"فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا" (الکہف65)
تلی ہوئی مچھلی انہوں نے ساتھ لی تھی وہاں تھوڑی دیر رُکے مچھلی زندہ ہو کے سُرنگ بنا کر چلی گئ آگئے پہنچے تو موسی علیہ السلام نے کھانا طلب کیا یوشع بن نون نے عرض کیا کہ حضرت وہ جو دو دریائوں کا سنگم تھا جہاں رکھے تھے تھوڑی دیر کے لئے وہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہو کے دریا میں چلی گئی تھی آپؑ نے فرمایا:
"ذٰلِكَ ما كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصًا" (الکہف64)
"اے یوشع وہی جگہ ہے جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے" خضر وہاں ہو گا جہاں موت حیات میں بدل جائے ۔ خضر علامتِ حیات تھے، خضر وہ تھے جنہوں نے اس آب و ہوا کو یہ سلیقہ اور تاثیر دے دی کہ موت کو حیات سے بدل دے۔
اقبالؒ دو وجہوں کی بنا پر مجھے خضرِعصرنظر آتے ہیں: ایک تو یہ کہ وہ(خضرؑ) علامتِ حیات تھے اقبالؒ پیغامبرِحیات تھے،اقبال کا پورا پیغام تپشِ حیات اور حرکتِ حیات پر مبنی ہے۔ اقبال نے موت کو حیات میں بدلنے اور مردہ قوم کو زندہ قوم میں بدلنے پر پوری توجّہ دی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اقبالؒ سنگھم ہے دو دریاؤں کا جہاں خضر ملتا ہے اور آپ کسی کو پڑھ لیں آپ کو دو دریاؤں کا ایسا سنگم کہیں نظر نہیں آئے گا۔ اقبال بحرِ عقل اور بحرِ عشق کا جہاں ملاپ ہوتا ہے ، بحرِ علم اور بحرِ شوق کا جہاں ملاپ ہوتا ہے، بحرِ عرفان اور بحرِ ایقان، بحرِ فلسفہ اور بحرِ معرفت کا جہاں ملاپ ہوتا ہے کا جہاں ملاپ ہوتا ہے، بحرِ جدَّت اور بحرِقدامت کا جہاں ملاپ ہوتا ہے، بحرِ سکون و اطمینان اور بحرِ انقلاب کا جہاں ملاپ ہوتا ہے اس سنگھم کا نام اقبال ہےاور اسی طرح مشرق اور مغرب کا جہاں ملاپ ہوتا ہے اس حسین سنگھم کا نام اقبالؒ ہے۔