تعیّنِ اوّل کی تبسیط مختلف صورتوں میں ہوئی ۔ ان صورتوں میں سے بعض عالَمِ غیب میں منتشر و منبعث ہوئیں۔ چنانچہ ذات بحت نے '' وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ''۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ''۔ کا مژدہ جانفزاء تنزیل میں فرمایااور ''لولاک لما خلقت الافلاکَ'' القا و تاویل میں فرمایا ۔چنانچہ شارع اعظمﷺ نے اپنے ظہورِعنصری اور بعثتِ شہودی کے بعد اپنے جوہرِ اعتباری کی مختلف تفاصیل و جزئیات ارشاد فرمائیں۔ مثلًا:
''اول ماخلق اللہ نوری'' ''اول ما خلق اللہ جوہری'' ''اول ما خلق اللہ العقل المجرد''
''اول ما خلق اللہ روحی'' ''انا وعلی من نور واحد'' ''جبریلؑ ومیکالؑ وزرائی فی السّماء وابوبکر وعمر فی الارض''
''سلمان من اہلِ بیتی'' ''الجبل الاحد یحبنا''
''فاطمۃ بضعۃ منی'' ''حسین منی وانی من الحسین''۔
یہ اور اس طرح کی اور روایات صورتِ واقعہ پر صاد اور دالّ ہیں ۔
ایک موقع پر فرمایا : کنت نبیا و اٰدمؑ بین الماء والطین۔
''انی اری اخی یونس کان یخاصم قومہ فی اللہ''
علی ہٰذالقیاس ایسے بہت سے اسفار و اخبار و آثار ہیں جو آپ ایسے صاحبِ علم و حلم سےپوشیدہ نہیں ۔
سو اس بیت کا علمی اور تحقیقی پسِ منظر معلوم کرنے کے لئے سیّدنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہ کے تفسیری افادات، سیّدنا علی کرّم اللہ وجہہ کے مناجات، سیّدنا ابوذر غفّاری رضی اللہ عنہ کے لمعات، سیّدنا امام زین العابدینؑ کا رسالات( مراٰۃ العاشقین کے عنوان سے عربی و فارسی میں مطبوع ہیں)شیخِ اکبر قدس اللہ سرہ العزیز کا نظریہءِ وحدۃ الوجود اور نظریہءِ حقیقیۃِ محمدیہ، حضرت عطارؒ کی کتاب سر الاسرار، حضرت عمرو بن عثمان مکیؒ کی کتاب گنج الاسرار، سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کا رسالہ بہجۃ الاسرار، عارف رومی ؒ کی مثنوی اور فیہ مافیہ، حضرتِ نورالدّین عبدالرحمٰن جامی کارسالہ الشّہود، خاقانی کی منظومات تحفۃالعراقین،حضرت سنائیؒ کی حدیقۃ البیان، حضرت حسین بن منصور الحلّاج کا رسالۃ الاشراق، شبستری کی رباعیات گلشنِ راز وغیرہم کو دیکھنا پڑے گا۔
میں ایک نہایت بے خبر ، بے عمل اور مفلس طالِبِ عِلم ہونے کےبا وجود اس بات پر مْصر ہوں کہ یہ شعر قطعًا مبالغہ و مغالطہ نہیں بلکہ جن رشحاتِ علمیہ اور کتب و رسائل کا میں نے حوالہ دیا ہے اْن کا عرق المعروق ہے۔
لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
علّامہ زید گل خٹک صاحب
مشیر روح فورم و آبروئے ملّت