؑ دے تو کہوں
۔
نوائے شوق
نوا کا مطلب آواز اور شوق سے مراد مختلف روحانی مراحل سے گزرنے والی فکرِ رسا اور جذبۂ دل ہے۔اصطلاحی طور پر اس کا حصر حکیم الامتؒ کی شاعری ہے ۔بلا شبہ آپؒ کی شاعری نوائے شوق ہے۔یہ شوق ایمان و اسلام، قرآن و سنۃ، حُبّ ِ حبیبﷺ، معرفتِ نفس، لطائفِ باطنی، محاسنِ ظاہری، فکر و نظر، علم و دانش، فلسفہ و احسان، تزکیہ و احتساب، اصلاح و استصواب اور تدبر و استدراک سے پھوٹ پھوٹ کر شعر کی جڑت بُنت میں رقم ہوتا چلا جاتا ہے اور منظم ہو کر شاعری کا خوبصورت روپ دھار لیتا ہے اور یوں نوائے شوق بن کر قوم و ملت کی سماعتوں میں رس گھولتا ہے۔
۔
حریمِ ذات
حریم کا مطلب حرمت اور انتہائی عزت و جلال کا مقام،ذات سے مراد ذاتِ واجب الوجود، ذاتِ مطلق، ذاتِ بحت، حسنِ ازل، وجودِ حقیقی، ربِ کریم ، خالقِ مجید، اللہ تبارک و تعالی جلّ شانہ ہے۔اس سے پہلے متکلمین و عرفاء اکنون، اعیانِ ثابتہ اور ھاھوت کی اصطلاحیں استعمال کرتے تھے۔حکیم الامتؒ نے اُن تمام مصطلحات کے نوا میس (Secrets) کو یکجا کر کے "حریمِ ذات" کی ترکیب ایجاد و متعارف کر کے فلسفہ و دینیات پر عظیم احسان کیا ہے۔یہ بہت بڑا کلامی اور عرفانی اجتہاد ہے چونکہ اس ترکیب میں نہایت شان و شوکت کے ساتھ سب کچھ محیط ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ فلسفۂ قدیم و جدید میں حسین امتزاج بھی پیدا ہو گیا۔
۔
بُت کدۂ صفات
بُت سے مراد صورت وشکل ہے ۔بت کدہ کا مطلب صور و اشکال کا اجتماع ہے۔یعنی عالمِ مادی ، عالمِ خلق، عالمِ شہود او ر عالمِ ناسوت(Physical & Material Universe) ۔کائنات (یکون و تکوین) کی دو اقسام ہیں۔عالمِ امر اور عالمِ خلق! دونوں صفات الٰہیہ کے انوارات کے پر تو ہیں۔یہ پوری معلوم و نامعلوم، مشہود و غیر مشہود کائنات، اس کے تمام اجزا اور اس کا مرتبۂ جامع(انسان) اللہ کی محبت، قدرت، تقدیر، تدبیر، حکمت اور ارادہ میں پرورش پاتے رہے۔فلسفہ کی زبان میں اس کو اعیانِ ثابتہ، کلامی اصطلاح میں اکنون اور قرآنِ مجید کی رو سے حین کہتے ہیں۔جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے کُن کا صوتِ سرمدی بپا فرمایا تو سب سے پہلے ایک جوھرِ اعظم رونما ہوا، یہ دراصل نورِ محمدیﷺ تھا ۔حکیم الامتؒ نے اس نظریہ حقیقۃ ِ محمدیہؐ کو نہایت شان و شِکُوہ سے جا بجا بیان فرمایا ہے۔اب اُس نور اور محیط کو معنوی توسیع و تبسیط و تنوع ملتی چلی گئی اور عالمِ ماوٰی و معانی برپا ہوتا چلا گیا۔
عالمِ ماوٰی جواہر و الطاف و معانی و اوامر و ملکوت و جبروت و مثال پر مشتمل ہے۔عالمِ مثال دراصل عالمِ سفٰلی اور عالمِ بالا کے درمیان ایک برزخ و اتصال ہے جہاں ارواح متمثل ہوئیں ۔اللہ سے کلام کیا، اللہ نے تمام ارواح سے درجہ بدرجہ عہد و پیمان و میثاق لیے جو قرآن ِ مجید فرقانِ حمید میں مذکور ہیں اور پھر انتہائے حلاوت یہ کہ اُس حسنِ ازل نے اپنا دیدار کرایا۔اب ارواح کو اپنا جلوۂ حسن دکھا کر مست کر دیا۔اُن کو اپنی تلاش میں سرگرداں کرنے کے لیے عالمِ مادی میں بھیج دیا۔عالمِ مادی کا آغاز بھی روحِ بسیط کے ھبوط سے ہوا۔حکیم الامتؒ نے اس خام فکری کی تردید کی ہے کہ روح و مادہ الگ الگ ہیں۔مادہ روح کے مرھونِ منت ہے۔انائے محیط اور عالم روحانی سے ایک پرتو نے ھبوط کیا۔اسی پرتو سے عالمِ خیال، عالمِ رتق، عالمِ دخان، عالمِ باد، عالمِ افلاک، عالمِ آب، عالمِ خاک، آتش و نبات و وحوش و طیور و معدن و جبال تشکیل ہوتے چلے گئے۔با لاخر عالمِ زیریں کے تمام عناصر کے جواہر کو جمع کر کے نفسِ واحدہ کی تنظیم ہوئی جس سے سیدنا آدمؑ و سیدتنا حوّا ؑ کی صورت گری ہوئی۔عالمِ امر سے اُن اجسام ِ مبارکہ میں روح سرایت ہوئی یوں عالمِ رنگ و بو مکمل ہو گیا ۔اس کو حکیم الامتؒ نے "بت کدۂ صفات" کہا ہے۔
اکنون ، کن فیکون، تجلیات و انوارات و بروزات و پرتواتِ صفات ِ عالیہ و منزّہ ، عالمِ بالا و عالمِ زیریں کو ایک ترکیب و اصطلاح میں پرونا اور اتصالِ عالم و عوالم کا نظریۂ تسلسل پیش کرنا حکیم الامتؒ کا فکری اوجِ کمال ہے۔
اس ترکیب میں معرفت، عبادت ، ذات، اسماء، صفات ، کن ، یکون، روح اور مادہ سب کچھ سمٹ آیا ہے اور عالم و دانش کی وہ قوسِ قزح (Rainbow) بن گئی ہے جس کا کوئی اوراظہار پسند تصور بھی نہیں کرسکتا۔
۔
دیر و حرم
دیر سے مراد وہ مقام ہے جہاں اللہ کو اتحاد و حلول(شرک) کے ساتھ پکارا جائے اور حرم سے مراد وہ جگہ ہے جہاں اللہ جل شانہ کو وحدت (توحید) کے ساتھ پکارا جائے۔وہ ذات، صفات ، اسماء ، اختیار، تصرف، مِلک اور اَمر میں یکتا ہے۔کوئی اس کا شریک و سہیم ہر گز نہیں۔صرف وہ خالق ہے باقی سب اُس کی صفات کی برکات یعنی اعتبار و امکان ہیں، سو مخلوق ہیں۔خَلقِ اعظم و اکبر محمد رسول اللہ ﷺ بھی اُس کا عبدِ خاص ہے۔
۔
صبحِ ازل
وہ ساعت ِ دھر جب مدبّرِ حقیقی، خالقِ کون و مکان اور ربِ متعال نے اپنے عظیم ارادے کا ظہور فرمایا۔صبحِ ازل کا آغاز حرفِ کُن سے ہوا۔ابتداََ معنوی کائنات نے رونمائی کی پھر عالمِ رنگ و بو نے شکلوں اور صورتوں میں شہود کیا۔جب حِین ُٗ نے دھر کی بزم آرائی کی اس ساعتِ عظیم کو حکیم الامتؒ نے صبحِ ازل کی ترکیب سے شرح فرمایا۔
۔
محیطِ بیکراں
محیط احاطہ کرنے والی ذات اور بیکراں بے حد، بے ساحل، وسعت در وسعت سے لبریز، بے کنار، بے ہمتا اور بے شمار!
یہاں بھی اللہ جلّ شانہ کی صفات مراد ہیں۔اُ س ذات ِ پاک کی صفات نے تمام چیزوں کو رونما کر کے اُن کا احاطہ کر رکھا ہے۔مثلاََ وہ الواسعُٗ ہے۔جس کرسی پر اُس کی صفتِ وسعت متجّلیٰ ہے اُس نے سماوات و ارض کا احاطہ کر رکھا ہے۔"وسع کرسِیّہ السمواتِ والارض" وہ رحمان ہے، اُس کی صفت ِ رحمانی عرشِ عظیم پر مترفع و مستوی ہے۔الرَّحمان عَلَی العرشِ استَوَیٰ بس اُس کی صفات محیطِ بیکراں ہیں۔
۔
آدمِ خاکی
انسان کا وجود دو اجزا پر مشتمل ہے۔روح اور جسم!
روح اللہ کا امر ہے اِس کا تعلق عالمِ بالا سے ہے اور جسم کا تعلق عالمِ مادی یعنی عناصر سے ہے۔ عالمِ مادی بھی عالمِ بالا کا ایک پرتو ہے۔آدمِ خاکی سے مراد انسان کی بشریّت ہے جس کے ساتھ مادی تقاضے اور حوائبح وابستہ ہیں۔آب سے خاک اور خاک سے نبات و آتش و معادن و وحوش میں سے انسان کی بشری ضروریات کی ترسیل و تکمیل کا عنوان حکیم الامتؒ نے آدمِ خاکی رکھا ہے۔
۔
گیسوئے تاب دار
گیسو بالوں کو کہتے ہیں، تاب دار کا مطلب چمک دار!
بال اپنے رنگ ِدیجور کی وجہ سے حجاب کی علامت ہیں اور زینت کے بنا پر چمک دمک کی نظیر ہیں۔اللہ کی صفات اور اُن کی برکات کو شاعرانہ معروض میں سمجھانے کی لیے گیسوئے تاب دار کی ترکیب نہایت جاندار ہے۔ہمیں اللہ کی ذاتِ پاک پر ایمان لانے کی ترغیب ہے اور صفاتِ الہٰیہ میں غور و تدبر کرنے کا حکم ہے ۔حکیم الامتؒ نے اِس غور و فکر کو حَسین پیرایہ عطا فرمایا ہے۔
۔
حریمِ کبریا
بڑی حرمت ، مہا عزّت، بے کراں حسن یعنی محلِ دیدار!
معرفت و سلوک و احسان کی انتہا مراد ہے ۔عارف کا سفر انابت الی اللہ سے شروع ہوتا ہے اور حریم ِ کبریا پر بقاءُ البقا کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے۔حریمِ کبریا دراصل جنتِ دیدار اور بہشت ِ انوار ہے۔نفسِ مطمئنہ جب اِس محل میں باریابی کا شرف پاتی ہے تو حریم ِ کبریا سے آشنا ہو جاتی ہے جو فالواقعہ لاھوت کی سیر و سیاحت ہے۔منزل ِ ما کبریا است کا فوزِعظیم حریمِ کبریا ہے جو صفات کے انوارات و تجلّیات کا بقعۂ ذی شان ہے۔
۔
بازوئے حیدر
حیدر کا لغوی مطلب ہے دونوں بازو استعمال کر کے اژدھا کو دو لخت کرنے والا!
اژدھا سے مراد باطل اور شیطانی مکر و فریب ہے، حیدر وہ قوتِ عطاءِ پروردگار ہے جو اِن تمام باطلیّات و طاغوتیّات کو پاش پاش کرنے والی ہے۔
اس صفت ِ عالیہ میں انبیاء و مرسلین علیھم السّلام کی بعد سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذات اپنی مثال آپ ہے۔آپؑ کے بازوؤں نے باطل کے جسم کو دو لخت کیا اور عقل و دانش اور قلب و نظر نے باطل کی سرشت کو تحلیل کر دیا۔
۔
عالمِ رنگ و بو
مادی جہان مراد ہے جہاں عناصرِ مادی رنگ و بو اور جسم و جسد کے ساتھ شہود یافتہ ہوتے ہیں۔لطافت کثافت کا جامہ پہن لیتی ہے۔
۔
کشتِ ویراں
لغواََ کشت سے مراد کھیتی اور ویراں جہاں کاشتکاری نہ ہو رہی ہو اور نبات و گُل نہ کھِل رہے ہوں لیکن اصطلاحاََ اس کا مطلب ملّت کا دستور الفکر و العمل ہے۔جس کو افراد ِ ملّت آباد و اختیار نہیں کر رہے ہیں۔
۔
فقیر ِ راہ
فقر اسوۂ حسنہ کا اجمال ِ اکبر ہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"الفقرُ فَخرِی" راہ سے مراد صراطِ سنت و سیرت اور جادۂ اتباع ِ حبیبﷺ ہے۔
فقیرِ راہ کا مطلب ترجمانِ اسوۂ حسنہ حکیم الامت، اقبالؒ ہے جو دھر میں اسمِ محمدﷺ سے اجالا کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔وفائے محمدیؐ کی تلقین کر رہا ہے۔
نہ شیخِ شھر، نہ شاعر، نہ خرقہ پوش اقبال
فقیرِ راہ نشیں است و و دل غنی دارد
۔
اسرارِ سلطانی
اسرار سِرّ کی تفصیل ہے۔سِرّ و وجودِ انسانی میں ودیعت کئے جانے والے لطائفِ ستّہ میں سے ایک ہے۔لطائف معنوی قابلتیں ہیں جن کے ذریعے انسان عالمِ مادی، عالمِ ماوٰی اور حضرتِ حق جلّ شانَہ سے متصل ہے۔ان لطائف ِ عالیہ میں لطیفہءقلبی، لطیفہء روحی، لطیفہءسِرّی، لطیفہءنفسی، لطیفہءخفی اور لطیفہءاخفیٰ شامل ہیں۔سِرّ اہم ترین لطفی مقام ہے۔یہ روح کا مرکز ہے۔اس میں تمام اسرارِ نہانی مرموز(Codified) ہیں۔عالمِ بالا اور عالمِ مثال میں کیے گئے تمام میثاق حتی کہ دیدارِ الہیٰ کی تفصیلات اور حلاوتیں بھی سِرّ کے اندر مسرور ہیں۔سِرّ تک رسائی کے لیے قلبِ حقیقی کی بینائی، روح کا متجّلیٰ ہونا، عقل کا ممیز ہونا، نفس کا عارف ہونا اور وجدان کا مرتبۂ عشق پر جلوہ گر ہونا ضروری ہے۔
سِرّ کے حقائق و الطاف جب معلوم ہو جائیں تو بندہ کو حجّت ِ باطنی نصیب ہوتی ہے۔اس حجّت ِ باطنی کو ذوقی و مشربی زبان میں سلطان کہتے ہیں:-
"وجعلنی من لدنک سلطاٰ نا نصیرا"
رسول اللہ ﷺ کی دعا:-
اللھم ارنی حقیقۃ الاشیاء کی بھی یہی تعبیر ہے۔بس حکیم الامتؒ شکر گزار ہیں کہ اللہ جلّ شانہ نے اپنے حبیب ِ لبیبﷺ کے صدقے اُن کو اسرارِ سلطانی مرحمت فرمائے ہیں۔
۔
نے نوازی
نے بانسری، شپلئی، غوزہ وغیرہ کو کہتے ہیں۔یہ ایک انفرادی اٰلۂ موسیقی و نشاط ہے۔اس کا نغمہ طرب و درد دونوں سے معمور ہوتا ہے۔عارفِ رومؒ نے اِس کو بطور استعارہ برتا ہے۔اس استعارہ کے پردہ میں حضرتِ عارف جلال الدین رومیؒ نے اکنون، کن فیکون، ماویٰ، مادہ ، روح ، بدن ، حیات ، وجد ، عشق، ہجر، وصال وغیرہ کے اسرار و رموز نہایت پُر تاثیر انداز سے بیان کیے ہیں۔اس عظیم ذَوقی، مشربی اور وجدانی دبستان ِ معرفت کا نام مثنویِ روم ؒہے۔ یہ علم و مشرب ِ سلوکِ الی اللہ میں ایک مکمل مکتب ہے۔
حکیم الامتؒ بھی اِ س مکتب کے تلمیذِ اعظم ہیں ۔آپؒ اپنے کو مریدِ ہندی ، حضرتِ روم کو پیرِ رومیؒ، اس ارادت کو صحبتِ پیرِ رومؒ اور اِس اسلوب کو نَے نوازی کہتے ہیں۔
مثنوی کا آغاز: بشنواز نَے چوں شکایت می کند
از جدائی ہا حکایت می کند
مفہوم : سنو بانسری کا نغمہ (روح کا نغمہ) ہجر کی شکایت کر رہا ہے اور وصال کی حکایت سُنا رہا ہے۔
حکیم الامتؒ فرماتے ہیں:-
از نےَ آن نے نوازِ پاک زاد
باز شورے در نہادِ من فتاد
مفہوم: اس پاک باز بانسری سرا کی بانسری نے میرے تن بدن میں پھر سے ایک شور برپا کر دیا ہے۔
۔
دانشِ برہانی
اِس سے مراد علمِ باطن ہے۔یہ تب ارزاں ہوتا ہے جب لطائف ِ ستّہ کارفرما اور متجلّیٰ ہوں تب اشیاء کے حقائق منکشف ہوتے رہتے ہیں۔یہ دانشِ تخمین و ظن کی محتاج نہیں اور نہ ہی دلیل و استدلال اور تعبیر و تاویل سے سروکار رکھتی ہے۔یہ عشق کی سلطنتِ عالیہ سے اعانت پزیر ہو کر عریشۂ حقُ الیقین پر نشست فرما ہوتی ہے۔دانشِ نورانی قلبِ بصیر کے فتوحات میں سے ہے۔یہ وہ فضل و عطا ہے جو وسواس و خطوات اور اضطراب و التباس سے بے نیاز و آزاد کر دیتا ہے۔
۔
دانشِ برھانی
دلائل و براھین کا علم مراد ہے ۔یہ کسبی علوم ہیں۔دلیل ا ستدلال اور تاویل و تعبیر کے رھینِ منت ہوتے ہیں۔ان علوم کی منزل حیرت ہے۔کائنات میں غور و فکر ، اپنے نفس کی وسعتوں میں غور و فکر، اپنے نفس کی وسعتوں میں غور و فکر، صفاتِ ربّانیہ میں غور و فکر، طالبِ دانشِ برھانی کو حیرت کی ابتلا میں مبتلا کر دیتا ہے اور و ہ تلاشِ مزید کا متمنی ہو کر کسی آستانِ کاملے پر بوسہ زن ہو کر مُشتِ گلے سے کیمیا بنا لیتا ہے اور دانشِ نورانی سے شاد کام ہو جاتا ہے۔
۔
جوھرِ ملکوتی
خالق و فاطر جَلَّ شانہ نے اپنے ارادے کو اوّلاََ جوھری ظہور دیا ۔جوھر سے مراد وہ نورانی او رمعنوی اعتباری وجود ہے جو مادی طور پر دیکھا نہیں جا سکتا۔سب سے پہلے نورِ محمدیﷺ ھویدا ہوا جس کو متکلمین ِ اسلام اور حکیم الامتؒ نے جوھرِ اول کہا ہے۔اُس جوھر نے تنوع و توسیع و تبسیط فرمائی تو الطاف و معانی رو پزیر ہوتے چلے گئے۔تب عالم ِ امر نے تشکیل پائی اور وہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا۔ایک حصہ عالمِ جبروت کہلایا ، دوسرے کو عالمِ ملکوت نام دیا گیا۔عالمِ ملکوت اجسامُٗ نورانیہ یعنی ملائکۃ اللہ کا جہان ہے۔انسان چونکہ مربتۂ جامعہ پر ہے، اس میں جہاں باقی تمام معنوی جواھر اور طبعی عناصر کے زبدات( Extracts) موجود ہیں وہاں ملکوتی صفات بھی میسر ہیں، حکیم الامتؒ نے اُن صفات کو جوھرِ ملکوتی یعنی فرشتوں والی خصلت یا قابلیت کہا ہے۔
۔
حضرتِ یزداں
اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ِ پاک ، صفاتِ عالیہ، اسماءِ مبارکہ اور انوارات ِ جلیلہ کے لیے اہلِ ذوق و مشرب و معرفت ِ بقاءُ البقاء، خطیرۃُالقدس اور ھاھوت و لاھوت کی اصطلاحیں استعمال کرتے آ رہے ہیں۔حکیم الامتؒ نے اس سارے مشربی اور عرفانی تناظر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کمالِ صیانت سے "حضرتِ یزداں" کی ترکیب استعمال فرمائی ۔اس کا مفہوم ہے کہ وہ ذات ِ حقّ، ذاتِ بحت دائماََ، مطلقاَ، اکملاََ اور سرمداََ حاضرو موجود ہے۔اُس کی ذات بھی یزدانی ہے اور اُس کے صفات بھی یزدانی ہیں۔
۔
طلسمِ رنگ و بو
مادی جہان مراد ہے جہاں عناصر مشہود ہیں۔روحِ نباتی سے عالمِ خیال اور عالمِ رتق رو پزیر ہوئے۔خیال کے طلسم و تدبیر سے باد و آب و خاک و آتش و جبال و اشجار و وحوش و معدن و اجناس رونما ہوئے اور انسان اِس عالمِ عناصر یعنی طلسمِ رنگ و بو میں ایک مدت ِ معین تک متکلف و محصور ہو گیا جہاں اُس کو مستقر و متاع میسر ہوتے ہیں لیکن وہ تحفظ و انشائے جسمانی کے لیے ہیں۔وہ یعنی حضرتِ انسان خلیفۃ اللہ، شاہینِ شہہِ لولاکﷺ خودی کو بیخودی کے بال و پر لگا کر لولاک کی سیر کر سکتا ہے۔
۔
عینِ فطرت
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام تکوینیات و تشریعات و امکانات و اعتبارات و ظہور یات و مشہودات کا بدیع و فاطر و خالق ہے۔یہ کائنات اور اس کے معنوی و مادی اجزاء صفات کے تجلیّات کے عیون ہیں۔شیخِ اکبرؒ فرماتے ہیں"ظہور و شہود(Metaphysics & Physics) عینِ حق ہے۔یعنی یہ وہ آنکھ ہے جس سے ہم حق کی صفات و تجلیات کی برکات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔فطرت اور اُس کے تمام اجزا و انواع الفاطر نے استوار فرمائی ہیں۔ان آفاق و افطار میں ہدایت کا سیلاب امڈا ہوا ہے۔"یریکم اللہ آیاتہٖ فی الآفاق و فی انفسکم":" فاطر السٰمٰوات و الارض" بس ان فطریات کو حکیم الامتؒ نے عین تجلی کہا ہے۔
۔
علم و عرفان
علم جاننے کا سلسلہ ہے۔اس کی اعلیٰ قسم وحی ہے۔پھر القا، اطلاع، خبر، کسب وغیرہ سے بھی اِس کا حصول میسر ہے۔لیکن علم وحی قطعی ہے باقی ذرائع سے حاصل کردہ علوم ظنّی ہیں۔اگر علم ِ قطعی(وحی) کے تابع ہیں تو قابلِ جلب ہیں ، وگرنہ قابلِ ترک ہیں۔علم کا باطنی استحضار اور اُس کا ذوقی و مشربی ارتقاء عرفان کہلاتا ہے۔عرفان کے بغیر محض علم و خبر ظاھریّت ہے ۔اس سے نہ تو فرد بنتا ہے اور نہ ہی ملّت! فرد و ملت کی تشکیل و تعمیر علم و عرفان سے ہوتی ہے۔
۔
جذب و مستی
حق اور اس کے عوامل و مشارب کو انگیز کرنا جذب کہلاتا ہے اور جب یہ جذب و خودی قلب کو بینا، روح کو متجلیٰ، سِرّ کو مضطرب، عقل کو متلاشی، نفس کو متعارف اور وجدان کو مُتَحَا بِب (Loving) بنادیں تو مستی و بیخودی کا جہانِ بیکراں جلوہ زد ہوتا ہے۔اِس جذب و مستی کے اجتماع، ظاہرو باطن کی موافقت، قلب و نظر کی یگانگت اور روح و جسم کی تحریک سے مرتبۂ جامعہ یعنی حضرتِ انسان اپنے اصل نصب العین سے ہمکنار ہوتا ہے۔
۔
گلیمِ بوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
گلیم سے مراد صَوف کی چادر ، اُونی رداء اور صوف (پشمینہ) کا خرقہ ہے۔بوذر کا مطلب رسول اللہ ﷺ و علی اٰلہٖ وسلم کے عدیم النظیر صحابی سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔گلیمِ بوذر کا مفہوم جناب اباذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فقر، آپ کا حُسن ِ طریقت، توکل علی اللہ ، استغنا، حق گوئی و بیباکی اور رغبت الی اللہ ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب متعدد ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسیح الا سلام کے لقب سے ملقَّب فرمایا۔
غزوۂ عسرت کے موقع پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"اباذر تنہا چلتے ہو، تنہائی میں ارتحال نصیب ہو گا اور اگلے جہان امت کے طور پراٹھائے جاؤ گے"
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت زیادہ تکالیف جھیلیں۔سرمایہ داریت اور ارتکازِ دولت کو حرام سمجھتے تھے اس لیے بنو امیہ اور اُن کے گماشتوں نے آپ کو بہت ستایا۔بالآخر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت کسمپرسی کے ساتھ ربزہ کے صحرائی مقام پر وفات پا گئے۔حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتفاقاََ اہلِ اللہ کی ایک جماعت کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ مکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدنا عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر فرمائی۔انہوں نے تجہیز و تکفین و تدفین کا اہتمام فرمایا۔حکیم الامتؒ کے نزدیک گلیمِ بوذر سے مراد فقرِ اسلامی ہے۔
۔
دَلقِ اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
دَلق کا مطلب لباسِ صَوف ، پشمینہ کا کپڑا، ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ملبوس بنانا، پیوند لگا کپڑا! اویس سے مراد کشتۂ ناز، رہ روِ رہِ وفا سیدنا اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ترکیب کا مفہوم تصوفِ اسلامی، فقر و طریقت، زھد و رھبانیت ہے۔سیدنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عجب محبِّ رسولﷺ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شفیعِ امت اور خرقہ بردارِ مصطفیﷺ ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے محبوبِ محجوب ہیں۔بہت کم لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مطلع ہوئے۔سیدنا علی علیہ سلام اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا۔مشہور تابعی ہرم بن حیان ؒ نے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفین میں بغاۃِ شام سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
۔
چادرِ زہرا ءؑ
سیدہ فاطمۃ الزھراؑ مخدراتِ اسلام کی سردار اور سیدۃ النساء ِ العالمین و اہلِ الجنّۃ ہیں۔آپؑ ، رسول اللہ ﷺ کی تصویرِ حقّانی، مطہرو معصوم و طیّب و واجب المودۃ ہیں۔آپؑ کوثرِ اسلام اور اُمِّ الائمہ ہیں۔خواتین ناموسِ اسلام ہیں اور اِن کی حرمت نسبتِ فاطمہ الزھراءؑ کے رہینِ منت ہے۔ جلباب، خِمار، چادر و رداء خاتونِ اسلام کا شعار ہے اور اِس کی نسبت اُس شعارِ اعظم سے ہے جس کو سیدہ طاہرہ طیبہؑ کے سرِ انور کو چھونے کا فخر حاصل ہے۔
حکیم الامتؒ کے نزدیک چادرِ زھراءؑ سے مراد فاطمیّت ہے۔
۔
مردانِ حُر
مُرد کا مطلب ہے عزم کرنے والا، اداردت مند اور حُر سے مراد رجسِ نفس سے آزاد!
مردانِ حُر سے مراد وہ تزکیۃ المآب افرادِ ملت ہیں جو شُحۂ نفس سے خلاصی پا چکے ہیں۔آلائش ِ باطن سے نجات پا کر طہارتِ باطنی کے حامل ہو چکے ہوں۔ایسے ہی افراد منازلِ خودی طے کرنے والے ہیں اور معرفت کے حدائق میں قدم رکھنے والے ہیں۔ حرص و ہوس اور ظلم و تعدی سے پاک ایسے ہی طبائع و انفاس کے مالک افراد مردانِ حُر کہلاتے ہیں۔
۔
گوہرِ فردا
گوہر بمعنی موتی اور فردا بمعنی مستقبل!
موتی کی افزائش میں قطرۂ نیساں، صدف کی قناعت، دریا کا طلاطم ، موجوں کے تھپیڑے اور ابتلائے پیہم سب کچھ شامل ہے۔وہ افراد جو ملت کا مستقبل سنوارتے ہیں، اُن کو بھی ایسے ہی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔اِن ابتلاءٰت اور تکادیب(Hardships) سے گزر کر وہ موتی اور کندن بنتے ہیں اور ملت کے مستقبل کو چمک دمک عطا کرتے ہیں۔پیشوائے ملت سیدنا ابراہیمؑ بھی مہا ابتلاءٰت سے گزرے تھے۔
۔
یدِ بیضا
یَد ہاتھ اور بیضا سفید و چمکدار کے معنوں میں ہے۔یہ ترکیب آیتِ قرآنی سے متلمح ہے :-
فازا ھی بیضا ءُ للنَّا ظرین
جب سیدنا موسیٰؑ نے اپنا دستِ یمین بِاَمرِ اللہ اپنے پہلو سے باہر نکالا تو وہ مثلِ آفتاب چمکنے لگا۔یہ مثلِ عصا آپؑ کا دوسرا معجزہ تھا۔حکیم الامتؒ نے اس کو بطورِ ترکیب برت کر نبوی برھان کے لیے مراد لیا ہے۔اِس سے وہ نورِ ہدایت بھی مقصود ہے جو رسالت و نبوت کے توسل سے ہمیں میسر ہے اور اللہ کی نصرت بھی مراد ہے۔
۔
دانائے سُبل
دانا جاننے والا، اعلیٰ فہم رکھنے والا، سُبُل سبیل کی جمع ہے ۔مراد ہے راستے!
تمام انبیاء و رُسُل علیھم السلام کے راستے سُبُل السلام ہیں یعنی سلامتی کے راستے ہیں۔یہ تمام سُبُل شریعت ِ مصطفویؐ ہیں۔بدرجۂ اتم و اختم و اکمل واحسن موجود ہیں ا س لیے حکیم الامتؒ نے آقائے نامدارﷺ کو دانائے سُبل کی ترکیب سے مدحت پیش کی ہے اور پھر باعثِ تخلیقِ کائنات، رازِ کُن فکانﷺ تمام امکانی و اعتباری راستوں کے دانا ہیں۔باذنِ اللہ :چنانچہ خوب ترکیب موزون فرمائی ہے ۔حضرت اقبالؒ نے
۔
مولائے کل
مولا کا لفظ مطلقاََ صرف اللہ کی صفت ہے ۔نزولی معنوں میں اس سے مراد سرکارِ رسالتﷺ کی ذاتِ با برکات ہے۔آپﷺ کو اللہ نے اپنے تمام خلائق کا والی اور سردار بنایا ۔جن و انس کا ھادیء اعظم، سید الاوّلین و الآخرین، امام الانبیاء و المرسلین اور باعثِ ظہور و شہود آپﷺ کی ھستیء لولاک ہے۔انہی سب عالی شان نسبتوں کے توافق میں حکیم الامتؒ نے مولائے کُل کی ترکیب سے آپﷺ کی مدحت و منقبت فرمائی ہے۔
۔
نَفَسِ جبرئیل
نَفَس ایک لطیف جوھر ہے۔یہ اُن چھ لطائف میں سے ایک ہے جو وجودِ انسانی میں باطنی طور پر ودیعت ہیں۔نَفَس فی الاصل معرفت کی آماجگاہ ہے۔معرفت اللہ کی محبت کی وہ حلاوت ہے جس کی انتہا قُرب اور کلام ہے۔معرفت کے درجۂ احسان پر قُرب میسر آتا ہے اور درجۂ عشق و سرمستی پر مکالمہ نصیب ہوتا ہے اور نفس نفسِ مُلہَمَہ کے منصب سے شاد کام ہوتا ہے ۔قرب و الہام کا یہ منصب روح الامین سیدنا جبرئیلؑ کا طرۂ اعزاز و اکرام ہے اور یہی منصب محبّانِ رسولﷺ کو بدرجۂ امتیاز اہتمام میسر ہے ۔حکیم الامتؒ فرماتے ہیں کہ حبِّ حبیبِ لبیبﷺ کے وسیلے سے جو اسرار و الطاف و بشارات و حروفِ معانی مجھے حق تعالیٰ جلّ شانہ کی طرف سے تصدُّق ہوئے ہیں، اُن کے اظہار و تبیان کے لیے مجھے نفسِ جبرئیل ؑ کی ضرورت ہے۔
۔
آتشِ رومیؒ
آتش کا لغوی معنی تو آگ ہے لیکن یہاں اِس کا مطلب عشقِ سرمدی اور سرمستی و وارفتگی یا جذب و انابت الی اللہ ہے۔رومیؒ سے مراد امامِ عارف جلال الدین رومی بلخی القونویؒ ہیں۔آپؒ مکتبِ عشق و ذوق و شوق کے امامِ مُنتَسَب ہیں۔ ابتداء میں تفسیر و حدیث و فقہ و کلام کے متبحر عالم تھے ۔قونیہ میں خواص و عوام حتیٰ کہ ارکانِ سلطنت بھی آپ کے حلقہ بگوشِ درس و اجلاس تھے لیکن اللہ جل ّشانہ کو کچھ اور منظور تھا۔رجال الغیب کی نظرِ التفات آپؒ پر پڑی ، چنانچہ حضرت شیخ و الاتبار کمال الدین جنیدی ؒ نے اپنے شہباز شمسِ تبریزیؒ کو آپؒ کی طرف یہ سندیسہ دے کر بھیجا:-
"فرزند جاؤ! قونیہ میں ایک بے چین روح اور سوختہ جان ہے اس کو گرما دو"
پیرِ تبریزےؒزِ ارشادِ کمال
جست راہِ مکتبِ مُلاّ جلالؒ
(حکیم الامتؒ)
خیر طویل داستان ہے۔بعد میں مُلاّ جلال تو تحلیل ہو گئے لیکن اُن کی سرشت سے مولانائے رومؒ نے انگڑائی لی جنہوں نے مکتبِ عشقِ سرمدی کی بنیاد رکھی۔اُس نَے نواز کے نغموں نے عرب و عجم و ھند میں ہلچل برپا کر دی۔حکیم الامتؒ اُن کے خوشہ چینوں میں سے سربر آوردہ ہیں اور نسلِ نو کا علاج نغمۂ نےَ نواز میں ملاحظہ فرما رہے ہیں؛
علاج آتشِ رومیؒ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
۔
صاحبِ لولاکﷺ
حکیم الامتؒ کی یہ ترکیب نظریہء حقیقۃِ محمدیہﷺ کا اظہارِ جلّی ہے۔اس ترکیب کی اساس ایک حدیث ِ قدسی پر ہے:-
"لولاکَ خَلَقتُ ما خَلَقتُ الافلاک"
ترجمہ: اے حبیبﷺ اگر ہم آپﷺ کو خَلق نہ فرماتے تو افلاک یعنی کائنات اور اُس کے اجزاء کو خَلق نہ فرماتے"
کائنات ایک ضمیرِ کُن فکاں ہے۔اللہ نے اپنی صفات کے آئینوں میں محبت کی نظر فرمائی اور اپنے حبیب محمدﷺ کو محبوب جانا، اُن کو منتخب فرمایا۔اُن کے لیے امکانات و اعتبارات کا تعین فرمایا جن کو کائنات اور اجزائے کائنات کا نام دیا جاتا ہے۔پھر اُن تمام امکانات و اعتبارات کو اپنی قدرت، تصرف ، تقدیر، تدبیر، حکمت اور ارادہ میں رکھا۔اعیانِ ثابتہ اور اکنون میں اُن کی تکمیل کے بعد اپنے ارادے کا اظہار فرمایا۔کُن کے صوتِ سرمدی نے فیکون کے عمل کو ابتداء دی۔یہ ابتدا جوھرِ اعظم یعنی نورِ محمدیﷺ کے معنوی ظہور سے آغاز پزیر ہوئی۔اُس جوھر سے الطاف و معانی و اوامر و جبروت و ملکوت و مثال و شہود روپزیر ہوتے چلے گئے اور کائنات ماویٰ و مادہ کی تلطیف و تکثیف سنورتی چلی گئی۔۔بس صاحبِ لولاکﷺ کے یہی اجمال و افصال ہیں جو حکیم الامتؒ نے اپنے کلامِ منظوم میں خوب خوب بیان فرمائے ہیں:-
از تو پرسم گرچہ پر سیدن خطااست
سرِّ آں جوھر کہ نامش مصطفیٰؐ است
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
۔
فیضانِ نظر
نگاہ ظاہری ہو تو آفاق و آیاتِ استقرائی کا مشاہدہ کرتی ہے۔ان ناسوتی اشیاء کا جائزہ لیتی ہے۔ماہیت و تجربیّت ممکنہ حد تک معلوم کر کے اِن چیزوں کے افادات کا تعین کرتی ہے۔
نگاہ اگر باطنی ہو تو اسرار و الطاف دیکھتی ہے۔نگاہِ اکبر تو نگاہِ رسولِ اکرمﷺ ہے باقی سب نگاہیں آپﷺ ہی کی فیضانِ نظر کی رھینِ منت ہیں۔صرف اِس نظر ِ پاک نے حقیقۃِ مطلقہ اور حسنِ ازل کا نظارا کیا تھا۔سب کچھ صرف اِس نظرِ ذی متاب پر کھلا۔یہاں سے ہر ایک کو اُس کے ظرف اور استعداد کے مطابق فیض ملتا رہا اور ملتا رہے گا۔ وقُولوا انْظُرْنا واسْمَعُوا کا یہی مطلب ِ جلّی ہے۔
فیضانِ نظر حکیم الامتؒ کے نزدیک تزکیاتی عمل ہے جو ماویٰ و مادہ میں جاری و ساری ہے۔باعثِ تخلیقِ کائنات، شمعِ شبستانِ وجود محمد رسول اللہ ﷺ سے فیض پا رہے ہیں اور باقی تما م مخلوقات آنجناب دانائے سبل مولائے کُل سے فیض حاصل کر رہی ہیں؛-
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقلِ غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
۔۔
حسنِ معنی
فیکون کا عملِ مسلسل دو طبقات پر مشتمل ہے۔قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے اِس کو یومین سے تعبیر کیا ہے۔ایک طبق معنوی ہے دوسرا ماوی!
معنوی طبق لطیف ہے جبکہ مادی طبق کثیف ہے۔کثافتِ مادی بھی لطافت ِ معنوی کے مرھونِ منت ہے۔
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا
حکیم الامتؒ حسنِ معنی کے لیے باطنی شعور جگانے کی کوشش کرتے ہیں جو تجلّیہ ء روح ، تزکیہء نفس اور تصفیہء قلب کے بغیر ممکن نہیں۔معانی اصل ہیں اور قوالب اُن کا لباس ہیں۔مثلاََ جسم کثیف ہے اور روح لطیف ہے۔یہ لطیف دراصل معنوی ہے جو مادی جسم کو متحرک و متفعل رکھے ہوئے ہے۔دیدِ حق یعنی حسنِ ازل کی زیارت کے لیے معنوی سطح پر بصارت درکار ہے۔
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
۔
بُتانِ عصرِ حاضر
یہ متداول(Traditional) مذہبی تعلیم و تدریس کے لیے حکیم الامتؒ کی سہہ لفظی ترکیب ہے۔بُت سے مراد وہ صورتِ انسانی ہے جو متلاشی، متحقِّق اور متجسس نہ ہو، محض مقلّد ہو، ذہنی طور پر مسخر و متقیّد ہو۔مدارس میں یہی پود تیار ہو رہی ہے۔فقیہانہ اور کلامی بندشوں میں الجھی ہوئی اور حسنِ فکر و عمل سے کوسوں دور!
حکیم الامتؒ ایک متحرک، مُتَوَجِّد اور جاندار نظامِ تعلیم کے خواہاں ہیں۔
عالم مَن و تو
لا الہ الا اللہ کا مشربی و ذَوقی مطلب لا موجود ُ الا ھُو ہے۔وہ وجودِ حقیقی اَلمُکَوِّن، المقتدر، المدبّر، المختار، البدیع، الفاطر اور الخالق ہے۔وہ ذاتِ والا صفات و بالا اسماء صاحبِ امر ہے۔کُن اُس کا اَمَر ہے۔کُن کی شرح فیکون ہے ۔فیکون کا آغاز جوھرِ تاباں اور نورِ محبوبِ کبریاﷺ ہے۔تمام خلائق فی الاصل اعتبارات و امکانات ہیں۔دوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اعتبار و امکان اگر حق کی وحدۃ پر نثار ہو جائیں اور بقولِ رسول اللہ ﷺ "قولو الا الہ الا اللہ تفلحوا" کی منزل سے ہمکنار ہو جائیں تو عالمِ من و تو ختم ہو جاتا ہے:-
مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو
پلا کے مجھ کو مئے لا الہ الا ھو
۔
خاک و خوں، صلۂ شہید، تب و تابِ جاودانہ
یہ تینوں تراکیب ایک ہی شعر میں برتے گئے ہیں اور اِن کے مفاہیم بھی متصل سمجھے جا سکتے ہیں۔خاک و خوں سے مراد وجودِ انسانی اور اُس کا ماحول ہے۔یہ ماحول فی الاصل معنوی و مادی جہان ہے جو خدمات کے درجہ میں ہے اور حضرتِ انسان مخدوم ہے۔شہید سے مراد شہیدِ اکبر ﷺ ہیں جس نے معنوی و ظہوری شہود پا کر سب سے پہلے شہادتِ حق کا نعرۂ مستانہ بلند کیا۔تب و تابِ جاودانہ سے مراد عشقِ ربانی کی بے کرانی ہے۔
۔
ادب گہِ محبت
کائنات کا خیال محبت ہی کی برکت ہے۔اُس کی ذات ، صفات اور اسماء سب مکمل و اکمل ہیں۔"کنتُ کِنزا مخفیّا فا حببتُ ان اُعرَفُ فخلقتُ الخَلق " میں رازِ محبت ہی تو پنہاں ہے۔محبت میں ہجر و وصال دونوں کارفرما ہیں۔تکوین ہجر ہے اور تشریع وصال ہے جبکہ معرفت کمالِ وصال ہے اور معرفت نگاہِ کرم میں پرورش پاتی ہے۔نگاہِ کرم کا محلِ ارتکاز محبت ہے۔ اس لیے آقائے کریمﷺ نے فرمایا:-
"لا ایمان لمن لا محبۃ لہ"
تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبت، وہ نگہ کا تازیانہ
۔
ضمیرِ لاالہ
یہ استعاراتی ترکیب ہے۔لالہ منفرد پھول ہے۔صحرا میں سرخ قباپہن کر جلوہ گر ہوتا ہے۔حکیم الامۃ نے اس کو قلبِ انسانی کے لیے مستعارِ منہ کے طور پر لیا ہے۔لیکن یہ استعارہ قلبِ صنوبری یعنی قلبِ نباتی کےلیے (Organic Heart) ضمیر سے مراد قلبِ نہانی یعنی قلبِ حقیقی ہے جو ایک وجودِ لطفی و معنوی ہے جہاں روح نے بسیرا کیا ہے۔سِرّ نے سر چھپا یا ہے۔نفس متحرک و طالب ہے اور وجدان مضطرب و متواجد ہے۔