Print this page

حضرت ابنِ نجّار ؒ کا طریقہ ء تعلیم

03 January 2022
(0 votes)
Author :  

اہلِ علم نے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوّا ؑ کا طریقہء تربیت لکھا ہے جس کو انھوں نے  استعمال کیا۔سیدنا شیث ؑ کی کفالت میں اس کے کچھ نکات  اہلِ علم نے لکھے ہیں یہ بہت بڑے ماہرِ تعلیم ابنِ نجّا ر کی تقویم ہے۔

خَلق ، خُلق ، جبلّت ، فطرت ، طبیعت ، نفس

 

 

  • خَلق سے مراد حضرت آدمؑ ہیں۔جتنی خَلقی خوبیاں ہیں اعداء ، اثماء وغیرہ ۔اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو عطا فرمائی ہیں۔اب آدمؑ کا طریقہء تربیت اپنے فرزند کے لیے کیا تھا۔
  • خُلق کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ نے حضرت شیث ؑ کو کریمانہ اخلاق سکھائے۔اقدار کی تعلیم دی۔سچ بولنا ہے، حُسنِ خُلق سے پیش آنا ہے، مکارمِ اخلاق اختیار کرنے ہیں۔یہ خُلقی، تعلیم و تدریس اور  تربیت ہے۔
  • جبلت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک طاقت رکھی ہے۔اِ سکی حفاظت بہت ضروری ہے۔یہ انسان کے پاس خزانہ ہے۔اِ س خزانے پر چور مسلط ہوتے ہیں اور وہ ہیں وسوسہ، خطوہ اور شہوہ۔جب شیطان وسوسے کے ذریعے انسان کی جبلت میں اپنا سفارت خانہ بنا لیتا ہے تو اِ س صورت حال کو خطوہ کہتے  ہیں۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے "ولا تتبع خطوات الشیطن"اور شیطان کے خطوات کے پیچھے نہ چلو"یہ خطوہ جب اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے تو شہوہ کہلاتا ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے"جو شہوہ سے بچ گیا ، وہ فلاح پا گیا"

  • جبلت ایک طاقت ہے ، استعداد ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمائی ہے۔اسے ان تینوں چوروں سے بچانا ہے۔فرمانِ الہیٰ ہے
    "اے بنی آدم! شیطان کی پیروی نہ کرو۔میرے عبادت کرو، میرے احکام کی پیروی کرو۔کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اِس شیطان نے تم میں سے کتنوں کی جبلت بگاڑ دی"
    جبلت کی حفاظت آبروئے ملت تعلیمی نظام میں ضروری ہے۔
  • جس طرح جبلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خارجی دنیا میں ایک ودیعت فرمائی ہے جسے فطرت کہتے ہیں۔اسے جبلت کے ساتھ خاص ارتباط حاصل ہے۔سورج ، چاند، ستارے وغیرہ یہ سب فطری مناظر میں شامل ہیں۔اس سے جبلت مضبوط ہوتی ہے چونکہ یہ ہدایت کی نشانی ہوتی ہے۔قرآ ن دو طرح کے ہیں۔ایک وہ جو حضورؐ کےقلبِ اطہر پر نازل ہوا۔ایک قرآن اَثَری ہے۔جس میں تمام فطری مناظر شامل ہیں۔یہ فطرت کو ہدایت پر استوار کرتے ہیں اور فطرت کو ہدایت پر ا ستحکام و انضباط بخشتے ہیں۔ابنِ نجارؒ فرماتے ہیں کہ بچوں کو فطرت آگیں بنائیں تا کہ یہ مناظر اُن کی طبیعت پر اس طرح اثرانداز ہوں جس طرح قرآن نے ان کی افادیت بتائی ہے۔جیسے ستارے سے یہ ملتا ہے ، چاند سے یہ ملتا ہے وغیرہ ۔یہ سب ایک لحاظ سے خدمات ہیں،  ہدایت کی آیات ہیں۔
  • طبیعت
    جب انسان فطری مناظر کو ہدایت پانے کے لیے استعمال کرتا ہے تو طبیعت کے اندر ایک روحانی  کیفیت پیدا ہوتی ہے۔طبیعت اِن چیزوں سے مانوس ہو کر ہدایت پر جم جاتی ہے
  • طبیعت کے بعد نفس ہے۔نفس جسم و روح کے ملاپ کے بعد پیدا ہوتا ہے۔یہ قوت و استعداد اور باطنی طاقت ہے۔نفس معرفت کا محل ہے۔جب انسان خُلقی سطح پر، جبلی سطح پر، فطری سطح پر، طبعی سطح پر صحیح راستے پر  گامزن ہوتا ہے تو نفس کے اندر خود بخود معرفت پیدا ہوتی ہے۔اس طرح انسان کا سلوک، فلاح ، رفاع کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔یہ بہترین طریقہء تعلیم ہے جو ابنِ نجار نے اپنے رسالوں میں بیان کیا ہے۔

Tag :

1229 Views
Login to post comments
We use cookies to improve our website. By continuing to use this website, you are giving consent to cookies being used. More details…